عالمی کرکٹ کی میزبانی کا تین عشروں کے تعطل کے بعد پاکستان کے حصے میں آنا ایسا اعزاز ہے جو کچھ مدت پہلے تک محض ایک خواب محسوس ہوتا تھا۔ پاکستان نے 1996ءکے بعد پہلی بار آئی سی سی ایونٹ کی میزبانی کیلئے ایک لمبا سفر طے کیا ہے۔2009ءمیں لاہور میں سری لنکن کرکٹ ٹیم کی بس پر حملے کے بعد بین الاقوامی کرکٹ کیلئے ملک کی محفوظ حیثیت ختم کردی گئی تھی۔اس سال پاکستان 2009ءکی چیمپئنز ٹرافی کی میزبانی کے حقوق اور 2011ءکے ورلڈ کپ کی مشترکہ میزبانی سے بھی محروم ہو گیا تھا۔ پاکستان کرکٹ بورڈ کے سابق چیئرمین نجم سیٹھی کے بقول‘ جن کے دور میں 2009 ءکے بعد زمبابوے نے پہلی غیر ملکی ٹیم کے طور پر پاکستان کا دورہ کیا‘ پاکستان سپر لیگ نے غیر ملکی ٹیموں کو پاکستان آکر کھیلنے پر قائل کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ یہ خاصا مشکل کام تھا لیکن پی ایس ایل نے ثابت کر دیا کہ پاکستان میں سیکورٹی کا قابل اعتماد انتظام کیا جا سکتا ہے۔ چیمپئنز ٹرافی کیلئے ملک کے اسٹیڈیمز کی تزئین اور اپ گریڈنگ کا کام 100دن کی مختصر مدت میں مکمل کرلیا جانالائق تحسین ہے۔ لاہور کے قذافی اسٹیڈیم اور کراچی کے نیشنل اسٹیڈیم میں بڑی تبدیلیاں کی گئی ہیں‘ لیکن قذافی اسٹیڈیم میں پاکستان کے ایک بھی گروپ میچ کی میزبانی نہیں کی جائے گی۔ پی سی بی نے میزبان ٹیم کے میچ ابتدائی طور پر لاہور میں طے کیے تھے لیکن بھارتی ٹیم کے پاکستان آمد سے انکار کے بعد ’ہائبرڈ‘ ماڈل کے تحت انہیں دبئی منتقل کرنا پڑا۔ بھارت کی اس روایتی تنگ نظری کے باوجود عالمی کرکٹ کی میزبانی پاکستان کے لیے اپنی انتظامی صلاحیتوں اورعمدہ مہمان نوازی کے اظہار کا بہترین موقع ہے جس سے پوری طرح استفادہ ضروری ہے۔ علاوہ ازیں ہمارے کھلاڑیوں کو باہمی تعاون سے بولنگ‘ بیٹنگ اور فیلڈنگ تمام شعبوں میں معیاری کھیل پیش کرکے بین الاقوامی کرکٹ میں پاکستان کا نام روشن کرنے کے اس موقع سے پورا فائدہ اٹھانا چاہیے۔