• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
باب العلم حضرت علی کرم اللہ وجہہ کا قول ہے کہ جس پہ احسان کرو اس کے شر سے بھی بچو۔ جیو نیوز کے سینئر اینکر اور مقبول صحافی حامد میر کو چھہ گولیاں ماری گئیں جن کے زخم تو شاید وقت کے ساتھ مندمل ہو جائیں لیکن ان کے دو دوستوں نے بے وفائی کے جو کچوکے لگائے وہ گھاؤ کبھی نہ بھر پائیں گے۔ان کے ایک دوست خواجہ آصف نے وزارت دفاع کی طرف سے جیو نیوز کے خلاف غداری کے الزامات پر مبنی ریفرنس پر بطور وفاقی وزیر دستخط کر کے اپنی وزارت پر دیرینہ دوستی کو قربان کر دیا جبکہ ان کے دوسرے دوست پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے دو قدم آگے بڑھ کر اپنی نیوز کانفرنس میں جنگ گروپ اور جیو نیوز کو رگیدتے ہوئے الزامات کی بوچھاڑ کر دی اور گیارہ مئی کے عام انتخابات میں مبینہ دھاندلی کا ذمہ دار اسے بھی ٹھہرادیا۔ تبدیلی لانے کے دعوے دار نے الیکشن کے ایک سال بعد احتجاج کا اعلان بھی کر دیا ہے اور ان کے اس انقلابی قدم کے شانہ بشانہ ڈاکٹر علامہ طاہر القادری ہوں گے۔کینیڈا کی شہریت رکھنیو الے ڈاکٹر طاہر القادری نے جب عام انتخابات سے قبل اسلام آباد کے ڈی چوک پر تماشا لگایا اور پاکستان کے جمہوری عمل کو جعلی قرار دیتے ہوئے عمران خان کو اس کا بائیکاٹ کرنے کا کہا تھا تو میں بھی اس نیوز کانفرنس میں موجود تھا جس میں عمران خان نے علامہ صاحب کے فلسفے اور طریقہ کار کی مخالفت کرتے کہا تھا کہ وہ الیکشن کا بائیکاٹ نہیں کریں گے۔ اس وقت ان کا مؤقف تھا کہ وہ طاہرالقادری کی حکمت عملی سے اتفاق نہیں کرتے اور وہ الیکشن میں حصہ لے کر جمہوری عمل کو مضبوط بنانے پر یقین رکھتے ہیں۔ اس وقت خان صاحب کے کان میں پھونک مارنے والوں نے انہیں اتنا اعتماد دے دیا تھا کہ وہ عام انتخابات کے بعد بنی گالہ کے وسیع و عریض محل سے براہ راست مارگلہ کے دامن میں واقع وزیر اعظم ہاؤس پہنچ جائیں گے اس لئے انہیں کینڈین ڈاکٹر کے ساتھ ہاتھ ملانا معیوب لگا تھا۔اس کے بعد ان میں ہوا بھرنے کی رہی سہی کسر لاہور کے اس عظیم الشان جلسے نے پوری کر دی جس کے بعد ایک ٹویٹ بہت مشہور ہوا تھا کہ جنرل پاشا کا جلسہ میاں نواز شریف کے جلسے سے بڑا تھا۔ یہ تھا وہ ماحول جس میں عام انتخابات منعقد ہوئے تاہم مطلوبہ کامیابی نہ ملنے پر کپتان نے بال ٹمپرنگ کے الزامات عائد کرنا شروع کر دئیے اور اب ایک سال گزر جانے کے بعد انہیں طاہر القادری کا طریقہ کار بھانے لگا ہے حالانکہ تحریک انصاف ایک صوبے میں حکومت کر رہی ہے اور وفاق میںدوسری بڑی اپوزیشن جماعت کے طور پر قومی اسمبلی میں وجود رکھتی ہے۔پارلیمنٹ میں نمائندگی رکھنے اور جمہوری طریقے کے ذریعے انتخابی اصلاحات متعارف کرانے کی بجائے سڑکوں پر احتجاج کا راستہ کیوں اختیار کیا گیا اس کا جواب تو تاریخ دے گی لیکن قارئین کو کچھ حقائق سے آگاہ کرتے ہیں۔ عمران خان نے انتخابات میں دھاندلی کیخلاف احتجاجی تحریک کا اعلان کرتے ہوئے ایک غیر سرکاری تنظیم فافن کی رپورٹ کو بار بار لہرایا اور اس کا حوالہ دیا کہ اس تنظیم کی رپورٹ کے مطابق 93حلقوں میں حتمی نتائج کے دوران رجسٹرڈ ووٹرز کی تعداد اور پولنگ اسکیم میں درج ووٹرز کی تعداد میں تضاد پایا گیا ہے۔ رپورٹ کے مطابق ان 93حلقوں میں 2لاکھ 46 ہزار 858 ووٹرز کا فرق پایا گیا۔ ان میں سے 30حلقوں میں 39ہزار 499ووٹ فہرستوں سے کم نکلے جبکہ 63حلقوں میں 2لاکھ 7ہزار 359ووٹ زیادہ کاسٹ ہوئے ہیں۔اب اگر اسی رپورٹ کا حوالہ دیا جائے موصوف میانوالی کے جس حلقہ این اے 71سے کامیاب ہوئے تھے رپورٹ کے مطابق اس حلقہ میں بھی پولنگ اسکیم میں درج ووٹوں کی تعداد 3لاکھ 55ہزار 586 ووٹ تھی لیکن حتمی نتائج کے مطابق کاسٹ کئے گئے ووٹوں کی تعداد 3لاکھ 86ہزار 930ووٹ تھی۔اس طرح اس حلقہ میں بھی 31 ہزار 3سو 44 ووٹ زیادہ کاسٹ ہوئے لیکن اصول پسند کپتان نے کبھی اس حلقے میں دوبارہ گنتی کرانے کا مطالبہ نہیں کیا تھا بلکہ یہ نشست ضمنی الیکشن کیلئے چھوڑ دی تھی۔ رپورٹ لہرانے کیلئے دینے والے نے عمران خان کو یہ بھی نہیں بتایا کہ اسی تنظیم فافن نے الیکشن کمیشن کی طرف سے نوٹس لینے پر اپنی اس رپورٹ کو واپس لیتے ہوئے معذرت کر لی تھی کہ اس میں دئیے گئے اعدادو شمار غلط ہیں۔
الیکشن کمیشن کا ریکارڈ اس کا گواہ ہے جسے دیکھا جا سکتا ہے۔ اب بات کرتے ہیں الیکشن کمیشن کی جس نے ملک بھر میں الیکشن منعقد کرائے اور متعلقہ لوگ جانتے ہیں کہ بطور اپوزیشن لیڈر چوہدری نثار نے پارلیمنٹ میں تحریک انصاف کی نمائندگی نہ ہونے کے باوجود چیف الیکشن کمشنر کی تقرری کے لئے عمران خان سے جامع مشاورت کی تھی اور انہوں نے فخر الدین جی ابراہیم کی تقرری کی بھرپور حمایت کی تھی۔رہی بات ریٹرننگ افسران پر ان کے اعتراضات کی تو یہی عمران خان تھے جنہوں نے الیکشن کمیشن کو مجبور کیا تھا کہ وہ انتظامی افسران کی بجائے عدالتی افسران کو الیکشن کیلئے بطور ریٹرننگ افسران تعینات کرے۔جس سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری پر بھی اب عمران خان دھاندلی کے الزامات عائد کر رہے ہیں انہوں نے ہی جوڈیشل پالیسی اور آئین کے تحت عدالتی افسران کو ریٹرننگ افسران تعینات کرنے سے انکار کر دیا تھا لیکن قائمقام چیف الیکشن کمشنر جسٹس شاکر اللہ جان نے عمران خان کے پر زور اصرار اور مطالبے پر چیف جسٹس آف پاکستان سے درخواست کی تھی کہ عدالتی افسران کو ریٹرننگ افسران تعینات کر دیا جائے جس کے بعد متعلقہ ہائی کورٹس کے چیف جسٹس کی مشاورت سے الیکشن کمیشن نے ان کی تعیناتی کی تھی۔لوگوں کو توہین عدالت کے مقدمے میں عمران خان کا وہ بیان نہیں بھولا کہ میں نے تو چیف جسٹس کے بارے میں کوئی بات نہیں کی بلکہ ریٹرنگ افسران کے کردار پر بات کی تھی لیکن وہ خود یہ بھی بھول گئے۔ سب سے دلچسپ بات یہ ہے کہ موصوف نے ہمیشہ پنجاب اور کراچی میں دھاندلی کا ڈھنڈورا پیٹا لیکن خیبرپختونخوا میں بھی اسی الیکشن کمیشن نے انتخابات منعقد کرائے تھے تو کیا وہاں پر ریٹرننگ افسران کا کردار بالکل ٹھیک تھا کیوں کہ وہاں پر تحریک انصاف کو کامیابی ملی تھی۔ گزشتہ روز ہی الیکشن ٹریبیونل نے این اے 47سے تحریک انصاف کے رکن قیصر جمال کی طرف سے دھاندلی کئے جانے کو ثابت ہونے پر ان کی رکنیت معطل کی ہے۔اب آخر میں بات کرتے ہیں جیو اور جنگ گروپ پر دھاندلی کے الزامات کی تو الیکشن کوریج کے کچھ اعدادو شمار تو جاری کئے جاچکے ہیں، میں صرف وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات سینیٹر پرویز رشید کی گزشتہ روز پارلیمنٹ کے چیمبر میں کی گئی ایک بات کا حوالہ دوں گا جس کے وہاں موجود تین چار اور سینئر صحافی بھی گواہ ہیں،ان کا کہنا تھا کہ گیارہ مئی کو الیکشن کے آخری جلسے کی کوریج پر میاں نواز شریف اور ان کی جماعت بہت پریشان تھی کہ یہ آخری جلسہ ان کیلئے زندگی اور موت کا درجہ رکھتا تھا۔میاں نواز شریف کا جلسہ شروع ہو چکا تھا لیکن اس کی جیو نیوز پر لائیو کوریج شروع نہیں کی گئی، عمران خان نے جیسے ہی اسپتال کے بستر سے خطاب شروع کیا تو جیو نیوز نے لائیو دکھانا شروع کردیا، وہ بیماری کے باعث زیادہ دیر نہ بول سکے اور خطاب جلدی ختم ہو گیا لیکن جیو نیوزاس کے باوجود مسلسل 6منٹ تک تحریک انصاف کے کارکنوں کے بھنگڑے، نعرے اور گیت دکھاتا رہا۔ عمران خان صاحب یہ ہیں وہ حقائق جن سے نظریں چرانے کے لئے آپ نے کالا چشمہ پہن کر تمام الزامات عائد کئے۔
تازہ ترین