بعض اوقات قرآن حدیث سے کوئی حوالہ پیش کریں تو مذہب بیزار دوستوں کی حالت ایسی ہو جاتی ہے، جیسے کسی بے گناہ شخص کو سزائے موت سنا دی گئی ہو۔وہ کہتے ہیں کہ مذہبی ٹچ نہیں ہونا چاہئے۔ اس لیے کہ عقل و دانش کا سرچشمہ انسانی کھوپڑی ہے۔اصل سوال تو یہی ہے کہ یہ کھوپڑی آئی کہاں سے؟ دوسرے گریٹ ایپس کی طرح انسان کو بھی یہ کھوپڑی بنی بنائی ملی ہے۔ اس دنیا کا سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ پانچ ارب قسم کی کھوپڑیوں میں سے ایک اتنی ذہین کیوں ہو گئی؟انسانی جسم اور دماغ کے بنیادی اجزا تو وہی ہیں جن سے دوسرے جاندار بنے ہیں۔ وہ اجزاکون سے ہیں؟چھ عناصر سے 99.9فیصد انسانی و حیوانی جسم بنا ہے یعنی ہائیڈروجن، نائٹروجن، کیلشیم، آکسیجن، فاسفورس اور کاربن۔پھر انسان منفردکیسے؟
تیری صورت سے کسی کی نہیں ملتی صورت
ہم جہاں میں تری تصویر لیے پھرتے ہیں
تو وہ کہتے ہیں کہ عقل و دانش کا منبع انسانی دماغ ہے۔انسانی دانش کا عالم یہ ہے کہ پورے یورپ اور امریکہ میں مرد کی مرد سے شادی سو فیصد جائز اور اس پر اعتراض کرنے والا دنیا کا سب سے بڑا انتہا پسند سمجھاجاتاہے۔
خرد کا نام جنوں پڑ گیا، جنوں کا خرد
جو چاہے آپ کا حسنِ کرشمہ ساز کرے
اس کرّہ ارض پہ تین لاکھ سال گزارنے کے بعد انسانوں نے دو عالمگیر جنگیں لڑیں۔انسانی دانش کا عالم یہ ہے کہ سپر پاور کبھی ویت نام میں ذلیل ہوتی ہے اور کبھی افغانستان میں۔ آج امریکہ، یورپ اور روس یوکرین میں ایسے لڑ رہے ہیں، جیسے بچے ٹافی پہ لڑتے ہیں۔
انسانی عقل و دانش کا حال یہ ہے کہ ابھی ڈیڑھ صدی پہلے تک امریکہ میں غلاموں کی خرید و فروخت ہو رہی تھی۔ملحد اعتراض کرتے ہیں کہ اسلام نے چودہ صدیاں پہلے غلامی کیوں نہ ختم کی۔غلاموں کو حضرت بلال ؓ جیسے مرتبے سے نوازا گیا۔ غلام آزاد کرنے کو عظیم نیکی قرار دیتے ہوئے اس کی بے حد حوصلہ افزائی کی گئی۔ یہ جرم ہو گیا، کفارہ یہ ہے کہ غلام آزاد کرو۔ وہ جرم ہو گیا، غلام آزاد کرو۔
جب یہ حکم دیا گیا کہ جو خود پہنو، غلا م کو پہناؤ، جو خود کھاؤ، غلام کو کھلاؤ تو یہ غلامی کو ختم ہی کیا جا رہا تھا۔ آج اکیسویں صدی میں بھی کتنے ہیں، جو ملازم کو اپنے جیسا کھلا سکیں، پہنا سکیں؟ کتنی وڈیوز سوشل میڈیا پر آتی ہیں کہ ایک خاندان خود کھا رہا ہے، ملازمہ کو نہیں کھلا رہا۔دوسری طرف جو شخص آپ کے بیوی بچوں جتنے حقوق حاصل کر چکا ہے، یعنی آپ کے اہل و عیال جتنا ہی آپ کی ذمہ داری بن چکا ہے،اس کو غلام رکھ کر اب فائدہ کیا؟ تیسری طرف نیکی اور مرتبے میں آپ کو صاف بتا دیا گیا کہ غلام کا تقویٰ زیاد ہ ہے تو اس کا مرتبہ آپ سے زیادہ ہے۔
اس کے مقابلے میں ابھی ڈیڑھ سو سال پہلے تک امریکہ میں کیا ہوتا رہا۔ جیمز میرین سمز کو فادر آف گائناکالوجی کہا جاتاہے۔ اس سرجن نے چودہ سو سال پہلے نہیں، انیسویں صدی کے آغاز میں دورانِ زچگی غلام عورتوں پر ایسے ایسے ہولناک تجربے کیے کہ سوچ کر بھی جسم کانپ اٹھتا ہے۔ کالوں اور غلاموں کے ساتھ جو کچھ ابھی ڈیڑھ دو صدیاں پہلے امریکہ میں ہوتا رہا، اس پر میرا کوئی بھائی تبصرہ نہیں کرتا۔
انسان کی ایسی کوئی خاص عقل ہے ہی نہیں، سوائے اس عقل کے، جو خدا کی طرف سے ہدایت یافتہ ہو۔تمام جانداروں کو خدا نے ان کے ماتھوں سے، جبلتوں اور خواہشوں سے پکڑا ہوا ہے۔ البتہ، وہ شخص،علم و عقل جس کی کھوپڑی میں نور پیدا کر دیں۔ اس کا ذہن یکسو ہو جائے۔ اس دنیا میں جو بھی شخص کوئی عظیم کارنامہ سرانجام دیتاہے، اس کا ذہن یکسو ہوتاہے۔ باقی ذہنوں پر پردے پڑے رہتے ہیں۔ جن کا ذہن یکسو نہیں ہوتا، وہ اپنے عظیم مقام و مرتبے کو نظر انداز کر کے ایک عورت کے پیچھے چل پڑتے ہیں۔ جب عقل ہدایت یافتہ نہیں ہوتی تو بس پھر اس کا کام یہ ہوتا ہے کہ ٹرمپ کی طرح لوگوں کا مال کھینچنا شروع کر دو یا ایٹم بم بنا کر دشمن پر دے مارو۔
لطیفہ یہ ہے کہ پرویز خٹک کو وفاقی کابینہ میں شامل کیا گیا ہے۔ عبرت ناک انتخابی شکست کے بعد سب جانتے ہیں کہ ان کی حیثیت کیا ہے۔انتخابات سے پہلے پرویز خٹک نے کہا:میں تحریکِ انصاف کو توڑ ڈالوں گا۔ قیدی نے جواب بھجوایا: گنّا تو تم توڑ نہیں سکتے۔اب ہدف یہ ہے کہ خٹک صاحب چونکہ قیدی کے قریب رہے ہیں، لہٰذا اس کی کوئی خاص رگ شاید ان کے علم میں ہو، جسے دبائیں تو چیخ نکلے۔
قیدی کا سب سے بڑا مخالف جسے سمجھا جاتاہے، وہ ایک کھوکھلا انسان ہے، جو ساری زندگی کے تجربات کے باوجود چار لوگوں میں اعتماد سے گفتگو نہیں کر سکتا۔ یہ تو ہو گئی انسانوں کی باتیں۔ دوسری طرف خدا کا ایک بہت بڑا ہتھیار یہ ہے کہ وہ ایک ضدی انسان کو دوسرے ضدی انسان سے لڑا دیتاہے۔ضدی بھی تھوڑا بہت نہیں، افتخار چوہدری جتنا۔ ظاہر ہے، خدا نے خود کو غیاب میں رکھا ہے۔ وہ خود اتر کر تھوڑا ہی انسانوں سے لڑے گا۔ ضدی سے ضدی کی جنگ اور میدان صاف۔”اور اگر اللہ بعض لوگوں کو دوسرے لوگوں کے ذریعے تباہ نہ کر دیتا تو زمین فساد سے بھر جاتی۔“البقرۃ 251