وزارت خزانہ کی رپورٹ کے مطابق 2023-24 ءمیں خسارے میں چلنے والے حکومتی اداروں (SOEs) نے ایک سال میں 851 ارب روپے کا خسارہ کیا ہے جس سے ان اداروں کا مجموعی خسارہ 9200 ارب روپے تک پہنچ گیا ہے جو ایف بی آر کی گزشتہ سال مجموعی ریونیو وصولی سے زیادہ ہے۔ وزارت خزانہ کی رپورٹ کے مطابق اس وقت ملک کے مختلف سیکٹرز میں 212 SOEs کام کررہے ہیں جن میں سے 197ادارے خسارے میں چل رہے ہیں۔ 2016ءمیں ان اداروں کے نقصانات ملکی جی ڈی پی کا0.5 فیصد تھے لیکن 2021 میں یہ نقصانات بڑھ کر جی ڈی پی کے 4 فیصد سالانہ سے زائد ہوگئے۔
نقصانات میں چلنے والے ان اداروں سے تقریباً 4 لاکھ 50 ہزار افراد روزگار سے منسلک ہیں جنہیں تنخواہیں اور مراعات دینے کے باعث یہ ادارے سالانہ 851 ارب روپے کا نقصان کررہے ہیں جو قومی خزانے پر ایک بڑا بوجھ ہے جبکہ انہیں چلانے کیلئے وفاقی حکومت سبسڈیز اور بینک کے قرضوں کیلئے مسلسل گارنٹیاں فراہم کررہی ہے۔ ان اداروں کے نقصان میں چلنے کی وجوہات میں سیاسی بنیادوں پر اضافی بھرتیاں، بجلی کی چوری، T&D نقصانات، کرپشن، بلوں کی عدم وصولی، اداروں کے نان پروفیشنل سربراہان اور بیڈ گورننس شامل ہیں جسکی وجہ سے یہ ادارے منافع کے بجائے خسارے میں ہیں۔ قومی اسمبلی میں ہمیں بتایا گیا کہ SOEs کے موجودہ قوانین کے مطابق کابینہ کو ان SOEs کے CEOs اور بورڈ آف ڈائریکٹرز میں تبدیلی کا اختیار نہیں جس کیلئے قومی اسمبلی میں وزیر خزانہ محمد اورنگزیب اور وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے SOEs قانون میں ترامیم پیش کیں جس کے تحت کابینہ کو یہ اختیار دیا گیا ہے کہ وہ SEOs کے CEOs اور بورڈ آف ڈائریکٹرز کو تبدیل کرسکتی ہے اور اشتہارات کے ذریعے میرٹ کی بنیاد پر قابل، فرض شناس اور ایماندار پروفیشنلز کو ان SOEs میں تعینات کرسکتی ہے جس کے بعد تقریباً تمام SOEs کے بورڈ آف ڈائریکٹرز اور سربراہان کو تبدیل کیا گیا ہے اور نئے سربراہان کو اہداف کے ساتھ تعینات کیا گیا ہے تاکہ ان کی کارکردگی پر نظرثانی کی جاسکے۔ یہ اصلاحات پہلے بھی کی جاسکتی تھیں لیکن اپنے لوگوں کو اہم عہدوں پر رکھنے کیلئے ہم نے ان کی تعیناتی اور معطلی کے راستے بند رکھے تھے جس کی وجہ سے آج یہ ادارے قومی خزانے پر ایک ناقابل برداشت بوجھ بن چکے ہیں۔نقصان میں چلنے والے اداروں میں سب سے بڑا خسارہ نیشنل ہائی وے اتھارٹی (NHA) 295.5 ارب روپے، کوئٹہ الیکٹریسٹی 120.4 ارب روپے، پشاور الیکٹریسٹی 88.7 ارب روپے، پی آئی اے 73.5ارب روپے، پاکستان ریلوے 51.3ارب روپے، سیالکوٹ الیکٹریسٹی 37 ارب روپے، لاہور الیکٹریسٹی 34.5 ارب روپے، اسٹیل ملز 31.1ارب روپے، ملتان23ارب روپے، حیدرآباد الیکٹریسٹی 22.1ارب روپے، جینکو 17.6ارب روپے، اسلام آباد الیکٹریسٹی 15.8ارب روپے، پاکستان پوسٹ آفس 13.4ارب روپے اور بجلی سپلائی کرنے والی دیگر کمپنیوں (DISCOs) کے مالی نقصانات شامل ہیں۔ مالی نقصانات کو پورا کرنے کیلئے حکومت نے ان اداروں کو مجموعی 1586 ارب روپے کی امداد دی جن میں 782 ارب روپے سبسڈی، 367ارب روپے گرانٹ، 336ارب روپے قرضے اور 99ارب روپے ایکویٹی کی مد میں دیئے گئے حالانکہ اس سال ان کے نقصانات میں 14فیصد کمی آئی ہے لیکن صرف توانائی کے شعبے میں 318ارب روپے کے نقصانات ہوئے ہیں اور گزشتہ 10سال میں ان اداروں کا مجموعی خسارہ بڑھ کر 5900 ارب روپے تک پہنچ گیا ہے۔ ان SOEs میں کچھ حکومتی اداروں نے منافع بھی کمایا ہے جس میں OGDC، 123.2 ارب روپے، گورنمنٹ ہولڈنگ 69.1 ارب روپے، PPL، 67.7 ارب روپے، پاک عرب ریفائنری 55 ارب روپے، پورٹ قاسم 41 ارب روپے، نیشنل بینک 27.4 ارب روپے، واپڈا 22.2 ارب روپے، کے پی ٹی 20.3، پاکستان نیشنل شپنگ کارپوریشن 20.1اور اسٹیٹ لائف انشورنس 18.3 ارب روپے شامل ہیں۔ منافع میں چلنے والے حکومتی اداروں نے اس سال قومی خزانے میں مجموعی 2062 ارب روپے جمع کرائے جن میں ٹیکس کی مد میں 372ارب روپے، نان ٹیکس کی مد میں 1400 ارب روپے، Divident کی مد میں 82 ارب روپے اور منافع کی مد میں 206ارب روپے شامل ہیں لیکن منافع میں چلنے والے ان اداروں کے مقابلے میں نقصان میں چلنے والے اداروں کا خسارہ کہیں زیادہ ہے اور یہ سفید ہاتھی قومی خزانے پر ناقابل برداشت بوجھ بن گئے ہیں جن میں پی آئی اے اور بجلی سپلائی کرنے والی کمپنیاں (Discos) کی نجکاری اور ری اسٹرکچرنگ اشد ضروری ہے تاکہ ان کے مالی نقصانات پر قابو پایا جاسکے۔