پچھلے ہفتہ کچھ پگلے، کچھ بدحواس، کچھ کھسکے ہوئے اور کچھ مجذوب آپس میں مل بیٹھے تھے۔ وہ اپنی عمر کے ساٹھ سے زیادہ سال پیچھے چھوڑ آئے تھے۔ اسلئے وہ سب سٹھیائے ہوئے تھے۔ وہ سب یہ دیکھنے اور سوچنے کیلئے آپس میں مل بیٹھے تھے کہ انہوں نے اور انکے آبائواجداد نے پاکستان بننے سے پہلے جو نعرہ بلند کیا تھا، وہ نعرہ کس کیلئے تھا؟ ہندوستان کے بٹوارے سے پہلے جو نعرہ ہمارے بڑے بوڑھوں نے سب نعروں سے زیادہ زور لگا کر لگایا تھا، وہ تھا۔ ’’خون پسینہ ایک کریں گے، لے کے رہیں گے پاکستان‘‘۔ سب کا زور ’’لے کے رہیں گے پاکستان‘‘ پر تھا۔ اس ایک نعرے نے سٹھیائے ہوئے بوڑھوں کی نیند اڑا دی تھی۔ وہ سب سوچ رہے تھے کہ لے کے رہیں گے پاکستان کا نعرہ ہم نے کس کیلئے بلند کیا تھا؟ ہم کس کو پاکستان لے کر دینا چاہتے تھے؟ ہم کیا ایروں غیروں، نتھو خیروں کیلئے پاکستان مانگ رہے تھے اور اپنا خون پسینہ ایک کر رہے تھے؟ یا پھر ہم اپنے بیٹوں، بھانجوں اور بھتیجوں کیلئے پاکستان لے کر رہنے کے نعرے لگا رہے تھے تاکہ جب پاکستان بن جائے وہ پاکستان پر حکومت کرتے رہیں؟ بہت جوش میں تھے سٹھیائے ہوئے بوڑھے۔بڑے بوڑھوں اور سینئر سٹیزنز کا اس طرح مل بیٹھنا کسی وزیراعظم اور وزیراعلیٰ کی کیبنٹ میٹنگ سے کم نہیں تھا۔ میں خودوہاں موجود تھا۔ اس تمام واقعہ کا میں چشم دید گواہ ہوں۔ جو میں نے دیکھا، وہ بات میں آپ کو سنا رہا ہوں۔
اب آپ بجاطور پر سوچ رہے ہوں گے کہ کالے بالوں اور بڑی بڑی بھیانک کالی مونچھوں والا میں نوجوان سٹھیائے ہوئے بوڑھوں کے درمیان کیا کر رہا تھا۔ میں دنیا کو دھوکہ دے سکتا ہوں، مگر آپ کو نہیں۔ اخبار چھاپنے والے اور اخبار پڑھنے والے بڑے کائیاں ہوتے ہیں۔ آپ ان کو چکر نہیں دے سکتے۔ اس لئے میں آپ سے کچھ نہیں چھپاتا۔ میں جانتا ہوں آپ اڑتی چڑیا کے پر گِن سکتے ہیں۔ آپ اڑتی چڑیا کے پر کیوں گنتے ہیں، سبب میں نہیں جانتا۔ سنا ہے کہ دنیا بھر کے چھوٹے بڑے افلاطون اڑتی چڑیا کے پر گن سکتے ہیں۔ یہ ان کے بے انتہا ذہین ہونے کی نشانی ہے، بلکہ ثبوت ہے ۔ اگر آپ کسی سیانے سے ثبوت مانگیں کہ وہ کیسے دعویٰ کرتا ہے کہ وہ اپنے وقت کا افلاطون ہے؟ آپ کو ریڈی میڈ جواب ملے گا۔ سیانے صاحب یہ ثابت کرنے کیلئے کہ وہ دور حاضر کے افلاطون ہیں، جواب دیں گے کہ وہ اڑتی چڑیا کے پر گننے کا ہنر جانتے ہیں۔ مماثلت رکھنے والا جواب ہر ملک میں ہر افلاطون کے منہ سے سننے کو ملے گا۔ طے ہوا کہ دنیا کا کوئی شخص تب تک افلاطون کہلوانے کے قابل نہیں ہوتا جب تک وہ اڑتی چڑیا کے پر گننے کی سعادت حاصل نہ کرلے۔ اڑتی چڑیا کے پر گننے کے ہنر میں کس قسم کی حکمت پنہاں ہے، میں نہیں جانتا۔ مگر کام مشکل ہے ۔ میں نے کئی بار اڑتی چڑیا کے پر گننے کی کوشش کی ہے، مگر ناکام رہا ہوں۔ میرے نصیب میں افلاطون بننا لکھا ہوا نہیں ہے۔
اب میں آپ کو بتاتا ہوں کہ کالے بالوں اور ڈرائونی ہیبت ناک کالی مونچھیں منہ پر سجائے میں نوجوان بڈھے کھوسٹوں کے غیر معمولی اجلاس میں کیا کررہا تھا۔ سب سے پہلے میں آپ کی غلط فہمی دور کرنا چاہتا ہوں۔ میں نوجوان ہوں، اور نہ جوان ہوں۔ آپ میری گھنی ڈرائونی کالی مونچھوں اور بالوں پر نہ جائیں۔ میں غیر ملکی خضاب استعمال کرتا ہوں۔ کسٹم ڈپارٹمنٹ میں میرے دوست احباب ملازمت کرتے ہیں۔ پاکستان پر گنتی کے لوگوں کا راج ہے۔ ان کیلئے بالواسطہ اور بلاواسطہ آنے والی چیزوں میں سے میرے لئے کسٹمز کے دوست اعلیٰ نسل کے خضاب نکال لیتے ہیں۔ پاکستان پر راج کرنے والے گنتی کے حکمراں پچھتر برس سے ولایتی خضاب استعمال کرتے چلے آرہے ہیں اور نوجوان نظر آتے ہیں۔ میں بھی وہی یعنی غیر ملکی یعنی ولایتی خضاب استعمال کرتا ہوں اور آپ کو نوجوان نظر آتا ہوں۔ میں خاصا عمر رسیدہ ہوں اور میں نے کوچ کرنے کیلئے رسیدبھی کٹوالی ہے۔ مگر آپ کو نوجوان دکھائی دیتا ہوں۔ آپ گھنی مونچھیں اور سر کے بال کالے تو کرسکتے ہو، مگر آپ نوجوانوں کی طرح چل پھر نہیں سکتے۔ بال کالے کرنے سے آپکے گھٹنوں اور کمر کا درد کہیں نہیں جاتا۔ وہ جان لیوا درد آپ کو یاد دلواتا رہتا ہے کہ آپ ستر، اسی، نوے اور اب سو سال کی دہلیز پر کھڑے ہیں اور آپ لے جانے والی ٹرین کا انتظار کر رہے ہیں۔
خواہ مخواہ کی بے مقصد باتیں لے کر بیٹھ گیا ہوں۔ آنے جانے والا عمل قیامت تک جاری رہے گا۔ آپ ، میں یا پھر کوئی اور اس عمل میں کسی قسم کی تبدیلی نہیں لاسکتا۔ ہم سب آتے رہیں گے۔ اپنی اننگ کھیلنے کے بعد یہ دنیا چھوڑ کر جاتے رہیں گے۔ مستقل عمل کے بارے میں سوچنا بے سود ہے۔ آپ بڑھے بوڑھوں کی پچھتر برس سے لگاتار ہونے والی کانفرنس کا اختتامی احوال سن لیجئے۔ وہ لوگ بجا طور پر سوچنے پر مجبور تھے کہ ستر اسی برس پہلے انہوں نے اور ان کے آبائواجداد نے کس کو پاکستان لیکر دینے کا نعرہ لگایا تھا:خون پسینہ ایک کرینگے، لے کے رہیں گے پاکستان؟ سرداروں، چوہدریوں اور وڈیروں کو لے کر دینے کیلئے ہم نے خون پسینہ ایک کرنے اور ہر قیمت پر پاکستان لینے کا نعرہ لگایا تھا؟ یا پھر چور بازاری اور ہیرا پھیری کرنیوالے بادشاہ صنعتکاروں کو پاکستان لیکر دینے کا نعرہ لگایا تھا؟ یا کہ پورے ملک کے سسٹم میں کرپشن کی وبا پھیلانے والوں کیلئے خون پسینہ ایک کرکے حاصل کیا ہوا پاکستان بنایا تھا؟ ہم بوڑھے کھڑوس مخمصوں میں گھر چکے ہیں۔ اب آپ بتائیں کہ ہمارے باپ دادائوں نے کس کے حوالے کرنے کیلئے پاکستان بنایا تھا؟