بھلے وقتوں میں سفارتکاروں کے درمیان ہونیوالی ملاقات کا اعلامیہ جاری کیا جاتا تھا جو سفارتکاری کا ایسا نمونہ ہوتا تھا کہ سمجھ ہی نہیں آتی تھی کہ کون سا ملک کیا پیغام دے رہا ہے۔ دشمن ممالک کے درمیان بھی ملاقاتوں کا اعلامیہ یوں لکھا جاتا تھا کہ بندہ پڑھ کر سوچتا تھا کہ اِس میں باتیں تو تمام بھائی چارے کی لکھی ہیں، دشمنی کہاں تلاش کرنی ہے۔ اِس قسم کے اعلامیوں کو ڈی کوڈ کرنے کیلئے میڈیا پر تجربہ کار اور ریٹائرڈ سفارتکار بلائے جاتے تھے جو اِن پیچیدہ سفارتی بیانات کی تشریح کرکے بتاتے تھے کہ اصل میں فریقین کہنا کیا چاہ رہے ہیں۔ ایسے ہی ایک ملک کا سفیر کسی دوسرے ملک کے دورے پر گیا اور اپنے ہم منصب سے ملاقات کے دوران کہا کہ ’’ہمارے ملک کے عوام آپ سے بے حد محبت کرتے ہیں اور آپ کیساتھ برادرانہ تعلقات چاہتے ہیں!‘‘ دوسرے سفیر کے مترجم نے مختصر کرکے بتایا کہ ’’یہ پوچھ رہے ہیں کہ ہمیں آپ سے کیا فائدہ ہو سکتا ہے؟‘‘ لیکن وہ دن گئے جب خلیل خان فاختہ اڑایا کرتے تھے، اب میرے محبوب قائد ڈانلڈ ٹرمپ کا دور ہے جس نے ڈپلومیسی اور خارجہ پالیسی کے معنی ہی بدل کر رکھ دیئے ہیں۔ یوکرین کے صدر زیلنسکی سے ہونیوالی حالیہ ملاقات میں ڈانلڈ ٹرمپ اور اُنکے نائب صدر جے ڈی وینس نے جو کچھ کیا اُسکے بعد سفارتکاری اب وہ نہیں رہی جو ماضی میں ہوا کرتی تھی۔ یہ کلپ شروع سے آخر تک دیکھنے والا ہے، اگر آپ ٹرمپ کے تبصروں پر ہنس ہنس کے دہرے نہ ہو جائیں تو پیسے واپس۔ جس صحافی کا سوال ٹرمپ کو پسند آتا، وہ اُس پر ’I love this guy‘ کہتا اور جو اُسے پسند نہیں آتا تھا اُسکے بارے میں بلاتکان بول دیتا ہے کہ یہ بیہودہ سوال ہے۔ اِس میڈیا بریفنگ کے دوران زیلنسکی اور ٹرمپ آپس میں چہلیں کرتے بھی دکھائی دیتے ہیں، ٹرمپ یوکرین کے صدر، عوام اور فوج کی تعریف بھی کرتا ہے مگر زیلنسکی کی شکل ایسی تھی جیسے کوئی ناراض داماد سُسرال آیا ہو اور اسے اسٹیل کے گلاس میں پانی پیش کر دیا گیا ہو۔ بات وہاں سے بِگڑی جب جے ڈی وینس کے تبصرے پر زیلنسکی نے اُس سے وکیلوں کی طرح جِرح شروع کر دی، زیلنسکی نے اُسے جناب نائب صدر کہنے کی بجائے جے ڈی کہہ کر یوں مخاطب کیا جیسے وہ اُسکا لنگوٹیا یار ہو۔ جے ڈی بھی ٹرمپ سے دو ہاتھ آگے ہے، اُس نے زیلنسکی کو کھری کھری سنائیں اور صاف کہہ دیا کہ وہ ایک ناشکرا انسان ہے اور امریکہ کا احسان مند ہی نہیں جو اُسکا سب سے بڑا حمایتی ہے اور صرف ٹرمپ پر ہی نہیں موقوف، ایک سے بڑھکر ایک نمونہ ہے موصوف کے پاس۔ ایک تو جے ڈی وینس صاحب ہو گئے، یوں سمجھیں کہ یہ ٹرمپ کے امیت شاہ ہیں۔ اُس سے اگلا نمبر ایلون مسک کا آتا ہے۔ آنجناب امریکی کابینہ کے اجلاسوں میں یوں شرکت کرتے ہیں جیسے بیس بال کھیلنے آئے ہوں۔ موصوف خود کو Cool سمجھتے ہیں اور شاید اسی لئے امریکی صدر کی موجودگی میں اپنے بچے کو سر پر بٹھا کر میڈیا کے سوالات کے جوابات یوں دیتے ہیں جیسے کہہ رہے ہوں کہ میں آپ سب کو احمق سمجھتا ہوں کیونکہ ساری کی ساری دنیا میری جیب میں ہے۔ اب ذرا ایلون مسک کے محکمے Department of Government Efficiency کی کارکردگی بھی ملاحظہ کر لیں جس کا کلیجہ نیویارک ٹائمز نے نکال کر رکھ دیا ہے۔ DOGE نے ایک فہرست شائع کی جس میں یہ دعویٰ کیا گیا کہ اُس نے کئی غیر ضروری ٹھیکے منسوخ کرکے امریکی ٹیکس دہندگان کے اربوں ڈالر بچا لیے ہیں۔ جب تحقیق کی تو پتا چلا کہ فہرست میں پہلا نمبر آٹھ ارب مالیت کے ایک ٹھیکے کا ہے جو اصل میں آٹھ ارب نہیں بلکہ اسّی لاکھ ڈالر کا تھا جسکا محکمہ ہوم لینڈ سیکورٹی تھا۔ اِس پر DOGE نے کہا کہ اوہو غلطی ہو گئی۔ لیکن بات یہاں ختم نہیں ہوئی، فہرست میں باقی ٹھیکوں میں بھی اسی قسم کی غلطیاں تھیں اور کچھ ٹھیکے تو ایسے تھے جو ٹرمپ دور سے پہلے ہی بائیڈن دور میں ختم کیے جا چکے تھے۔ یہ حال ہے دنیا کے سب سے ذہین ارب پتی کا۔ جب بھی میں اِس قسم کی باتیں سنتا یا پڑھتا ہوں تو میرے اِس نظریے کو تقویت ملتی ہے کہ جو لوگ آپکے ارد گرد بظاہر دولت مند اور کامیاب دکھائی دیتے ہیں، ضروری نہیں کہ وہ قابل اور ذہین بھی ہوں، زیادہ تر اُن میں سے ڈنگر ہی ہوتے ہیں، زندگی میں کوئی ایک موقع انہیں مل جاتا ہے جو ہماری نظر میں انہیں’سیانا‘ بنا دیتا ہے۔
یہاں تک لکھ کر مجھے احساس ہوا ہے کہ ممکن ہے کچھ لوگ یہ توقع کر رہے ہوں کہ میں ٹرمپ زیلنسکی ملاقات پر کوئی سنجیدہ تبصرہ کرونگا جو کہ ایک سچے اور کھرے دانشور کی نشانی ہے، (ویسے اپنے تئیں میں سنجیدہ تبصرہ ہی کرتا ہوں)، بہرکیف here are my two cents (یہ رہے میرے دو ٹکے): بظاہر ٹرمپ نے پوری دنیا کو ہلا کر رکھ دیا ہے، کینیڈا سے لیکر چین تک اور میکسیکو سے لیکر پانامہ تک، ہر ملک کو اُس نے کسی نہ کسی وجہ سے ’تڑی‘ لگائی ہے، مگر سوال یہ ہے کہ کیا اِس حکمتِ عملی سے امریکی طاقت میں اضافہ ہوا ہے؟ اِس میں کوئی شک نہیں کہ امریکہ کی فوجی طاقت کا موازنہ کسی اور ملک سے نہیں کیا جا سکتا مگر یہ تباہی کی طاقت ہے، تعمیری نہیں، جسکا مطلب یہ ہے کہ امریکہ کا اثر و رسوخ کم ہوا ہے، جن ممالک پر اُس نے تجارتی پابندیاں عائد کی ہیں یا اُن پر قبضہ کرنیکی دھمکیاں دی ہیں اُن تمام ممالک نے ترکی بہ ترکی جواب دیا ہے۔ اب یہ ممکن نہیں کہ امریکہ اُن سب ممالک پر حملہ کر کے اُنہیں اپنا حکم ماننے پر مجبور کر دے۔ ہر طاقت کی کچھ حدود ہوتی ہیں، سپر پاور بھی اِس سے ماورا نہیں، اور اصل طاقت اختیار استعمال کرنے میں نہیں بلکہ اُس اختیار کے خوف سے جنم لیتی ہے، اگر یہ خوف ختم ہو جائے تو طاقت بھی ختم ہو جاتی ہے۔ یہ طاقت کا اصول ہے۔ ٹرمپ سیانا آدمی ہے، اسے بھی یہ اصول جلد سمجھ میں آ جائیگا۔