(گزشتہ سے پیوستہ)
باتوں باتوں میں میں سلیم اختر کا سراپا بیان کرنا بھول گیا۔ پچاس کا سن اور اسکے باجود سر پر پورے بال چاہے گن کر دیکھ لیں، سانولا رنگ، کتابی چہرے پر عینک جو انہیں متکلف بنانے کی بجائے انکی شخصیت کو مزیدباوقار بناتی تھی،دوران گفتگو کھلکھلا کر ہنستے اور اچھے لگتے ۔کالج یا تقریبات میں جاتے وقت گرمیوں میں پینٹ بوشرٹ اور سردیوں میں سوٹ میں ملبوس ہوتے جبکہ گھر میں اور علامہ اقبال ٹائون کے جہانزیب بلاک میں ہوائی چپل، دھاری دار پاجامہ اور تنگ سی قمیض پہن کر پھرتے اس میں سے نیلے رنگ کا دھاری دار پاجامہ تو ان کا ’’ٹریڈ مارک‘‘ بن گیا کیونکہ قمیض کا رنگ تبدیل ہوتا رہتا تھا مگر پاجامہ وہی رہتا۔ میرا بیٹا علی کوٹھی کے مین گیٹ کے پاس بیٹھ کر اس کی سلاخوں میں سے باہر گلی میں بلونگڑوں کی طرح جھانکتا رہتاچنانچہ اسے ان سلاخوں میں سے کوئی دھاری دار پاجامہ نظر آتا تو وہ دوڑا دوڑا اندر آتا اور اپنی توتلی زبان میں کہتا ’’ابو انکل سلیم اختر آئے ہیں‘‘ اور اسکی اطلاع ہمیشہ درست ہوتی۔ ایسے لگتا ہے کہ اب فیکٹری والے یہ کپڑا صرف سلیم اختر کی سرپرستی کی وجہ سے بنا رہے تھے اور غالباً یہ خاصا ماڈرن کپڑا ہے کیونکہ میں نے کئی ماڈرن گھرانوں کے ڈرائنگ روم میں اس ڈیزائن کے کپڑے کو بطور ڈیکوریشن پیش دیواروں پر چسپاں دیکھا ہے۔ میںنے اپنی بات کا آغاز ڈاکٹر صاحب کی کچھ اور نوع کی تحریروں کے حوالے سے کیا تھا اور اب بالکل مختلف نوع تحریروں کے حوالے سے کچھ کہنا چاہتا ہوں۔ ڈاکٹر سلیم اختر بائیس کے قریب انتہائی وقیع کتابوں کےمصنف ہیں جن میں ان کی مقبول زمانہ کتاب ’’اردو ادب کی مختصر ترین تاریخ‘‘ بھی شامل ہے جسکے کتنے ہی ایڈیشن فروخت ہو چکے ہیں تاہم صرف اقبال پر ان کی نو کتابیں موجود ہیں جن میں سے دو کتابیں ان کی تصنیف ہیں اور سات ترجمہ تالیف کی ذیل میں آتی ہیں۔ یوں ڈاکٹر سلیم اختر صرف نفسیاتی نقاد ، ناول نگار، افسانہ نگار اور مزاح نگار ہی نہیں باقاعدہ ماہر اقبالیات بھی تھے۔ سلیم اختر ہمارے ملک کے ان چند دانشوروں میں سے تھے جن کا سچ مچ علم ہی اوڑھنا اور بچھونا ہے۔انہیں کئی دفعہ سمجھایا کہ دانشوری کیلئے اتنا پڑھنا اور خصوصاً لکھنا تو بالکل ضروری نہیں کیونکہ دانشوروہ ہوتا ہے جسکی کوئی تصنیف نہ ہو، ویسے بھی دوسروں پر علم کا رعب ڈالنے کیلئے بازار میں بک آف کوٹیشنز قسم کی بے شمار کتابیں ملتی ہیں جن میں سے کوٹیشن یاد کرکے دوسروں کو اور کچھ نہیں تو بوجھوں ضرور مارا جاسکتا ہے بلکہ ستار طاہر نے بھی انہیں یہ بات سمجھانے کی بہت کوشش کی مگر موصوف کسی کی سنتے ہی نہیں تھے۔ بس ہر وقت پڑھنے میں لگے رہتے۔ پھر اپنے سلیم اختر کی ایک بات مجھےیہ سمجھ نہیں آتی کہ انکی بات سمجھ میں کیوں آتی ہے؟صرف سمجھ ہی میں نہیں آتی بلکہ دل پر گہرا اثر بھی کرتی ہے چنانچہ وہ ناول لکھ رہے ہوں، افسانہ لکھ رہے ہوں، پڑھنے والا اس میں محو ہو کر رہ جاتا ہے حالانکہ کم از کم تنقید تو انسان کو ایسی لکھنی چاہیے کہ قاری کو جاگتے رہنے کیلئے تھوڑی تھوڑی دیر کے بعد ایک لوٹا پانی کا سر پر ڈالنا پڑے۔ بہرحال یہ ڈاکٹر سلیم اختر کا داخلی معاملہ ہے اور شرفا دوسروں کے داخلی معاملات میں دخل نہیں دیا کرتے۔
میں نے ڈاکٹر صاحب کو انکی زندگی میں چند ضروری مشورے دیئے تھے جن میں سب سے اہم مشورہ یہ تھا کہ گو ڈاکٹر صاحب کی عمر کے تیس سال بہترین خدمت کی بہترین مثال ہیں مگر یہ بات رجسٹر کروانے کیلئے لمبی چوڑی پبلسٹی کی ضرورت ہوتی ہے، اپنے ساتھ شامیں منوانا پڑتی ہیں، لکھنا پڑھنا ترک کرنا پڑتا ہے، دوستوں دشمنوں پر نظر ثانی کرنی پڑتی ہے مگر ڈاکٹر صاحب ان میں سے کوئی کام بھی کرنے کو تیار نہیں تھے کیونکہ علمی و ادبی حلقے ادب میں ان کی بڑائی تسلیم کر چکے تھے اور غیر علمی و ادبی حلقوں کو ڈاکٹر صاحب اپنے حلقہ انتخاب میں تصور ہی نہیں کرتے تھے۔ سلیم اختر اپنے دور جاہلیت میں شاعری بھی کرتے رہے اور سلیم اختر انجان کے نام سے چھپتے رہے ہیں اب صرف سلیم اختر کہلاتے ہیں مگر کچھ معاملات میں وہ اب تک انجان ہی ہیں یہ ان کیلئے ہمارا مشورہ بھی تھا اور دعا بھی۔ سلیم اختر جب بیمار ہوئے تو میں ان کی عیادت کیلئے ان کے گھر گیا جو ہماری گلی سے تیسری گلی میں تھا۔ اس وقت ان کا شاگرد خاص طاہر تونسوی ان کے پاس بیٹھا تھا اور کسی ادبی موضوع پر بات ہو رہی تھی۔ میں نے طاہر سے کہا یار مریض کے ساتھ ہلکی پھلکی باتیں ہونا چاہئیں،پھر میں نے سلیم اختر کو مخاطب کیا اور کہا یار اس وقت یہ باتیں بند کرومجھے اس واحد خاتون کی باتیں بتائو جو شادی سے پہلے پشاور میں قیام کے دوران تمہیں اپنے دام میں لانے کی کوشش کرتی رہی تھی مگر جب تم اس کے دام میں آئے تو تم نے کئی بار اس کے عملی اظہار کی کوشش کی اسے اس پر کوئی اعتراض نہ تھا مگر وہ ہر دفعہ ایسے موقع پر منہ تمہارے سامنے رکھنےکی بجائے کروٹ لے کر اپنا منہ دوسری طرف کر لیتی تھی۔ مگر تم اپنے پرانے خیالات کا اسیر ہونے کی وجہ سے اٹھ بیٹھتے،یہ قصہ بغیر سنسر کے پورے کا پورا سنائو۔ یہ سن کر سلیم اختر نے ایک بھرپور قہقہہ لگایا اور دوبارہ اپنے ٹریک پر واپس آگئے۔(جاری ہے)