• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ایشیا میں پاکستانی خواتین میں چھاتی کا کینسر سب سے زیادہ ہے۔ ہرنو میں سے ایک خاتون۔ کینسر کئیر ہسپتال لاہور نے مفت کینسر اسکریننگ کمپین ملک کے طول و عرض میں گزشتہ کئی سال سے چلارکھی ہے۔ ڈاکٹر شہریار خان کی سربراہی میں یہ ادارہ غریب افراد کو مفت علاج فراہم کر رہا ہے۔ مذکورہ ہسپتال کی ویب سائٹ سے مالی امداد کے لیے تفصیلات حاصل کی جا سکتی ہیں۔ اس کے علاوہ ملک میں پہلی بار جدید نوعیت کا palliative careڈیپارٹمنٹ بھی بروئے کار ہے، جس سے تکلیف کی شدت کو کنٹرول کیا جا رہا ہے۔

ڈونلڈ ٹرمپ نے ولادیمیر زیلنسکی کی بڑی بے عزتی کی اور وہ بھی لائیو۔ کہا: اگر ہمارا اسلحہ نہ ہوتا تو تم دو ہفتے میں یہ جنگ ہار جاتے۔ زیلنسکی نے جب اپنا مقدمہ پیش کرنے کی کوشش کی تو: تم تیسری عالمی جنگ کے درپے ہو۔صحافیوں سمیت ہجوم سارے کا سارا زیلنسکی کے درپے تھا۔ اندر سے زیلنسکی بیچارہ ایک کامیڈین ہی تو تھا۔ سامنے امریکہ کا غضبناک صدر بیٹھا تھا۔ امریکہ کا صدر تو بڑی اونچی شے ہے۔ ایک ایم اے اپنی پنچایت میں خدا بن کے بیٹھا ہوتا ہے۔

صرف زیلنسکی کی بات نہیں۔ اپنے سے زیادہ دولت مند شخص کے سامنے اکثر لوگ گنگ ہو جاتے ہیں۔ ٹرمپ کے پاس تو پھر بھی اتنی بڑی فوج ہے۔ اقبالؔ اور قائد اعظم البتہ مرعوب نہیں ہوتے تھے۔ سامنے گاندھی بیٹھا ہو یا انگریز وائسرائے۔ ویسے قیدی بھی مرعوب نہیں ہوتا۔ ملا عمر کے طالبان سے اختلافِ رائے اپنی جگہ، وہ لوگ امریکہ سے مرعوب نہیں ہوئے اور نہ سوویت یونین سے۔ بہرحال اس ساری صورتِ حال میں فتح تو روس ہی کی ہوئی۔ روس یوکرین سے نہیں لڑ رہا تھا بلکہ پورے یورپ اور امریکہ سے۔

زیلنسکی اگر حوصلہ رکھتا تو جواب دیا جا سکتا تھا۔ یوکرین واپس جا کر جواب لکھ دیتا۔ کہتا: عالم پناہ ابھی پچھلا صدر جو بائیڈن ہمیں بانس پہ چڑھا رہا تھا کہ تم نے یہ جنگ ہر صورت میں جیتنی ہے۔ نئے صدر نے آکر بانس کھینچ لیا۔ 350ارب ڈالر کوئی ہم نے نقب لگا کر نہیں لوٹے۔ آپ نے خود بھجوائے۔ آپ نے ہمیں جنگ پر اکسایا۔ آج ہم غیر موزوں طور پر سرنڈر کرتے ہوئے روس کے سامنے جھک جائیں، کل کو کوئی نیا امریکی صدر آکر پتہ نہیں کیا کرے۔

جنابِ صدر! آپ نے کہا کہ ہم تیسری عالمی جنگ کا جوا کھیل رہے ہیں۔ ویت نام اور افغانستان کی جنگوں میں ہمارا تو کوئی کردار نہیں تھا، جہاں سوویت یونین اور امریکہ دیوانہ وار ایک دوسرے کے خلاف لڑتے رہے۔ افغانستان میں سوویت یونین کے خلاف جو جنگ امریکہ نے لڑی، اس میں یوکرین کا تو کوئی کردار نہیں تھا۔

امریکہ اور روس کو پانچ پانچ ہزار ایٹم بم یوکرین نے تیار کر کے تو نہیں دیے۔ اسی افغان جنگ کے نتیجے میں آپ نے سوویت یونین کو توڑا اور ہمیں اس سے الگ کرایا۔ آپ نے اور روس نے فیصلہ کیا کہ یوکرین کے ایٹمی ہتھیار روس لے لے۔ جو چاہے آپ کا حسنِ کرشمہ ساز کرے۔ روس کے ساتھ اگر محاذ آرائی کے آپ قابل نہیں تھے تو کس حکیم نے مشورہ دیا تھا کہ یوکرین کا یہ محاذ کھولیں۔ آپ بھی شرمسار ہوئے، ہمیں بھی شرمسار کرایا۔ 2014ء میں کس حکیم نے مشورہ دیا تھا کہ یوکرین میں روس نواز حکومت گرائیں اور اپنی حامی حکومت بنائیں۔

زیلنسکی کہہ سکتا تھا کہ امریکہ میں غیر متوازن صدرہوتے ہیں۔ ہر نیا آنے والا صدر متضاد پالیسی اپناتا ہے اور غصہ یوکرین جیسے ملکوں پہ اتارتا ہے۔ زیلنسکی کہتا: سب سے بڑا لطیفہ یہ ہے کہ جو بائیڈن نے اپنے عالمی طاقت ہونے کے زعم میں روس کی مزاحمت کے لیے ہمیں جنگی امداد دی۔ آپ نے آکر اس کا بل پیش کر دیا اور ہماری معدنیات ہڑپ کرنے کے درپے ہیں۔

معدنیات کے معاملے پر زیلنسکی ریفرنڈم کروا سکتا تھا۔ وہ مگر سربسجود ہو گیا۔ غالباً اس لیے کہ بدمست سانڈوں کی جنگ میں کہیں بالکل ہی نہ کچلا جائے۔ سامنے کی بات یہ ہے کہ روس صرف یوکرین پہ نہیں ٹل جائے گا۔ فتح کے خمار میں آگے بڑھے گا۔ وہ بھولا نہیں کہ نیٹو نے افغان جنگ کا فائدہ اٹھاتے ہوئے کس طرح اسے توڑ ڈالا۔ روس کی یہ فتح یوکرین نہیں، پورے نیٹو اور بالخصوص امریکہ کے خلاف ہو گی۔ فتح کے نشے میں سرشار پیوٹن یاد کر کر کے مسکرائے گا۔ حواس باختہ امریکی صدر زیلنسکی سے کہہ رہا تھا: تم تیسری عالمی جنگ کا جوا کھیل رہے ہو۔ یوکرین میں جو کچھ ہوا ہے، یہ عالمی جنگ ہی ہے۔ادھر ٹرمپ کی سوچ یہاں پہ پھنسی ہوئی ہے کہ یوکرین کی معدنیات ہی نہیں، دنیا کے جس ملک سے جو ہتھیایا جا سکتا ہے، اپنی بدمعاشی کے بل پر ہتھیا لیا جائے۔ فرمایا: افغانستان سے اپنا جنگی سازو سامان واپس لیں گے، حالانکہ افغانستان سے اب انہیں صرف ٹین ڈبا ہی واپس مل سکتا ہے۔ آخری تجزیے میں ٹرمپ ایک اٹھائی گیرا ہے۔ یوکرین ہی نہیں، کینیڈا کے بھی درپے ہے لیکن جسٹن ٹروڈو بھرپور مزاحمت کا عزم رکھتا ہے۔

بڑے بڑے عہدوں پہ براجمان بالشتیے! اس وقت، جب دنیا بھوک سے بلک رہی ہے، اپنی اپنی اناؤں کی تسکین کرتے ہوئے بزرگ۔ پیوٹن کی عمر 72سال ہے، ٹرمپ کی 78۔ دونوں کی شکلیں بجو جیسی ہو چکی ہیں۔ ٹرمپ کبھی سوچتا ہے، غزہ پہ قبضہ کر لوں۔ کر لیں سرکار، ایسا محاذ کھلے گا، اگلے چھ امریکی صدر بھی جسے سلجھا نہ سکیں گے۔ تضادات تو ٹرمپ اور امریکہ کے اتنے ہیں کہ گنے نہ جا سکیں، زیلنسکی اگر ہمت نہ کر سکا تو کیا کیا جا سکتاہے۔

ازل سے ابد تک ایک ہی کھیل ہے۔ آدم زاد دوسروں کے مال و اسباب پہ للچا اٹھتاہے۔ باقی تاریخ ہے۔ سفاک، عبرت ناک تاریخ! یہ ہے انسان کا حال، جسے خدا کا نائب بننا تھا۔

تازہ ترین