• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سابق وفاقی وزیر چوہدری قمر زمان کائرہ سے میں کبھی نہیں ملا لیکن ان کے بارے میں میری رائے ہمیشہ سے مثبت رہی ہے، وجہ ان کا تحمل،تدبر و اعتدال ہے۔ موصوف جو بھی بات کرتے ہیں ان کا پہلا جملہ یہی ہوتا ہے ”گزارش یہ ہے کہ“ اس کے بعد وہ اپنی رائے کا اظہار کرتے ہیں، اندازِ تکلم باکمال ہے۔ اگر میں یہ کہوں تو چنداں غلط نہ ہوگا کہ ان کی سیاست سے کبھی تو شہید بے نظیر کی مثبت سوچیں سامنے آتی ہیں اور کبھی شہید بھٹو کے نظریات و افکار بولتے ہیں۔ چند دن قبل ایک نجی ٹی وی کے ٹاک شو میں اپوزیشن لیڈر عمر ایوب کی سخت تقریر کی ویڈیو دکھائی گئی جس میں زبان اور انداز بیان بھی بالکل وہی تھا جو پی ٹی آئی والوں کا ہوتا ہے اور سچ تو یہ ہے کہ اپوزیشن لیڈر جناب عمر ایوب مدظلہ کی یہ گفتگو گالم گلوچ، طعنوں، مسٹر 10 پرسنٹ اور کرپٹ کرپٹ کی تکرار کے سوا کچھ نہ تھی، میزبان نے قمر زمان کائرہ کو جواب دینے کا کہا تو انہوں نے حسبِ عادت ’’گزارش یہ ہے‘‘ کہہ کر انتہائی عاجزی و انکساری سے مدلل، معیاری اور منفرد گفتگو فرمائی۔ قمر زمان کائرہ نے عہدِ موجود کے سیاسی سلطان راہی کی گفتگو کا جواب دیتے ہوئے فرمایا کہ ”یہ ہماری بدقسمتی ہے کہ ہم کئی دہائیوں سے نہ صرف سیاسی و معاشی بلکہ اخلاقی انحطاط کا بھی شکار ہیں، یہاں آئین کو چلنے نہیں دیا گیا اس لیے پولیٹکل رویے بھی نہیں پنپے، ادارے نہیں سماج جمہوری ہوتے ہیں جو ہمارے ہاں نہیں، یہ ماضی میں ہم بھی کرتے رہے اور ہمارے خلاف بھی ہوتا رہا مگر غلط ہوتا رہا اور اب تو گالم گلوچ، گریبان پکڑنے تک نوبت آگئی ہے۔ عمر ایوب صاحب سے مجھے اسی طرح کی زبان اور اسی طرز کی گفتگو کی توقع تھی، میں اب کیا کہوں، اگر میں عمر ایوب، ان کے والد گوہر ایوب یا پھر ان کے دادا جنرل ایوب کی ”جمہوریت“ کے بارے میں گفتگو کروں تو میں انہی کی طرح بن جاؤں گا جو میں نہیں بننا چاہتا“۔ عصرِ حاضر میں پیپلز پارٹی میں بالعموم اور ملک میں بالخصوص پورے پنجاب میں چوہدری قمر زمان کائرہ کی طرز و لیول کا لیڈر کوئی نہیں ہے اور ان کا یہ حق ہے کہ پارٹی میں انکے ساتھ ہونے والی حق تلفیوں کا ازالہ کیا جائے۔ قمر زمان کائرہ وفاقی وزیر رہے ہیں لیکن ان کا لیول صرف وزارتیں اور پارٹی کے عہدے، صدارتیں ہی نہیں ہیں بلکہ ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں۔ صدر آصف علی زرداری جیسے ذہین و زیرک سیاسی لیڈر کو ضرور اس ضمن میں سوچنا چاہیے۔ گزشتہ دنوں پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے اپنے آٹھویں خطاب میں صدر زرداری نے بہت ہی عمدہ و مثبت عُقدے وا فرمائے اور کہا کہ اتفاق رائے سے قومی اہمیت کے فیصلے کریں، یہ ایوان اور حکومت اگلے بجٹ میں عوام کو حقیقی ریلیف فراہم کریں، انہوں نے درست کہا کہ تنخواہوں اور پنشن میں اضافہ اور ملازمین پر ٹیکس کا بوجھ بھی کم کیا جائے۔ صدر زرداری کی خدمت میں بصد ادب عرض ہے کہ سرکاری ملازمین نون لیگ سے تو نہیں لیکن آپ سے تنخواہوں میں 100 فیصد یا پھر کم از کم 80 فیصد اضافے کی آس لگائے بیٹھے ہیں۔ پوری قوم معاشی اور سماجی مسائل و مشکلات سے دوچار ہے، ان حالات میں ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم اداروں کے خلاف بیانیے بنانے اور بیچنے چھوڑ دیں۔ حکومت و اپوزیشن سمیت تمام ادارے متحد ہو کر ملک و قوم کی ترقی و خوشحالی کیلئے کام کریں۔ ماضی کی تمام تر خامیوں اور تلخیوں کو بھلا کر سوچنا یہ ہوگا کہ ہمارا مستقبل کیا ہوگا۔ ہم کیسے ”محب وطن“ پاکستانی ہیں جو پاک فوج کے ہیڈ کوارٹر (GHQ) پر حملے کر کے بھی ”مقبول“ ٹھہرتے ہیں ۔ ہم کیسے مسلم اور مسلم لیگی ہیں جو اپنے جلسوں میں ”یہ جو دہشت گردی ہے اس کے پیچھے وردی ہے“ جیسے نعرے لگانے کے باوجود ”قبول“ قرار پاتے ہیں ۔ ہم ”ووٹ کو عزت دو“ کی آڑ میں سب حدیں سرحدیں چھوڑ دیتے ہیں اور کبھی 9 مئی کے وار میں GHQ کے گیٹ تک پھلانگ جاتے ہیں اور شہداء کی شمعیں بھی توڑ دیتے ہیں۔ میرے پاکستان میں طویل ترین جیل کاٹنے والا ایک سیاسی لیڈر ایسا بھی ہے جو کہتا ہے کہ ”جمہوریت بہترین انتقام ہے“ اور میری رائے میں عہدِ موجود کی سیاست میں یہی سب سے بڑا پاکستانی ہے اور اسی مردِ حُر کو ہی یہ کریڈٹ جاتا ہے جس نے کبھی سندھ کارڈ نہیں کھیلا اور ہمیشہ یہی کہا کہ ”پاکستان کھپے“، جو مفاہمت کا بادشاہ اور سب پہ بھاری ہے۔ بلا شبہ صدر آصف علی زرداری ہی وہ محب وطن اور مدبر لیڈر ہیں جنہوں نے ہمیشہ اپنے وطن سے، وفاق سے وفاداری کی اور پاک فوج سمیت سب اداروں سے محبت و روداری نبھائی ہے۔

تازہ ترین