بلوچ علیحدگی پسند اور انکےآقابلوچستان کے خلاف متحرک ہیں اور اپنے مذموم مقاصد کیلئے بے گناہ شہریوں کو موت کے گھاٹ اتار رہے ہیں۔ گزشتہ دنوں جعفرایکسپریس جس میں440 افراد سوار تھے۔ مسلح افراد نے ٹرین کے انجن کو راکٹ سے نشانہ بناکر ٹرین کو روک دیا۔ لوگوں کو اغوا کیا، کالعدم بلوچستان لبریشن آرمی نے ایک بیان جاری کیا ہے کہ ’’ہمارے پاس 214افراد موجود ہیں۔ ہم انکو جنگی قیدی قرار دیتے ہیں اور ریاست پاکستان سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ تمام لاپتہ افراد، سیاسی کارکنوں کو رہا کرے تاکہ یہ مظلوم آزاد فضا میں رہ سکیں۔‘‘ بعض رہا ہونے والوں نے انکشاف کیا ہے کہ حملہ آوروں نے شناختی کارڈ کی مدد سے شناخت کی۔ بلوچ مردوں کو جانے کی اجازت دے دی اور باقی افراد کو یرغمال بنا لیا۔ سکیورٹی فورسز کے آپریشن کے بعد دہشت گرد چھوٹے چھوٹے گروہوں میں تقسیم ہو گئے۔
جعفر ایکسپریس پر کالعدم تنظیم کے حملے کے بعد بھارت کا پاکستان دشمن سوشل میڈیا غیرمعمولی طور پر متحرک ہو گیا۔ اس ٹرین پر حملے کے بعد سے ہندوستانی میڈیا اور ملک دشمن سوشل میڈیا اکاؤنٹ مل کر مسلسل گمراہ کن پر اپیگنڈہ کر رہے ہیں۔ بلوچستان میں مسلسل دہشتگردی کے واقعات ہوتے رہے ہیں لیکن ٹرین پر حملہ اورسیکڑوں افراد کو یرغمال بنانا نہایت سنگین واقعہ تھا۔ پاکستان کے عوام کو ان شرپسندوں کو پہچان لینا چاہیے جو اپنے سیاسی مقاصد کیلئے اسطرح کی پاکستان مخالف حرکتیں کررہے ہیں یہ ملک بڑی قربانی کے بعد حاصل کیا گیاہے ،ہماری مسلح افواج اسکے تحفظ کیلئے اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر دہشتگردوں کا مقابلہ کررہی ہیں ۔ پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کے ڈائر یکٹر جنرل (ڈی جی )جنرل احمد شریف نے کہا کہ جعفر ایکسپریس میں 440افراد سوار تھے۔ آپریشن میں ایس ایس جی، ائیر فورس، پولیس نے حصہ لیا، پہلے مرحلے میں خود کش حملہ آور کو نشانہ بنایا گیا تاہم سیکورٹی فورسز نے آپریشن مکمل کر لیا اور تمام دہشتگردوں کو ہلاک کر دیا۔ انہوں نے کہا کسی کو شہریوں کو نقصان پہنچانے کی اجازت نہیں ۔
ٹرین کے مسافروں کو یر غمال بنا کر ظلم وستم کا بازار گرم کرنا انسانیت سے گری ہوئی حرکت ہے، دہشتگرد گروہ سمجھتے ہیں کہ اس طرح وہ ریاست کو سرنگوں کر لیں گے تو یہ انکی بھول ہے دنیا کی تاریخ میں کبھی دہشتگرد تنظیمیں کامیاب نہیں ہوئیں بلکہ انکا عبرتناک خاتمہ ہو ا ہے۔ دہشتگردی نے عصر حاضر میں ایک سنگین مسئلے کی صورت اختیار کر لی ہے ۔ اس عفریت نے دنیا بھر کے امن کو تہہ وبالا کرکے رکھ دیا ہے۔ بدقسمتی سے پاکستان ان ممالک میں شامل رہا ہے جو دہشتگردی سے بہت زیادہ متاثر ہوئے ہیں۔ اس سے قبل سکیورٹی اداروں نے 2007ء میں آپریشن راہ حق، 2009ء میں آپریشن راہ راست اور آپریشن راہ نجات ،2014میں آپریشن ضرب عضب 2017میں آپریشن ردالفساد کے ذریعے دہشتگردوں کی کمر توڑ کر رکھ دی تھی۔ ہمیں دہشتگردوں کے مذموم عزائم کو ناکام بنانے کیلئے حکومت اور ریاستی اداروں کا بھر پور ساتھ دینا ہو گا۔ اس وقت افغانستان میں بیس کے لگ بھگ دہشتگرد تنظیمیں فعال ہیں جو علاقائی ممالک کیلئے سلامتی کے مسائل پیدا کرر ہی ہیں۔ اس بات کے مصد قہ شواہد موجود ہیں کہ افغان حکام ان دہشتگرد تنظیموں کی سر پرستی کر رہے ہیں۔ وہ پاکستان میں شہری تنصیبات اور عوامی مقامات پر حملے کرکے ملک میں عدم استحکام پیدا کر نا چاہتے ہیں جبکہ اقتصادی سرگرمیوں بالخصوص پاک چین تعاون کو خصوصی طور پر نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ آج دہشتگردی کے حوالے سے پاکستان کودو دہائیوں قبل کی صورتحال کا سامنا ہے ۔ پاکستان میں دہشتگردی کا آغاز 1980ء میں ہوا۔ پاکستان نے اسی ہزار سے زائد جانوں کا نذرانہ پیش کر کے اس عفریت کو شکست دی تھی۔ اگست 2021ء میں افغانستان میں طالبان حکومت کے آنے کے بعد ٹی ٹی پی اور دیگر دہشتگرد گروہوں کو پاکستان میں اپنی کارروائیوں کا سلسلہ تیز کرنے کا حوصلہ ملا۔ بلوچستان میں امن وامان پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جا نا چاہیے۔ واقعے میں ملوث عناصر کو جلد ازجلد کیفر کردار تک پہنچایا جائے تاکہ عوام میں تحفظ کا احساس پیدا ہو اور دہشتگردوں کو سخت پیغام دیا جا سکے۔ درہ بولان میں طویل عرصے سے دہشتگردی کے دیگر واقعات کے علاوہ ٹرینوں پر بھی حملوں کے واقعات پیش آرہے ہیں۔ سکیورٹی کی صورتحال اور اس حوالے سے کئے جانے والے اقدامات کا ازسرنو جائزہ لیا جائے اور ایسی حکمت عملی اپنائی جائےکہ ٹرینوں کی محفوظ طریقے سے آمد درفت ممکن ہو۔ ہمیں اپنی سکیورٹی فورسز کی بھر پو ر حمایت کرنی چاہیے اور ساتھ ساتھ سیاسی قیادت کو بھی اپنی ذمہ داریوں کا بوجھ اُٹھانا چاہیے۔ جب سے افغانستان میں طالبان کی حکومت قائم ہوئی ہے۔ خیبر پختوانخوا اور بلوچستان میں دہشتگردی کی کارروائیوں میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے جس کی بنیادی وجہ افغان حکومت کی ٹی ٹی پی کی بھر پور پشت پناہی اور افغانستان کے اندر سے سہولت کاری ہے جس کے ٹھوس ثبوت پاکستان متعدد بار افغان حکومت کے حوالے کر چکا ہے۔
افغانستان میں امریکہ کا چھوڑا ہوا جدید اسلحہ بھی استعمال ہو رہا ہے۔ یہ کھلی جارحیت ہے جسے مزید برداشت نہیں کیا جا سکتا۔ 2024ء میں ملک میں مجموعی طور پر 444دہشتگرد حملے ہوئے۔ وزیر اعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ دہشتگردی نے پھر زور سے سر اُٹھایا ہے، جب تک مکمل طور پر امن قائم نہیں ہو گا اس وقت تک ترقی کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہو گا۔ خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں دہشتگردی کے خلاف جنگ جاری ہے ہر روز پولیس اور افواج پاکستان کے افسران وجوان قربانیاں دے رہے ہیں، ان عظیم قرباینوںکو ہمیشہ یاد رکھا جائے۔ چین، امریکا، روس، ایران، ترکیہ، یورپی یونین، اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل سمیت عالمی برادری نے بلوچستان مین ٹرین جنگ میں دہشتگردوں کے ہاتھوں بیگناہ شہریوں کو یر غمال بنانے اور ہلاکت کے واقعہ کی مذمت کی ہے۔ یہ بات طے ہے کہ دہشتگردوں کا نہ تو کوئی مذہب ہوتا ہے اور نہ ہی کوئی عقیدہ۔ وہ صرف خون خرابے پر یقین رکھتے ہیں لہٰذا اگر انہیں انسانیت کا دشمن قرار دیا جائے تو ہرگز مبالغہ نہ ہو گا۔ ان کا خاتمہ صرف متاثرہ ممالک ہی کی ذمہ داری نہیں بلکہ ساری عالمی برادری کو ان کے خاتمے کیلئے متحد ہونا پڑے گا۔