• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

دنیا میں آج کل نیا ٹرینڈ دیکھنے میں آیا ہے کہ وہ ممالک جن کے مالی وسائل اور کیپسٹی اتنی نہیں ہوتی کہ وہ اپنی پورٹس اور ایئرپورٹس کو جدید تکنیکی بنیادوں پر ڈویلپ کرکے چلاسکیں، وہ انہیں دنیا کے معروف پورٹس آپریٹ کرنے والی کمپنیوں کو طویل المیعاد مدت کیلئے آؤٹ سورسنگ کر دیتے ہیں۔ یہ کمپنیاں ٹرمینل آپریشنز، کارگو اسٹوریج، لوڈنگ، آف لوڈنگ، لاجسٹک اور ٹرانسپورٹیشن میں مہارت رکھتی ہیں۔ ان کمپنیوں میں Cosco دنیا میں 200 پورٹس ہینڈل کر رہی ہے، PSA انٹرنیشنل 30ممالک میں 40ٹرمینلز، APM، 75 ٹرمینلز، چائنا مرچنٹ 50ٹرمینلز اور DP ورلڈ 50ممالک میں 80ٹرمینلز آپریٹ کررہی ہے۔ جدید ٹیکنالوجی اور مہارت کی وجہ سے یہ کمپنیاں نہ صرف اچھا منافع کما رہی ہیں بلکہ امپورٹرز، ایکسپورٹرز کو کم وقت اور لاگت میں اعلیٰ معیار کی شپنگ اور لاجسٹک سروسز فراہم کررہی ہیں ۔


اللہ تعالیٰ نے پاکستان کو کراچی اور بن قاسم بین الاقوامی قدرتی پورٹس عطا کئے ہیں لیکن ہم بہترین جغرافیائی محل وقوع اور 21میل چوڑی آبنائے ہرمز جو بحری جہازوں کی آمدورفت کیلئے نہایت اہمیت کی حامل ہے، کے قریب ہونے کے باوجود اپنی پورٹس کو وہ ترقی نہ دے سکے جو خطے میں بعد میں بننے والی جبل علی اور سلالہ پورٹس نے حاصل کی۔ 1857 ء میں تعمیر ہونے والی 33برتھوں پر مشتمل کراچی پورٹ نہ صرف پاکستان بلکہ جنوبی ایشیا کی مصروف بندرگاہوں میں سے ایک تھی جس سے سالانہ 2 کروڑ 60 لاکھ ٹن کارگو کی تجارت ہوتی تھی جو پاکستان کی مجموعی تجارت کا 60 فیصد ہے۔ اسکے علاوہ خطے کی امپورٹ ایکسپورٹ کی ٹرانس شپمنٹ بھی اسی بندرگاہ سے کی جاتی تھی۔ 2002ء سے 2023ء تک یہ ٹرمینل ایک پاکستانی کمپنی پاکستان انٹرنیشنل کنٹینر ٹرمینل (PICT) کے پاس تھا اور 2023ء میں معاہدے کی میعاد پوری ہونے کے بعد اب یہ ٹرمینل ابوظہبی پورٹس گروپ کے کراچی گیٹ وے ٹرمینل لمیٹڈ (KGTL) کو 50 سال کیلئے لیز پر دیدیا گیا ہے۔ فروری 2024 ء میں ہونے والے معاہدے کی رو سے حکومت پاکستان نے برتھ 11 سے 17تک یو اے ای کی کمپنی کو دیا ہے جس کے عوض متحدہ عرب امارات نے 50 ملین ڈالر کی فوری ادائیگی کی ہے جبکہ آنے والے 3سے 5سالوں کے دوران اس ٹرمینل کی توسیع کیلئے 102 ملین ڈالر خرچ کئے جائیں گے۔ معاہدے کی رو سے کراچی پورٹ کے بلک کارگو ٹرمینلز کے 10برتھوں کی لیز ابوظہبی پورٹ گروپ کو دے دی گئی ہے اور KGTL کراچی پورٹ کو سالانہ منافع کا 15 فیصد بھی ادا کرے گا۔ حال ہی میں KGTL کے سالانہ عشائیہ تقریب میں میری ملاقات کمپنی کے گلوبل CEO، Noatum Ports کے چیف ایگزیکٹو عبداللہ البلوشی اور KGTL کے چیف ایگزیکٹو خرم عزیز خان سے ہوئی جو پورٹ آپریشن کا عالمی تجربہ رکھتے ہیں۔ میرے ساتھ سابق وفاقی وزیر بحری امور قیصر احمد شیخ بھی تھے۔ اس سے پہلے KGTL کے چیف ایگزیکٹو خرم عزیز خان نے مجھے ٹرمینل کاوزٹ کراتے ہوئے بتایا کہ ٹرمینل میں جدید سہولتیں موجود نہ ہونے کی وجہ سے بحری جہاز سے سامان اتارنے اور لوڈ کرنے میں 15 دن لگتے تھے مگر اب یہ کام 3 سے 4 دن میں ہوسکے گا ۔ خرم عزیز خان کا کہنا تھا کہ ان کا گروپ اس ٹرمینل کو نہ صرف جدید مشینری سے اپ گریڈ کرے گا بلکہ عالمی معیار کے ایکسپرٹ بھی لائے گا جس سے ٹرمینل پر تجارتی سرگرمیوں میں اضافہ ہوگا اور ان کی کمپنی KGTL ٹرمینل میں نئے ویئر ہاؤسز، کارگو کنوینر بیلٹ، کرین، Silouses اور دیگر جدید انفراسٹرکچر میں سرمایہ کاری کرے گی تاکہ ٹرمینل کو خطے میں دیگر پورٹس کی طرح جدید انداز سے آپریٹ کیا جاسکے ۔

عالمی درجہ بندی کے لحاظ سے کراچی پورٹ ٹرسٹ دنیا میں 61 ویں جبکہ پورٹ قاسم اتھارٹی 146 ویں نمبر پر آتی ہے ۔ گزشتہ 10 برسوں میں پاکستان میں پورٹ سروسز کی طلب میں 3.3 فیصد اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے۔ کراچی پورٹ ٹرسٹ ملک کی مصروف ترین بندرگاہ ہونے کے باوجود اپنی مجموعی صلاحیت 125 ملین ٹن کا صرف 47 فیصد استعمال کررہی ہے جو ملکی درآمدات اور برآمدات کا 60 فیصد ہے۔ کراچی پورٹ میں گزشتہ 5 برسوں میں ٹیکس کی وصولی 660 ارب روپے سے 1470 ارب روپے کے درمیان رہی جبکہ پورٹ قاسم پاکستان کی مجموعی کارگو کا 35 فیصد یعنی تقریباً 89 ملین ٹن ہینڈل کرنے والی دوسری بڑی بندرگاہ ہے جو اس کی کیپسٹی کا 50 فیصد ہے۔ گزشتہ 5 سالوں میں پورٹ قاسم سے ٹیکسوں کی وصولی 690 ارب روپے سے 1140 ارب روپے کے درمیان رہی۔ پاکستان کی تیسری نئی بندرگاہ گوادر پورٹ ہے جس کی موجودہ صلاحیت 2.5 ملین ٹن ہے جو بڑھ کر 400 ملین ٹن تک پہنچنے کی توقع ہے۔ عالمی شپنگ کمپنیاں Mersk لائن، DP ورلڈ پاکستان کے ذریعے تجارت بڑھانا چاہتی ہیں اور بلیو اکنامی کے مختلف شعبوں میں سرمایہ کاری کی پیشکش کررہی ہیں۔ پاکستان میں 2 لاکھ 40 ہزار مربع کلومیٹر سے زائد رقبے پر خصوصی اقتصادی زون کو اقوام متحدہ نے تسلیم کر رکھا ہے۔ یہ زون سمندر کی تہہ میں موجود وسائل سے مالا مال ہے جن میں تیل، گیس اور دیگر معدنیات شامل ہیں لیکن ان وسائل سے فائدہ اٹھانے کیلئے ہمیں طویل المدتی منصوبوں کے ساتھ پالیسیوں کے تسلسل کی ضرورت ہے ۔

تازہ ترین