مولانا محمد یاسر عبداللہ
قرآنِ کریم، اللہ تعالیٰ کا کلام ہے، جس کا حق جلّ مجدہٗ کی ذات سے براہِ راست تعلق ہے، خاتم النبیین حضرت محمد مصطفیٰ ﷺپر نازل کیے گئے اس آخری پیغامِ ربانی کے ہمارے ذمے جو حقوق ہیں، ان میں سے ایک اہم حق یہ ہے کہ اس کتابِ ہدایت میں غور وتدبّر کرکے زندگی کی راہیں دریافت کی جائیں۔ خود قرآن کریم میں جابجا اس کی تلقین اور ترغیب ہے۔
ارشادِ باری تعالیٰ ہے: تو کیا یہ لوگ قرآن میں غور نہیں کرتے یا دلوں پر قفل لگ رہے ہیں ؟(سورۂ محمد:۲۴) ایک اور مقام میں فرمایا: ’’ تو کیا پھر قرآن میں غور نہیں کرتے ؟ اور اگر یہ اللہ کے سوا کسی اور کی طرف سے ہوتا تو اس میں بہ کثرت تفاوت پاتے۔ (سورۃالنساء:۸۲)
سورۂ ص میں ارشادِباری تعالیٰ ہے:’’ یہ بابرکت کتاب ہے جسے ہم نے آپ پر اس واسطے نازل کیا ہے، تاکہ لوگ اس کی آیتوں میں غور کریں اور تاکہ اہلِ فہم نصیحت حاصل کریں۔ ‘‘ (بیان القرآن) ایسے مومنین کی تعریف کی گئی ہے جو قرآن کریم کو سوچ سمجھ کر پڑھتے ہیں، ارشادِ ربانی ہے: ’’ اور وہ ایسے ہیں جس وقت انہیں اللہ تعالیٰ کے احکام کے ذریعے سے نصیحت کی جاتی ہے تو ان (احکام) پر بہرے اندھے ہو کر نہیں گرتے۔ ‘‘(سورۃالفرقان: ۷۳)
حضرت سنان سلمیؓ نے ایک مرتبہ عبداللہ بن مسعودؓ سے کہا کہ میں نے آج رات ایک رکعت میں مفصلات (سورۂ ق تا آخر قرآن) پڑھی ہیں۔ یہ سن کر عبداللہ ابن مسعود ؓ نے فرمایا: یعنی ’’ تم نے تو قرآن کریم کو شاعری کی مانند تیز رفتاری سے پڑھا، یا اسے ردی کھجوروں کی طرح بکھیرا، (قرآن کا) مفصل حصہ تو چھوٹے چھوٹے حصوں میں اُتارا گیا ، تاکہ تم اُسے آہستہ آہستہ، رُک رُک کر اور ترتیل کے ساتھ پڑھو۔‘‘ (اگرچہ پورا قرآن ہی انہی آداب کا متقاضی ہے۔)‘‘ (مسنداحمد: ۳۹۵۸)
حضرت حسن بن علی ؓکا ارشاد ہے: ’’تم سے پچھلے لوگ قرآن کریم کو پیغامِ ربانی سمجھتے تھے، ان کی راتیں اس کے غور وفکر میں گزرتیں اور ان کے دن اس کی ہدایات پر عمل کی جستجو میں بسر ہوتے تھے۔‘‘ (التبیان فی آداب حملۃ القرآن للنووی) مشہور تابعی حضرت حسن بصریؒ کافرمان ہے: ’’قرآن کریم کے نزول کا مقصد اس میں غور وتدبر کرنا اور اس پر عمل کرنا ہے، لہٰذا محض قرآن کریم کی تلاوت پر اکتفا نہ کرو، بلکہ اسے عمل میں لاؤ۔‘‘ (مدارج السالکین لابن القیم، ج: ۱، ص:۴۵۲)
علامہ ابن القیمؒ تدبّرِ قرآن کی اہمیت ذکر کرتے ہوئے رقم طراز ہیں: ’’بندے کی دنیا وآخرت میں سب سے مفید اور اسے سب سے زیادہ نجات سے قریب کرنے کے لیے قرآن کریم میں طویل غور وتدبر اور اس کی آیات کے معانی میں فکر کو یکجا کرنے سے بڑھ کر کوئی چیز نہیں، کیونکہ قرآن، انسان کو خیر وشر کی تمام بنیادوں سے واقف کراتا ہے، خیر وشر کی راہوں، ان کے اسباب، نتائج وثمرات سے اور اہلِ خیر واہلِ شر کے انجام سے آگاہ کرتا ہے۔
سعادت کے خزانوں کی کنجیاں اور مفید علوم اس کے ہاتھوں میں تھما دیتا ہے، ایمان کی بنیادوں کو اس کے دل میں راسخ کرتا ہے، اسے دنیا وآخرت کی حقیقت دکھاتا ہے، اس کے دل میں جنت ودوزخ کا استحضار پیدا کرتا ہے، اقوامِ عالم کی تاریخ سے آگاہ کرتا اور عبرت گاہیں دکھاتا ہے، اللہ کے عدل اور فضل کا مشاہدہ کراتا ہے، اور اللہ تعالیٰ کی ذات واسماء، صفات وافعال، اس کی پسند وناپسند اور اس تک پہنچانے والی راہ کی پہچان کراتا ہے۔‘‘ (مدارج السالکین، ج: ۱، ص: ۴۵۳)
غور وفکر کے ساتھ قرآن کریم کی تلاوت‘ دلوں کے امراض کا علاج اور ظاہر وباطن کی اصلاح کا ذریعہ ہے۔ حليۃ الاولياء (ج:۱۰، ص: ۳۲۶) میں تابعی ابراہیم نخعی ؒکا قول لکھا ہے: ’’پانچ چیزیں دل کی دوا ہیں: تدبر کے ساتھ قرآن کریم کی تلاوت، معدے کو خالی رکھنا (یعنی کم کھانا)، رات کی عبادت، سحر کے وقت گریہ وزاری اور نیک لوگوں کی صحبت۔‘‘
مالک بن دینار رحمہ اللہ کہا کرتے تھے: ’’اے اہلِ قرآن! قرآن کریم نے تمہارے دلوں میں کیا بویا ہے؟! قرآن تو مومن کی بہار ہے، جیسے بارش زمین میں بہار کا باعث ہوتی ہے۔‘‘(الزہد للامام احمد، روایت نمبر : ۱۸۶۱)یہاں نمونے کے طور پر چند اقوال ذکر کیے گئے ہیں، ورنہ ہر دور کے بزرگوں کے ایسے اقوال کتابوں میں بکھرے ہوئے ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ انسان‘ قرآن کریم سے اپنا تعلق مضبوط رکھے، اس کی تلاوت کرتا رہے، اس کے مضامین میں غور وفکر کرتا رہے، اور اس کی تعلیمات پر عمل کی کوشش کرتا رہے تو راہِ حق پر گامزن رہتا، گمراہیوں سے بچا رہتا اور نفس وشیطان کے حملوں سے محفوظ رہتا ہے اور جو انسان، قرآن سے دور ہوجائے اور اس کی راہ سے روگردانی کرے تو وہ ضلالت کی دلدل میں پھنستا چلا جاتا اور شیاطین کا کھلونا بن جاتا ہے، جو اسے ذلت وہلاکت کے گڑھے میں جا گراتے ہیں، نتیجتاً ایسا انسان دنیا کے غموں اور آخرت کی حسرتوں کا شکار ہوجاتا ہے۔
ارشادِ ربانی ہے: ’’ اور جو شخص میری اس نصیحت سے اعراض کرے گا تو اس کے لیے تنگی کا جینا ہوگا اور قیامت کے روز ہم اسے اندھا کر کے (قبر سے) اٹھائیں گے۔ وہ (تعجب سے) کہے گا: اے میرے رب! آپ نے مجھے اندھا کر کے کیوں اٹھایا؟ میں تو (دنیا میں) آنکھوں والا تھا۔ ارشاد ہوگا کہ: ایسا ہی تیرے پاس ہمارے احکام پہنچے تھے پھر تو نے ان کا کچھ خیال نہ کیا اور ایسا ہی آج تیرا کچھ خیال نہ کیا جائے گا۔ ‘‘ (طہ:۱۲۴ - ۱۲۶)
ایک اور مقام پر ارشادِ باری تعالیٰ ہے: ’’ اور جو شخص اللہ کی نصیحت (یعنی قرآن) سے اندھا بن جائے ہم اس پر ایک شیطان مسلط کردیتے ہیں، سو وہ ( ہر وقت) اس کے ساتھ رہتا ہے اور وہ اُنہیںراہ حق سے روکتے رہتے ہیں اور یہ لوگ یہ خیال کرتے ہیں کہ وہ راہِ (راست) پر ہیں۔ ‘‘(سورۃالزخرف :۳۶-۳۷)
کتابوں میں نبی کریم ﷺ، صحابہ کرامؓ اور اسلافِ امت کےقرآن کریم میں غور وتدبر کے بے شمارواقعات ملتے ہیں، جن سے رہبری بھی ملتی ہے اور شوق وجذبہ بھی بڑھتا ہے۔ نبی کریم ﷺ نے ایک موقع پر پوری رات درج ذیل آیت پڑھتے اور دُہراتے گزاری تھی: ’’ اگر آپ ان کو سزادیں گے تو یہ آپ کے بندے ہیں اور اگر آپ ان کو معاف فرمادیں تو آپ زبردست ہیں اور حکمت والے ہیں۔‘‘(سورۃ المائدۃ:۱۱۸) (سنن ابن ماجہ، روایت نمبر : ۱۳۵۰)
اس واقعے میں امت کے لیے نبی کریمﷺ کی فکر کے ساتھ تدبرِ قرآن کی جھلک بھی نظر آتی ہے۔رات بھر ایک ہی آیت دہراتے رہنے اور اس میں غور وفکر کرنے کے ایسے واقعات بہت سے صحابہ کرامؓ واکابرِ امت سے منسوب ملتے ہیں: حضرت عثمان بن عفانؓ فرماتے تھے : ’’ اگر تمہارے دل پاک ہوجائیں تو تم کلام اللہ سے کبھی سیر نہ ہو، میں نہیں چاہتا کہ میری زندگی میں کوئی ایسا دن گزرے جس میں مجھے قرآن مجید دیکھ کر پڑھنے کا موقع نہ ملے۔‘‘ حضرت عثمانؓ جس مصحف میں پڑھا کرتے تھے، ان کی کثرتِ تلاوت کی بناء پر وہ مصحف جگہ جگہ سے شکستہ ہوچکا تھا۔ (الزھد للامام احمد، ص :۱۶۸)
حضرت حسن بصریؒ نے ایک بار پوری رات یہ آیت پڑھنے میں گزار دی تھی: ’’ اور اگر تم اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کو گننے لگو تو (کبھی) نہ گن سکو، واقعی اللہ تعالیٰ بڑی مغفرت والے بڑی رحمت والے ہیں۔‘‘ (سورۃالنحل:۱۸ ) لوگوں نے اس کی وجہ پوچھی تو فرمایا: ’’اس آیت میں بڑی عبرت اور نصیحت ہے، ہم جب بھی نگاہ اُٹھاکر دیکھیں تو اللہ تعالیٰ کی کوئی نہ کوئی نعمت نازل ہوتی ہے، اور جن نعمتوں کے متعلق ہمیں علم نہیں ان کی تعداد تو اور زیادہ ہے۔‘‘ (مختصر قیام اللیل، ص: ۱۴۸)
مولانا محمد منظور نعمانیؒ کی روایت ہے کہ مولانا محمد انور شاہ کشمیریؒ نے ایک بار فرمایا: ’’میں رمضان المبارک میں قرآن مجید شروع کرتا ہوں، اور تدبر وتفکر سے اسے پورا کرنا چاہتا ہوں، لیکن کبھی پورا نہیں ہوتا۔ جب دیکھتا ہوں کہ آج رمضان المبارک ختم ہونے والا ہے تو پھر اپنے خاص طرز کو چھوڑ کر جو کچھ باقی ہوتا ہے، اس دن ختم کرکے پورا کرلیتا ہوں۔‘‘
کسی نے حضرت شاہ صاحبؒ سے سوال کیا کہ آپ کا حافظہ تو اتنا قوی ہے کہ چند دنوں میں قرآن کریم حفظ کرسکتے تھے، پھر حفظِ قرآن نہ کرسکنے کا کیا سبب ہے؟ فرمایا: ’’ بچپن میں تو والدین نے اس طرف متوجہ نہ کیا، اب یہ ممکن نہ رہا، اس لیے کہ قرآن کریم کی جو آیت پڑھتا ہوں، معارفِ قرآن کا ایک طوفان سا اُمڈ آتا ہے، الفاظ ذہن سے نکل جاتے ہیں، اور معانی ومطالب کی وادیوں میں گم ہوجاتا ہوں۔‘‘(تصویرِ انور، ص :۳۱۴)
یہ ہماری سعادت اور خوش بختی ہے کہ یہ ماہِ صیام، رمضان المبارک ہے، رمضان اور قرآن میں گہری مناسبتیں ہیں، یہ نزولِ قرآن کے آغاز کا مہینہ ہے، اور اسی مہینے کی جانب قرآن کو منسوب کیا گیا ہے، اس لیے اس ماہ میں قرآن کریم کی کثرتِ تلاوت، نمازِ تراویح میں سننے سنانے، دروسِ قرآن کی مجالس میں شرکت، علمائے کرام کی رہبری میں مستند تفسیروں کے مطالعے، اور مضامینِ قرآن میں غور وفکر کرنے کی کوشش ہونی چاہیے، اللہ تعالیٰ ہمیں قرآن کریم کے ساتھ گہرا تعلق نصیب فرمائے، اور اس کی تعلیمات پر عمل کی توفیق عطا فرمائے۔( آمین)