• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

محبت کے اپنے ہی مزے ہیں لیکن اس محبت میں اندھے ہونے کی فضیلتوں کی سمجھ ہمیں آج تک نہ آئی۔ اب اندھے ہو کر دیواروں سے ٹکرانایا محبت کی شاہراہ پر حادثات ہی کا شاہکار ہوناہے تو اس میں بھلا محبوب کا کیا فائدہ یا محبت کو کتنے نفلوں کا ثواب ؟ یہ جو ایک لمحے میں عشق مجازی کو عشق حقیقی کے آسمان پر چڑھا دیتے ہیں ان سے بھی تو کوئی پوچھے کہ’’محبت‘‘میں ناکامی حقیقت کی منزل تک پہنچاتی ہے یا کامیابی ؟ محبت روحانی ہو یا سیاسی ، معاشی یا سماجی اگر یہ اندھی ہو تو بے رنگ ، بے بواور بےثمر ہی ہوگی۔

 یاد آیا کہ لوگوں کو ذوالفقار علی بھٹو سے مختلف شکایتیں تھیں، حسد تھا اور دشمنیاں بھی۔ان سب نے مل کر قومی اتحاد بنالیا جسکے سبز جھنڈے پر 9ستارے تھے۔ وہ ستارے کون  تھے یہ کہانی پھر سہی لیکن ان 9 ستاروں نے جو چَن چڑھایا تھا اس کا نام جنرل ضیاء تھا۔ ان 9 ستاروں نے اس پاکستان قومی اتحاد کی سیاسی سرگرمی کا نام نظام مصطفیٰ تحریک رکھ دیا۔ ڈاکٹر اسرار نے ایک دفعہ کہا تھا کہ یہ نظام مصطفیٰ تحریک نہیں ایک سیاسی تحریک تھی۔ اس سچ پر انہیں وہ مسجد بھی چھوڑنا پڑی تھی جس میں وہ  10 سال سے جمعہ پڑھا رہے تھے بہرحال انکا کہنا تھا کہ پی این اے نے جو حلوہ پکایا اسے جنرل ضیاء نے گیارہ سال کھایا۔

کبھی کبھی اندھی محبت ایسے پکوان پکوا دیتی ہے جسے محبت کے دشمن کھاتے ہیں۔ تاریخ کی کئی اندھی محبتیں کبھی چشم بینا کھا گئیں تو کبھی  رعنائی!ایک نام نہاد دوست ہمیں اکثر کہتا ہے کہ’’صحافی  نیوٹرل ہوتا ہے لیکن لگتا ہے آپ ایک خاص پارٹی میں شمولیت چاہتے ہیں۔‘‘ اس دوست نے کبھی ہمیں سمجھا نہ پورا پڑھا، مگر ہے فتویٰ باز ۔ اسے بار ہا سمجھا چکے کہ ہم کہاں کے صحافی کس کام میں یکتا  تاہم اتنا ضرور کہتے ہیں گر صحافی کی کوئی پسند یا ناپسند ہو تو کوئی جرم نہیں ، جرم یہ ہے گر وہ سچ نہ بولے، اور’’ یو ٹیوبنگ‘‘میں جھوٹ اور سنسنی ہی ہر اکتفا کرے۔ دوست سے بہرحال دست بستہ درخواست کی کہ محبت فرض بھی ہے اور حق بھی تاہم یہ وعدہ ہے کہ ہماری محبت آپ کی طرح اندھی نہیں ہوگی جو کسی بیمار کی بیماری کا تمسخر اڑائے یا کسی بزرگ کی دستار سے کھیلے! نہ ہم آپ سی وہ محبت رکھیں گے کہ آئی ایم ایف سے کہتے پھریں:پاکستان کی مدد نہ کیجئے گا۔

وہ محبت بس آپ ہی کو مبارک جو کسی کے بےجا پیار میں اپنے ہی گھر کو جلا کر راکھ کرنے کے درپے ہو یا اوروں کیلئے نفرت کابارود بن جائے۔ہمیں جن سے محبت ہے ، ہم انہیں مکمل ہوش و حواس سے چاہنا چاہتے ہیں، اور یہ بھی چاہتے ہیں کہ وہ بھی دیوانگی سے دور رہیں کیونکہ ہمارا یقین ہے کہ محبت درویش بناتی ہےپاگل نہیں! ہم تو اس کے بھی قائل نہیں کہ:"Love me, love my dog."ہم کہتے ہیں ، ہماری اپنوں سے بھی محبت کی وجہ آئین فہمی اور آئین سازی ہے، اپنوں سے محبت ہے تو انسانی حقوق کے سبب اور جمہوریت کی بدولت گر یہ سب نہیں تو کیسی محبت؟  ہم پاکستان کھپے کے علمبردار کی صحت کیلئے دعاگو ہیں ، اور جس وراثت کو وہ لے کر چل رہے ہیں ہمیں اُن سے پیار ہے، اور آپ سے بھی محبت ہے۔ لیکن یہ محبت کوئی ملنگ شلنگ محبت نہیں ، شعور کی محبت اور شعور سے محبت ہے جس کا اعادہ ابھی 4 اپریل کو ہوا ہے۔

یہی شعور ہی ہم سے سوال کرتا ہے کہ گورنر ہاؤس پنجاب کو بھلے ہی کارکنان کیلئے کھولا گیا ہے ، لیکن مفاہمت سے حکومت سے کارکنان کیلئے کام بھی تو کیا جاتا سرد جنگ نہیں! لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے جب پچھلے دنوں بلاول بھٹو رمضانی برکات میں گورنر ہاؤس تشریف لائے تو اسٹیج پر منظور وٹو ، ندیم افضل چن، امتیاز صفدر وڑائچ اور اعتزاز احسن کی جگہ کس برکت کا شاخسانہ تھا؟اجی شوکت بسرا، لطیف کھوسہ اور بابر اعوان کو بھی بلا ہی لیتے...ہم محبتوں والے راجہ پرویز اشرف اور ان کے فیل شدہ سیکرٹری سے پوچھے بغیر تو نہیں رہ سکتے کہ اسٹیج کے سامنے نیچے بیٹھے پارٹی سے ہر موسم میں جڑے رہنے والے اسلم گِل اور ثمینہ گھرکی کا کیا قصور تھا؟ پھر اس  شاہدہ جبیں کا کیا قصور ؟ شاہدہ جبیں 1978 میں گرفتاریاں دینے والوں میں اس وقت پیش پیش تھیں جب ان کی بیٹی صرف پانچ ماہ کی تھی، فوجی عدالت نے جبیں کو ایک سال کی قید بامشقت دی جو انہوں نے ملتان جیل میں گزاری اور سزا کاٹنے  کے بعد واپس لاہور منتقل ہو گئیں۔

اہلِ نظر کو وہ محبت بھی یاد ہوگی کہ شاہدہ جبین نے سن 1979 میں بلدیاتی انتخابات لڑ کر عوام کی خدمت کرنے کی کوشش کی تو جبر کی حکومت نے کامیاب نہ ہونے دیا۔ تحریک بحالی جمہوریت کے شروع ہونے پر شاہدہ جبیں کو1981 میں گرفتار کر کے ریمانڈ کے نام پر تقریباً تین سال کوٹ لکھ پت جیل میں رکھا۔ جون 1984 میں رہائی ملی مگر  اگست 1981 میں ان کے بھائی عثمان غنی کو پھانسی دے دی گئی۔ حوصلہ تھا کہ پھر بھی پست نہ ہوا۔ آصف ہاشمی کی محبت کے کیس اگر خواہ مخواہ نہ لٹکے ہوتے تو شاید وہ پنجاب کے گورنر ہوتے لیکن ان کیلئے کسی راجا مہاراجا، بنگش یا حبیب کی سفارش بھی تو دستیاب نہ تھی۔پچھلے دنوں ایک جگہ، آصف زرداری کی جینوئن قربانیوں اور خدمات کی بات ہو رہی تھی تو ہمارے ایک پروفیسر دوست کہنے لگےاس کا فیصلہ مستقبل کے تاریخ کے قاری پر چھوڑ دیجئے، ہم نے عرض کیا تاریخ سمجھنے ، کھنگالنے اور سدھارنے کا ذمہ جب آج کا پروفیسر نہ لے گا تو مستقبل کاکیا لے گا؟ ہمارے ہاں تو تاریخ کو ہمیشہ آرٹیفیشل ٹچ دے کر نصابوں میں دفن کیا گیا وہ بھی نمازِ جنازہ پڑھنے کی اجازت دئیے بغیر، تاریخ سے بھی اتنی سی محبت ہے ہمیں,سو ہم باز آئے ایسی اندھی محبت سے، کوئی محبت ہمیں بھی کرنے دیجئے مگر اپنے ڈھنگ سے !۔

تازہ ترین