• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ہر سال چار اپریل کو یہ گڑا مردہ اکھاڑ لیاجاتا ہے کہ بھٹو کیوں زندہ ہے۔ مگر اس بار قائد عوام کی برسی پر ایک نئی بحث شروع ہوگئی اور بھٹو کے جانشینوں کو نیا نعرہ میسر آگیا ’’مرسوں مرسوں سندھ دا پانی نہ ڈیسوں ‘‘۔ اسکی تفصیل کچھ یوں ہے کہ گزشتہ کئی برس سے ’’گرین پاکستان انیشی ایٹو‘‘ کے تحت چولستان میں کارپوریٹ فارمنگ شروع کی جا رہی ہے اور اس منصوبے میں 6نہریں نکال کر چولستان کو پانی فراہم کرنیکا فیصلہ کیا گیا۔ سرکاری اعدادوشمار کے مطابق 176کلومیٹر طویل محفوظ شہید کینال سلیمانی ہیڈ ورکس کے مقام پر دریائے ستلج سے نکالی جائیگی، جون تا اکتوبر سیلابی پانی استعمال کیا جائیگا جبکہ باقی پنجاب کے حصے کا پانی شامل ہوگا۔ مجموعی طور پر اس میں 4120کیوسک پانی آئیگا اور اس سے 1.2ملین ایکڑ رقبہ قابل کاشت بنایا جائیگا۔ مگرسندھ میں اس حوالے سے تحفظات کا اظہار کیا جا رہا ہے اور خدشات ظاہر کئے جارہے ہیں کہ یہ پانی دریائے سندھ سے لیا جائیگا۔ یوں نئی نہریں نکالنے سے وہاں کی زمینوں کو پانی میسر نہیں آسکے گا اور سندھ کے قابل کاشت رقبے بنجر ہو جائینگے۔ دریائے سندھ سے نئی نہریں نکال کر چولستان کو سیراب کرنے کے منصوبے پر سندھی قوم پرستوں کے اعتراضات سے یوں لگتاہے جیسے زرعی انقلاب کا سبز باغ بھی کالا باغ ڈیم کی طرح متنازع ہونے جا رہا ہے۔

تکنیکی نوعیت کے معاملات پر تو کسی آبی ماہر کی رائے ہی معتبر ہوسکتی ہے لیکن بطور صحافی میں یہ بات واضح طور پر محسوس کررہا ہوں کہ اس منصوبے پر سیاست ہو رہی ہے۔ گرین پاکستان انیشی ایٹو منصوبہ 2023ء میں شروع ہوا۔ جنوری 2024ء میں انڈس ریور سسٹم اتھارٹی (IRSA) نے اس منصوبے کے تحت نئی نہریں نکالنے کی منظوری دی جسکے بعد سندھ میں قوم پرستوں کی طرف سے احتجاج کا سلسلہ شروع ہوا لیکن اسے پذیرائی نہ ملی ۔پیپلز پارٹی کے رہنما اچھے بچے کی طرح چپ چاپ کونے میں بیٹھ کر دہی کھاتے رہے۔ راوی چین ہی چین لکھتا رہا۔ میڈیا میں بھی کبھی کسی نے اس موضوع پر بات کرنا ضروری خیال نہیں کیا۔ فروری 2025ء میں وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز نے آرمی چیف جنرل عاصم منیر کے ہمراہ چولستان میں اس منصوبے کا افتتاح کیا تو سیاست کے ایوانوں میں بھونچال آگیا۔ 10مارچ 2025ء کو صدر آصف زرداری نے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کے دوران نئی نہریں نکالنے کا منصوبہ ترک کرنے کا مشورہ دیتے ہوئے کہا کہ وفاقی اکائیوں کی مخالفت کے باوجود حکومت کا دریائے سندھ سے مزید نہریں نکالنے کافیصلہ یک طرفہ ہے ،میںبطور صدر اسکی حمایت نہیں کرسکتا۔ دو یا تین دن بعد وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے نہریں نکالنے کے منصوبے کیخلاف سندھ اسمبلی میں قرارداد پیش کردی اور یوں اس معاملے کو اچانک قومی مسئلے کی حیثیت حاصل ہوگئی۔ کہا جانے لگا کہ جس طرح پیپلزپارٹی نے کالا باغ ڈیم منصوبے کو دفن کردیا تھا اسی طرح اس منصوبے کو بھی کوڑا دان میں پھینک دیا جائیگا۔ بتدریج سیاسی پارہ چڑھتا چلا گیا اور یہ توقع ظاہر کی جانے لگی کہ 4اپریل 2025ء کو صدر آصف زرداری یا بلاول بھٹو زرداری کوئی اہم اعلان کرینگے۔ بلاول نے یہ منصوبہ واپس لینے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ عوام کہیں گے نہریں نامنظور ہیں تو پیپلز پارٹی عوام کیساتھ کھڑی ہوگی، شہباز شریف کیساتھ نہیں۔ بعض ناقدین کے مطابق بلاول بھٹو زرداری نے کوئی واضح ڈیڈلائن یا الٹی میٹم نہیں دیا۔ دوسری طرف وزیراعظم شہباز شریف کی طرف سے بھی سب سے بڑی اتحادی جماعت کی تنقید کا جواب نہیں دیا گیا۔ وہ موجودہ صورتحال پر ہرگز مضطرب اور بے چین دکھائی نہیں دیتے۔ شہبازشریف کے اعتماد کا سبب شاید یہ یقین ہے کہ زرعی انقلاب کا منصوبہ اور اسکی کامیابی کیلئے نہریں نکالنے کا فیصلہ جنہوںنے کیا ہے ،انکی اجازت کے بغیر پیپلز پارٹی موجودہ نظام کو غیر مستحکم کرنے کی غلطی نہیں کرسکتی ۔

سوال یہ ہے کہ پیپلز پارٹی مارچ 2025ء تک اس حوالے سے خاموش کیوں تھی؟ اور یوں اچانک نئی نہریں نکالنے کیخلاف احتجاج کی مہم میں شامل ہونیکا فیصلہ کیوں کیا گیا؟ دو صوبوں میں پیپلز پارٹی کی حکومت ہے ،صدر مملکت، چیئرمین سینیٹ،دو صوبوں میں گورنر پیپلز پارٹی کی سفارش پر لگائے گئے ہیں، کیا اب بھی کسی قسم کی محرومی کا گلہ شکوہ ہے یا کوئی اور ناراضی ہے جسکے سبب چائے کی پیالی میں طوفان برپا کیا جارہا ہے؟یہ بھی تو ممکن ہے کہ نبض شناسی کے پیش نظر عوام کے جذبات و احساسات کو سامنے رکھتے ہوئے یہ مقبول بیانیہ اختیار کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہو؟ پیپلز پارٹی کو احساس ہوا کہ قوم پرست جماعتیں اس سیاسی نعرے پر سبقت لے جاتی نظر آرہی ہیں اور اگر فوری طور پر احتجاج کی ٹرین میں سوار ہوکر ڈرائیونگ سیٹ نہ سنبھالی گئی تو بہت دیر ہو جائیگی؟ مجھے تو دوسری توجیہہ زیادہ قرین قیاس محسوس ہوتی ہے اور بظاہر یوں لگتا ہے کہ ان دھمکی آمیز بیانات اور اشتعال انگیز تقریروں سے فاصلوں کی عکاسی نہیں بلکہ بڑھتی ہوئی قربتوں کی نشاندہی ہوتی ہے۔ شاید آپ کو یاد ہو جب میاں ثاقب نثار چیف جسٹس ہوا کرتے تھے تو نظام کیخلاف اُٹھنے والی آوازوں پر ازخود نوٹس لے لیا کرتے تھے مگر بعد ازاں معلوم ہوتا کہ اس اقدام کا مقصد انصاف فراہم کرنا نہیں بلکہ معاملے کو محفوظ ہاتھوں میں لیکر سہولت کاری کرنا ہے۔

جب گرد بیٹھے گی تو صورتحال واضح ہوہی جائیگی، ممکن ہے احتجاج کے باوجود نہریں نکالنے کا منصوبہ مکمل ہو جائے اور پیپلز پارٹی بیک وقت عوام اور شہبازشریف دونوں کیساتھ کھڑی رہے مگر آبی ماہرین کے مطابق چولستان کے صحرا میں کارپوریٹ فارمنگ کے خواب کو حقیقت میں بدلنا بہت مشکل ہے۔ وہاں ڈرپ ایری گیشن یا آب پاشی کا جو بھی جدید طریقہ بروئے کار لایا جائیگا، گردآلود نہری پانی کے سبب ناکام ہو جائیگا۔ ہمارے ہاں تو محض چند نہریں نکال کر صحرا کو گلزار بنانے کی کوشش کی جارہی ہے مگر ہمسایہ ملک بھارت نے تین دریاؤں راوی، ستلج اور بیاس کا رُخ راجستھان کی طرف موڑ دیا مگر وہاں سبز انقلاب نہیں لایا جاسکا۔ لہٰذا زرعی انقلاب کے سبز باغ پر مزیدسنجیدہ فکر و تدبر کے بعد موثر حکمت عملی اپنانے کی ضرورت ہے۔

تازہ ترین