اتنا آسان نہیں کہ سیاست دان یا بیوروکریسی اپنی ترجیحات بدل لیں۔ ذاتی ترجیحات سے مضبوط اور قدیم رشتہ تاجران اور جاگیرداران کا بھی ہے لیکن ترجیحات کے سب رشتے سودمند نہیں ہوتے کچھ کے سائیڈ افیکٹ مہلک ہوتے ہیں۔ اپنی اپنی ترجیحات کا سب کو از سرِ نو جائزہ لینا ہوگا ورنہ تانی مزید خراب ہوتی چلی جائے گی۔ تَند کی خرابی کا علاج ممکن ہوتا ہے تانی کا نہیں۔ انصاف کی فراہمی، معیشت کی خوشحالی، زراعت کی شادابی اور جمہوریت کی اصلی روشن خیالی کیلئے ایک دوسرے کی حیثیت اور افادیت کا احترام کرنا ہو گا جس میں بحیثیت قوم ہم ٹال مٹول سے کام لئے جا رہے ہیں۔ اگر کوئی سمجھے کہ بلوچ اپنی بہادری، سندھی اپنی قربانی، پٹھان اپنی جفا کشی، کشمیری استقامت، پنجابی ریاضت، بلتستانی و گلگتی اور صحرائی کوہستانی اپنی اپنی نگہبانی و فقیری کے پرانے قصے سنا سنا کر نئی نسلوں کی ترقی کے ضامن ہو سکتے ہیں نہ جدت اور تخلیق کے رہنما۔ یہ درست ہے کہ کلچر اور تہذیب کے دامن کی خوش نمائی و دلربائی کو نہیں چھوڑنا چاہئے لیکن یہ کبھی اور کہیں بھی جدتوں اور تخلیقات کی راہ کی رکاوٹ نہیں ہوتے! بیورو کریسی کے اندر انگریز افسر کا سرایت کردہ کلچر آج انگریز میں تو نہیں ملتا۔ عالم کی صنعتی ترقی کو ففتھ انڈسٹریل ریولیوشن تک پہنچنے اور اب چھٹے صنعتی انقلاب کی جانب بڑھنے میں مناپلیوں نے نہیں تحقیق، تفتیش، سیاستدانوں، منتظمین، قانون اور معاشرتی فراست کے باہمی اتفاق رائے نے کی ہے۔ جبکہ ہم باہمی اتفاق کے ثمرات سمیٹنے سے کوسوں دور اور اپنی اپنی نرگسیت کے کانٹے اکٹھے کرنے کے قریب تر رہتے ہیں!
پچھلے دنوں انتظامی سطح پر بیوروکریسی میں ہونے والی ترقیاں ہمارے ایک رہنما تجزیہ کار اور ایک رفیق کالم نگار کا بالخصوص موضوع رہا جسے حساس طبقے نے چشم بینا سے دیکھا، پھر استاد محترم نے متذکرہ دونوں احباب کو اپنے ٹاک شو میں موضوع بحث بھی بنایا، سیدھی سی بات تھی کہ موجودہ حکومت نے بھی چند بیوروکریٹس کی اہمیت کو بلاوجہ نظر انداز کیا اور کچھ میرٹ سے ہٹ کر ’’نوازنے‘‘ اور ’’دلنوازی‘‘ کی روایت کو برقرار رکھا۔ ہمارے مربی کا لکھنا تو کچھ اس مترادف تھا کہ : چینی مہنگی ہو جانے کی بابت پنجاب فوڈ سیکرٹری سپرا اور کین کمشنر عبدالرؤف نے ایکسپورٹ سے خبردار اور انکار کیا تو انہیں ’’افسر بکار‘‘ سزا دی گئی! مرکزی و صوبائی حکومت کو اس پر معذرت کرنا چاہیے۔ قبلہ نے تو ان فرض شناس اور زیرک افسروں کو تمغہ امتیاز دینے کیلئے قلم بند کر دیا تھا وہ بھی اپنے کالم میں! اس سے پہلے ایک کالم کا مغز یہ تھا کہ ’’گو افسر شاہی آج کے ہائبرڈ نظام میں بہت کمزور ہو چکی ہے مگر شہباز شریف اور مریم نواز کے گورننس اسٹائل میں افسر شاہی کا کردار سب سے اہم ہے کیونکہ شریف خاندان اپنے سیاسی اور عوامی فیصلوں پر عملدرآمد اپنی پسندیدہ افسر شاہی کے ذریعے ہی کروانے کا عادی ہے۔ حال ہی میں گریڈ 21 اور 22، جو افسر شاہی کے اعلیٰ ترین درجات ہیں ان میں جو ترقیاں ہوئی ہیں ان پر ایک طرف مبارکبادوں کا سلسلہ جاری ہے تو دوسری طرف مسترد ہو جانے والے افسروں کے گھروں پر سوگ طاری... ’’میں استاد محترم کی اس بات سے اتفاق کرنا نہیں چاہتا مگر مجبور ہوں کہ اتفاق کئے بغیر آگے جاکر بھی گتھیاں سلجھیں گی نہیں۔ عین ممکن ہے سابق نگران حکومت کے لگائے ہوئے پنجاب آئی جی پولیس اور چیف سیکریٹری کو نہ بدل پانے کی پاداش ترقیوں کیلئے کئی افسران کی بدقسمتی کا باعث ہو۔ بہرحال مریم حکومت کو کیپٹن (ر) اسداللہ کو بطور سیکریٹری ہاؤسنگ، ڈاکٹر فرخ نوید کو بحیثیت سیکرٹری ہائر ایجوکیشن اور شفقت اللہ مشتاق کو ڈی سی راجن پور سمیت دیگر متعدد اہم تقرریوں میں اچھی کارکردگی اور نیک نامی بھی ملی جسے فراموش کرنا ممکن نہیں۔ لیکن مرکز والوں سے ایک سوال ہے کہ ارم بخاری جو ان دنوں ایوانِ صدر میں فرض شناسی کی مثال قائم کئے ہوئے ہیں اور سابق آئی جی موٹر ویز و ہائے ویز عامر ذوالفقار کا قصور تو بتا دیں؟ ارم بخاری کا قصور یہ کہ انہیں ماضی میں ایڈیشنل چیف سیکریٹری پنجاب لگایا گیا تھا؟ لیکن کبھی آپ نے بھی تو انہیں سیکرٹری ایچ او ڈی لگایا تھا؟ چھان پھٹک کے بعد ہم نےمحسن گورائیہ کی ایک تحریر سے بھی جُزوی اتفاق کیا : کیپٹن عثمان، بلال احمد، آصف بلال لودھی، احمد عزیز تارڑ اور جاوید اختر محمود، آسیہ گل، سقراط امان اور مدثر ریاض کو ترقی نہ ملنے کا کیا کلیہ ہے؟
بمطابق تحقیق جن متذکرہ افسران کو ترقیاں نہیں ملیں، ان کی ترقیاں رکنا ممکن ہی نہیں کہ یہ قوم کا انمول اثاثہ ہیں آج نہیں تو کل ان کی کارکردگی خود ان کی انگلی پکڑکر ان کو حق کی مسند پر جا بٹھائے گی۔ ان تبصروں کے بعد ایک چھوٹا سا واقعہ سامنے آیا ہے جس سے امید کی کرن پھوٹی ہے۔ دیر آید درست آید کی مصداق آگے لائے جانے والی کی کسوٹی بولے گی اور نہ لائے جانے والوں سے سسٹم میں جو ’’آئیوڈین کی کمی‘‘ ہوئی اس کے اثرات بولیں گے۔ زمانہ جانتا ہے کہ اشفاق خان سا افسر ملک کے جس کونے سے بھی ہوتا ہوا بطور کمانڈنٹ پنجاب پولیس کالج سہالہ پہنچا دعاگو بڑھاتا گیا ایسے لوگوں کو جہاں چاہیں آج یا کل آئی جی لگا کر دیکھ لیں پروفیشنل سولجر لگیں گے (تحقیق ہےخان سے کوئی ملاقات نہیں، دیگر سے بھی اچھا برا ناتا نہیں)
حسن ظن کی بحالی کا ایک دریچہ بہرحال قابل اور مستحق افسران کی بطور ڈی جی ایف آئی اے، آئی جی موٹر ویز اور نیشنل ہائی ویز اور سیکرٹری فیڈرل ایجوکیشن و پروفیشنل ٹریننگ کی حالیہ تقرریوں سے کھلا ہے۔ ڈی جی راجہ رفعت مختار کو اگر خارجہ، داخلہ اور قانون کی وزارتوں کی صحیح کوارڈنیشن میسر ہو گئی تو انسانی اسمگلنگ سمیت دیگر غیر قانونی معاملات اور بے جا سیاسی کلاکاری اور مداخلت کا ٹرینڈ بدلے گا، یہ جو فرحت اللہ بابر کیس کی انہیں سلامی ملی ہے اسے از سرِ نو دیکھنا ہوگا۔ 7بار ممبر اور سابق وفاقی وزیر ہمارے دوست جاوید علی شاہ بھی راجہ کو باصلاحیت گردانتے ہیں، ویسے شاہ صاحب کم ہی کسی کی تعریف کرتے ہیں۔ ہاں آئی جی موٹر ویز سے ہم یونیورسٹی دور سے ’’جیلس‘‘ ہیں کہ وہ ہمیشہ رفقاء میں کمال رہے، اساتذہ ان کے گن گاتے۔ اور سیکرٹری ندیم محبوب مصدقہ تعلیم دوست ہیں۔ بات وہی کہ مقننہ، انتظامیہ، قانون اور سِول سوسائٹی فراست کا ذاتی ترجیحات اور مہلک سائیڈ افیکٹ سے بچنا ضروری ہے، صاحب!