• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

السّلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ

کشمیر کے بغیر پاکستان ؟؟

سالِ نو کا ’’سورج نامہ‘‘ چمکا، تو میرا چہرہ دمکا۔ مگریہ کیا… سرکٹا پاکستان جو دیکھا، تو ماتھا ٹھنکا، بھلا یہ بھی کوئی بات ہوئی کہ سر کے بغیر صرف دھڑ ہو۔ آپ میری بات سمجھ رہی ہیں ناں؟ بھلا کشمیرکےبغیر پاکستان مکمل ہوسکتا ہے۔ ایوانِ نمائندگان، اُمتِ مسلہ، پاک افواج، عدالتِ عظمیٰ یا خارزارِسیاست کی جگہ ’’کشمیر‘‘ کوشامل کرلیاجاتا، توزیادہ مناسب ہوتا۔ گو کہ مضامین عُمدہ تھے مگر پاکستان کا نقشہ ادھورا تھا۔ ہاں البتہ ’’کلکس‘‘ کے بعد چاروں صوبوں کی ترتیب عُمدہ رہی۔ 

تمہید طویل ہوگئی۔ سرِورق کی بات کریں، تو بہترین انداز سے تیار کیا گیا تھا۔ پورے سال کا منظر نامہ ایک نظر میں دماغ میں گھوم گیا۔ ’’حرفِ آغاز‘‘ بھی دل کو خُوب بھایا۔ ویسے شاید ہی کوئی ہو، جسے مدیرہ صاحبہ کی تحریر اچھی نہ لگتی ہو۔ اعزاز سیّد نے ایوانِ نمائندگان کے موضوع پر سب سے اچھا تجزیہ پیش کیا۔ نعیم کھوکھر نے بھی امت مسلمہ لکھ کرحق ادا کردیا۔ 

طلعت عمران نے پاک افواج کی کارکردگی پربہترین روشنی ڈالی۔ محمد اویس یوسف زئی ہمیشہ کی طرح عدالتِ عظمیٰ پررقم طراز تھے۔ خار زارِ سیاست نے تو سارا سال ہی پاؤں زخمی کیے۔ محمّد بلال غوری کاغیر جانب دارانہ تجزیہ پسند آیا۔ صوبوں کے حالات و واقعات بھی ایک ایک صفحے پر بڑی عُمدگی سے سموئے گئے اور ’’آپ کاصفحہ‘‘ کا سالانہ تجزیہ تو بہترین تھا ہی، مستقل خطوط نگاروں میں ہمارا نامِ گرامی شامل ہوا،مہربانی۔ میگزین تیار کرنے والوں سے لےکر پڑھنے والوں تک کو مبارک باد۔ (ڈاکٹرمحمد حمزہ خان، لاہور)

ج: کوئی بھی ذی شعور پاکستانی کشمیر کے بغیر پاکستان کا تصور بھی نہیں کرسکتا۔ ہم اب کن کن مجبوریوں کارونا آپ کے سامنے روئیں۔ صفحات کی تعداد میں کمی ہی کے باعث سال نامہ تین اشاعتوں تک چلا جاتا ہے، لیکن خیر، پہلی اشاعت میں اگر’’آزاد کشمیر‘‘ شامل نہیں ہو پایا،تودوسری اشاعت میں ہم نےاُسے سرفہرست ہی رکھا۔ بہرحال، آئندہ کوشش کریں گےکہ جس طور بھی ممکن ہو، پہلی اشاعت ہی کا حصّہ بنائیں۔

حاکمِ وقت کی خوشامد

چیمہ صاحب کی تحریر پڑھی، تو غلام حیدر وائیں کا ذکر پڑھ کر1991ء کے دَورمیں پہنچ گئے۔ کیسا پُرسکون زمانہ تھا۔ نہ موبائل، نہ انٹرنیٹ، دودھ 14روپے لیٹر ملتا تھا، آٹا 5 روپے کلو۔ اے کاش! وہ وقت لوٹ آئے۔ ویسے بڑی حیرت ہوئی،چیمہ صاحب، شہباز شریف صاحب کی میٹنگ میں ٹائم پر نہیں پہنچتے تھے۔ ارے بھئی، وہ وزیرِاعظم کے بھائی تھے۔ اُن کے لیےتووقت سے پہلےپہنچنا چاہیے تھا۔ 

ہم ہوتے، تو اُن کے آنے سے پہلے میٹنگ میں موجود ہوتے، اُن کی کرسی صاف کرتے اور اُن کی خوب چاپلوسی کرتے کہ آگے بڑھنے کا یہی تو راستہ ہوتا ہے۔ بس، کسی بھی طرح حاکمِ وقت کی خوشامد کی جائے، اصول و قانون کی باتیں تو صرف کتابوں میں اچھی لگتی ہیں، حقیقتاً ترقی کایہی راستہ ہےکہ آدمی حُکم رانوں کے گن گائے۔ چیمہ صاحب نے اگر اُس وقت شہباز شریف کی خدمت کی ہوتی، تو آج وہ کتابیں لکھنے کے بجائے، کوئی وزیر مشیر ہوتے اور پروٹوکول کے مزے لوٹ رہے ہوتے۔ (نواب زادہ بے کار ملک، سعید آباد، کراچی)

ج: اب ہم کیا کہیں؎ بات توسچ ہے، مگربات ہے رسوائی کی۔

والدہ صاحبہ کی حیرانی، قدر افزائی

اللہ تعالی صحت و عافیت کے ساتھ طویل زندگی عطا فرمائے تاکہ مخلوقِ خدا علم و ہنر، سخاوت و فیاضی سے تادیر مستفید ہوتی رہے۔ جس دن سے ’’سنڈے میگزین‘‘ کو پہلا خط لکھا تھا، انتظار کی سولی پہ ٹنگا تھا۔ چھے سنڈے میگزین منظرِ عام پر آئے اور پھر ساتویں میں اپنا خط ’’اِس ہفتےکی چٹھی‘‘کےعنوان سے جگمگاتا پایا، تو یقین کیجیے، حیرانی اور خُوشی کی کچھ ایسی مِلی جُلی کیفیت تھی کہ بس سکتہ نُما خاموشی ہی طاری ہوگئی۔ 

سمجھ نہیں آرہا تھا کہ اپنی خوشی کا اظہار کیسے اور کس سے کروں؟ بہرحال، جب امّی جان کوخط دکھایا، تو پہلے تو بڑی حیران ہوئیں، پھر خط پڑھا اور بہت خُوش ہو کر کہا۔ ’’اچھا، تمھیں لکھنا آگیا ہے اور خط بھی لکھ لیتےہو، تو بس، اب سنڈے میگزین کو باقاعدگی سےخط لکھتے رہو۔‘‘ ساتھ زور دے کر یہ بھی کہا کہ ’’اب کے جو لکھو گے، تو صرف شکریے کا خط لکھنا۔

ایڈیٹر نے تمھاری حوصلہ افزائی کی ہے، اُس کا تہہ دل سےشکریہ ادا کرو۔‘‘ چلیں، والدہ محترمہ کے جملے ہوبہو ہی نقل کر دیتا ہوں۔ ’’حافظ جی! (والدہ صاحبہ مجھے اسی طرح مخاطب کرتی ہیں) تمھارے اس خط سے سنڈے میگزین کی قدر وقیمت تو نہیں بڑھی، لیکن ایڈیٹر صاحبہ نے تمھارا خط شائع کرکے بلکہ اُس کو ’’ہفتے کی چٹھی‘‘ قرار دے کر تمھاری عزت و توقیر اور وقار میں ضرور اضافہ کردیا ہے۔‘‘

اب ’’سال نامے‘‘ کی بات کروں، تومجھے سب سے اچھی، دل چسپ بات یہ لگی کہ ہر مضمون کی سُرخی کے لیے انتہائی متناسب مصرع منتخب کیا گیا، جس سے ایک جملے میں پورے مضمون کا تھیم واضح ہورہا تھا۔ غالباً یہ ایڈیٹر ہی کا کمال ہے کہ پہلے متعلقہ مضمون کا بغور مطالعہ، ایڈیٹنگ اورپھر اُس کے عین مطابق مصرعے کی تلاش، یعنی خوب ہی مغز ماری کرنی پڑتی ہے، تب کہیں جاکر سنڈے میگزین کی تخلیق عمل میں آتی ہے۔ ذوالفقار چیمہ کی داستانِ حیات دھیرے دھیرے آگے بڑھ رہی ہے، پڑھ کر لُطف اور معلومات میں اضافہ ہو رہا ہے۔ 

ہاں، ایک اندازہ اور ہوا کہ کراچی کے لوگ زیادہ تمیز و تہذیب کے حامل زیادہ محنتی اور دانش مند ہیں کہ ’’سال نامے‘‘ میں شائع ہونے والے زیادہ تر تجزیات کراچی ہی کے لکھاریوں کے تھے۔ اللہ کریم وطنِ عزیز کےمعاشی حب کو مزید ترقی وعروج عطا فرمائے۔ اور ہاں، میری حوصلہ افزائی پر بندۂ ناچیزہی نہیں، اُس کے والدین بھی آپ کے تہہ دل سے شُکرگزار ہیں۔ (حافظ عُمر عبدالرحمان ڈار، ہرن مینار روڈ، نزد نبی پورہ انڈرپاس، شیخوپورہ)

ج : حافظ جی! آپ جس قدر پیاری، نیک دل اور دانش مند ماں جی کے بیٹے ہیں، آپ کی پہلی تحریر’’اِس ہفتے کی چٹھی‘‘ نہ بنتی، تو کس کی بنتی۔ نپولین نےیوں ہی تونہیں کہاتھا،’’تم مجھے اچھی مائیں دو، مَیں تمھیں بہترین قوم دوں گا‘‘۔

خُوب سجیں سنوریں

ہمیشہ کی طرح اِس بار بھی دو ہی شماروں پر تبصرہ کروں گا، دونوں میں متبرّک صفحاتِ ’’سرچشمۂ ہدایت‘‘ موجودتھے، دیکھ کے بہت  خوشی ہوئی۔ یہ بات سچ ہے کہ عالمی معیشت بحالی کی جانب گام زن ہوئی، تو جنگوں نے ترقی کے سفر میں رکاوٹیں کھڑی کردیں۔ 175 سالہ تاریخ کا گرم ترین سال، موسمیاتی تبدیلیوں کے خطرناک تیور، ناکافی بجٹ، خُرد برد اور نگرانی کے فقدان نے شعبۂ صحت کو مزید پیچھے دھکیل دیا ہے۔ ’’خُود نوشت‘‘ کی دونوں اقساط سُپر ڈُپر تھیں۔ 

منور مرزا بجا فرماتے ہیں کہ پاک، افغان تعلقات کی سمت درست کرنے کی اشد ضرورت ہے، دونوں مُلکوں کو چاہیے کہ مذاکرات کی میز پر آئیں اور ایک دوسرے کا موقف تحمّل و برداشت سے سُنیں۔ اب سرحدیں تو تبدیل ہو نہیں سکتیں، ہم سائے قیامت تک ہم سائے ہی رہیں گے۔ متنوّع موضوعات پر یادگاری ڈاک ٹکٹس سے متعلق مضمون خُوب معلوماتی تھا۔ 

’’اسٹائل‘‘ میں بھی کیا خُوب کہا گیا کہ ؎ آئینہ سامنے ہے، سنورنے لگی ہوں میں… اور ماہی راجپوت بھی واقعتاً بڑی عُمدگی سے سجیں سنوریں۔ ’’ڈائجسٹ‘‘ اور ’’ایک پیغام، پیاروں کے نام‘‘ سلسلوں میں ناچیز کی تحریروں کو جگہ دینے کا بہت شکریہ۔ نیز، شہزادہ بشیر محمّد نقش بندی کا بھی شکریہ کہ میرے اقوالِ زریں اُن کے دل میں اُترے۔ (پرنس افضل شاہین، نادر شاہ بازار، بہاول نگر )

ج: تصحیح کرلیں کہ آپ کے منتخب کردہ اقوال زرّیں، نہ کہ خُود آپ کے۔ آپ کا ذاتی تو ایک ہی قولِ زرّیں ہے، جو ہمیں گویا حفظ ہوچُکا ہے کہ ’’ہمیشہ کی طرح اس بار بھی دو ہی شماروں پر تبصرہ کروں گا‘‘، رہا ماڈل کا بناؤ سنگھار، تو وہ تو آپ کی ڈومین ہی نہیں، اس لیے رائے کو بھی مستند نہیں مانا جاسکتا۔

فوٹوکاپیاں ارسال کردیں

گزشتہ 40 سال سےاخبار جنگ کا قاری ہوں۔ ’’سنڈے میگزین‘‘ کا تو جواب ہی نہیں۔ کیا کچھ نہیں ہوتا، ایک چھوٹے سے جریدے میں کہ بیان سے باہر ہے۔ بچّوں، بڑوں خواتین سب ہی کے لیے بہترین مواد مل جاتا ہے۔ سو، ہم سب کی دُعائیں آپ کے ساتھ ہیں۔ 

ایک گزارش ہے، آپ کے میگزین میں دینی معلومات کا ایک سلسلہ ’’قصص القرآن‘‘ شروع ہوا تھا، کچھ مصروفیات اور کچھ میری کوتاہی کے سبب اُن قصوں میں سے چند ایک پڑھنے سے رہ گئے تھے، تو کیا آپ مجھےاُن کی فوٹو کاپیاں ارسال کرسکتی ہیں، بےحد ممنون رہوں گا۔ (آغا آفتاب احمد، آفیسر کالونی، نارہ جیل سائٹ ایریا، حیدرآباد)

ج: روزنامہ جنگ کے ’’نیٹ ایڈیشن‘‘ میں اس سلسلے کی تمام اقساط موجود ہیں۔ آپ وہاں سے نہ صرف مطالعہ کرسکتے ہیں، پرنٹ آؤٹ بھی لے سکتے ہیں۔ دوم، اب یہ قصص باقاعدہ کتاب کی صُورت بھی دست یاب ہیں، تو آپ کتاب خرید کر تمام واقعات کا ایک ساتھ بھی مطالعہ کرسکتے ہیں۔

چھوٹا سامضمون

’’اشاعتِ خصوصی‘‘ میں م۔ ص ایمن کا ’’کالا پُل‘‘ پر مضمون بہت پسند آیا۔ یہ 150 سال پرانا پُل ہے، ہمیں اندازہ نہیں تھا۔ اور اس مرتبہ ’’اِک رشتہ، اِک کہانی‘‘ سلسلہ بھی لاجواب تھا۔ ہر کہانی ایک سے بڑھ کر ایک لگی۔ ’’ڈائجسٹ‘‘ کا صفحہ بھی پسند آیا۔ صفیہ نسیم کی تحریر عُمدہ تھی،باقی غزلیں بھی اچھی رہیں۔ قرات نقوی کی میلز پابندی سے پڑھنے کو مل رہی ہیں، تو بہت اچھا محسوس ہورہا ہے۔ 

اگلے سنڈے میگزین کے’’حالات و واقعات‘‘ میں منور مرزا کا شان دار تجزیہ پڑھ کر آگے بڑھے۔ ’’ناقابلِ فراموش‘‘ میں شاہین کمال کی داستان بہترین تھی۔ ’’نئی کتابیں‘‘ میں محمود شام کی کتاب ’’رقصِ یعنی‘‘ پر تبصرہ عمدہ تھا، بلکہ تبصرہ کیا تھا، ایک چھوٹا سا مضمون ہی تھا۔ ویسے مَیں ہراتوار اُن کا کالم بھی بصد شوق پڑھتاہوں۔ (رونق افروز برقی، دستگیر کالونی، کراچی)

                                فی امان اللہ

اس ہفتے کی چٹھی

فروری کے دوسرے شمارے کا ٹائٹل دیکھ کر اگست یاد آگیا، اِس لیے کہ سبز رنگ نمایاں تھا۔ ’’قومی قیادت، لیڈر شپ کے سنہرے اصول‘‘ سلطان محمّد فاتح اہم موضوع پر لکھ رہے ہیں۔ منور مرزا ڈونلڈ ٹرمپ کے نئے دَور کا جائزہ لے رہے تھے۔ ویسے اگر ٹرمپ یہ کہتا ہے کہ مَیں امریکا کومقدّم رکھوں گا، تو شاید وہ اِس پر عمل بھی کر گزرے، وگرنہ یہاں تو’’سب سے پہلے پاکستان‘‘ کا دعویٰ کرنے والے اپنے کہے کا پاس نہ رکھ سکے۔ منیر احمد خلیلی ’’یہودیت اور سامیت‘‘ میں یہودیوں کا حقیقی چہرہ دکھا رہے تھے۔

یہودیوں کے لیے ہولوکاسٹ بہت بڑا ظلم ہے، ہٹلر کےاِس ظلم پر وہ آج بھی ہم دردیاں سمیٹ رہے ہیں، مگر خُود انہوں نے فلسطینوں کے ساتھ جو کچھ کیا، اُسے ظلم نہیں  مانتے، اب اس دہرے معیار کی قوم کو کیا کہیں، منافقت فرد میں یاقوم میں، تاریخ کبھی معاف نہیں کرتی۔ ’’اشاعتِ خصوصی‘‘ میں م۔ص۔ ایمن کا مختصر مضمون ’’کراچی کا کالا پُل‘‘ 150برس کاہوگیا، پڑھ کر 25 سال پہلے کالا پُل کے قریب گزارا کچھ وقت یاد آگیا۔ ’’سنڈے اسپیشل‘‘ میں ثانیہ انورکافروری کےایام کاجائزہ معلوماتی مضمون تھا، اگریہ سلسلہ ہر مہینے کی مناسبت سے ہو، تو قارئین کے لیے خاصی دل چسپی کا باعث ہوگا۔

وفاقی ٹیکس محتسب ڈاکٹر آصف محمود جاہ کا انٹرویو اچھا تھا، ہم تواُنھیں کوایک سوشل ورک اورلکھاری کےطورپرجانتے ہیں۔ درمیانی صفحات پر آپ کی تحریر حدّت، خنکی، شدّت اورخوشبو کاحسین امتزاج لیے ہوئے تھی، تقریباً تمام اقوال منفرد تھے۔’’عورت زندگی میں ایک ایسی نظرضرور چاہتی ہے، جو دیکھتے ہی جان لے کہ آنکھیں جگ رَتے سے لال ہیں یا دکھ، تکلیف سے‘‘ویسے بخدا ایک مرد کے احساسات بھی ایسے ہی ہوتے ہیں۔ وہ بھی چاہتا ہے کہ گھرآئے تو اُسےاپنا دکھ، پریشانی بتانی نہ پڑے۔ ’’ڈائجسٹ‘‘ پر صفیہ نسیم کا افسانہ پڑھتے اپنی ازدواجی زندگی کے جھگڑے یاد آتے رہے۔ 

بےشک، اس رشتے کی ایک ندرت یہ بھی ہے۔ سیما فاطمہ نے سوال کیا کہ آخر امت مسلمہ متحد کیوں نہیں ہوسکتی؟ تو اِس کا جواب یہی ہےکہ’’اُمتِ مسلمہ نے متحد نہ ہونے کا تہیہ کر رکھا ہے۔‘‘ فروری کے تیسرے ہفتے ہی گرمی کے آثار محسوس ہونے لگے کہ اس بار تو سردی نےصرف جھلک ہی دکھلائی۔ منیر احمد خلیلی تاریخی موضوعات پر جامع مضامین لکھ رہے ہیں۔ کشمیر کی طرح فلسطین کی فروخت کا بھی ذکر ہوا۔ 

سلطان عبدالحمید کے ذکر سے ترک ڈراما یاد آگیا۔ سلطان کی یہودیوں کے خلاف مزاحمت کا ذکر تو بارہا پڑھا، مگریہ ایک نیا پہلو تھا کہ سلطان نے صیہونیوں سےفلسطین کےبدلے20ملین پاؤنڈز وصول کیے، جن میں سے دو ملین فلسطین کی قیمت اور 18 ملین سلطنت کا قرض ادا کرنے کے لیے، لیے گئے۔ گوادر انٹرنیشنل ائیرپورٹ کی تعمیر و ترقی پر فرخ شہزاد ملک ایک معلوماتی تحریر لائے۔

کرپٹوکرنسی پرمحمد کاشف کی تحریر بھی اہم تھی۔ اس موضوع پرپہلی بارخاطرخواہ معلومات حاصل ہوئیں۔ ’’اِک رشتہ، اِک کہانی‘‘ میں میر شیراز مَری کی تحریر ’’میرے عظیم پردادا‘‘ اس لیےمنفرد لگی کہ اپنے پردادا کا نام کسی کسی ہی کویاد ہوگا۔ آپ نے میرے خط کے جواب میں لکھا کہ اتنے طویل عرصے سے میگزین سے وابستہ ہیں، مگر علم نہیں کہ ہمارے ہاں مطبوعہ تحریروں کی اشاعت ممنوع ہے، تو بعض باتین ذہن سے محو بھی ہوجاتی ہیں۔ یقین کیجیے، اب اہم انفرادی واجتماعی طور پر ایسے دَور سےگزررہےہیں کہ اکثر روزمرّہ باتیں بھی یاد نہیں رہتیں، ری مائنڈرز لگانے پڑتے ہیں۔ (رانا محمد شاہد، گلستان کالونی، بورےوالا)

ج: بہت خوب۔ آپ کے طرزِ تحریر میں جس قدر تیزی سے نکھار آتے دیکھا ہے، کم ہی تحریروں میں دیکھا جاتا ہے۔

گوشہ برقی خطوط

* مسئلہ فلسطین کے تناظر میں، اہلِ غزہ سے اظہارِ یک جہتی کے ضمن میں آپ کی سب کاوشیں، کوششیں لائقِ صد تحسین و آفرین ہیں۔ (ڈاکٹرشاہ جہاں کھتری، لکھنؤ سوسائٹی، کورنگی، کراچی)

* آپ نے سب ہی کے انٹرویوزکروا لیے، بس اب آپ کا اپنا ہی انٹرویو رہ گیا ہے۔ مَیں بخدا آپ کی بہت بڑی فین ہوں، تو پلیز، میری یہ خواہش پوری کردیں۔ باقی آپ کا میگزین بہت اچھا ہے۔ آپ کے انٹرویو کا انتظار رہے گا اور پلیز پلیز، میرا نام لے کر جواب دیجیے گا۔ (افشاں حسن، مصطفٰی ٹاؤن، وحدت روڈ، لاہور)

ج: افشاں! آپ غالباً یہی فرمائش پہلے بھی ایک دو بار کرچُکی ہیں اورہم اس حوالےسے تفصیلاً جواب بھی دے چُکے ہیں۔ بچّوں کی طرح ایک ہی بات بار بار دہرائے جانے کا کیا فائدہ۔

* آپ اس میگزین کو انتہائی بہتریں انداز میں چلا رہی ہیں۔ اللہ پاک آپ لوگوں کو مزید ترقیاں عطا فرمائے۔ ایک درخواست ہے کہ کبھی کبھی بچّوں کےلیے بھی کچھ مضامین، کہانیاں وغیرہ شایع کر دیا کریں۔ (عظمت علی، لاہور)

ج: بچّوں کے لیے، اتوار ہی کے اخبار کے ساتھ ایک پورا بڑا رنگین صفحہ شایع کیا جاتا ہے۔ اگر آپ کو لاہور میں اُس کا پرنٹ ایڈیشن نہ ملے، تو آپ ہمارے نیٹ ایڈیشن پہ ملاحظہ کر سکتے ہیں۔

* سب سے پہلے تو ذوالفقارچیمہ کی ’’خُود نوشت‘‘ پڑھی۔ بہت ہی عُمدہ، بےحد شان دار، مزہ آگیا۔ ’’اسٹائل‘‘ کی کُرتیاں بھی زبردست تھیں۔ پتلی سی ماڈل، کرینہ کپور کی ڈھلتی جوانی لگ رہی تھی۔ خالدہ سمیع ایک بہترین مضمون لائیں۔ ہم بھی سونے سے ایک گھنٹہ پہلے گھر کی ساری لائٹس کو نائٹ موڈ(پیلی روشنی)ہی پر کر دیتے ہیں اور فون کو ایروپلین موڈ پر۔

’’ڈائجسٹ‘‘ کا افسانہ ویسے تو اچھا تھا، لیکن عنوان ’’ڈنک‘‘کیوں رکھا، سمجھ نہیں آیا۔ ناقابلِ فراموش کا صفحہ بہت ڈھونڈنے پر بھی نہیں ملا۔ لگتا ہے، آپ کے پاس واقعات کی شدید کمی ہوگئی ہے۔اب مجھے ہی کچھ لکھ کے بھیجنا پڑے گا۔’’آپ کا صفحہ‘‘ میں چوہدری قمر کا خط پڑھ کے تو غصّہ ہی آگیا، لیکن ’’مشرقی لڑکی‘‘ کی ہلکی پُھلکی ای میلز بہت مزہ دیتی ہیں۔ (قرات نقوی، ٹیکساس، امریکا)

قارئینِ کرام کے نام !

ہمارے ہر صفحے، ہر سلسلے پر کھل کر اپنی رائے کا اظہار کیجیے۔ اس صفحے کو، جو آپ ہی کے خطوط سے مرصّع ہے، ’’ہائیڈ پارک‘‘ سمجھیے۔ جو دل میں آئے، جو کہنا چاہیں، جو سمجھ میں آئے۔ کسی جھجک، لاگ لپیٹ کے بغیر، ہمیں لکھ بھیجیے۔ ہم آپ کے تمام خیالات، تجاویز اور آراء کو بہت مقدّم ، بے حد اہم، جانتے ہوئے، ان کا بھرپور احترام کریں گے اور اُن ہی کی روشنی میں ’’سنڈے میگزین‘‘ کے بہتر سے بہتر معیار کے لیے مسلسل کوشاں رہیں گے۔ ہمارا پتا یہ ہے۔

نرجس ملک

ایڈیٹر ’’ سنڈے میگزین‘‘

روزنامہ جنگ ، آئی آئی چندریگر روڈ، کراچی

sundaymagazine@janggroup.com.pk