• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سائنسدانوں کی بے آب و گیاہ جزیرے پر 200 سال تک زندہ رہنے والی پراسرار بکریوں پر تحقیق

سائنسدان یہ سمجھنے کی کوشش کررہے ہیں کہ کیسے بکریوں کا ایک ریوڑ شمال مشرقی برازیل کے دور افتادہ اور الگ تھلک جزیرے میں دو صدی سے زیادہ عرصے تک نہ صرف زندہ بچ گیا بلکہ انکی تعداد میں اضافہ بھی ہوا جبکہ وہاں پر میٹھے پانی کا کوئی معلوم ذریعہ بھی موجود نہیں۔ 

یہ واضح نہیں ہے کہ بکریاں اصل میں سانتا باربرا جزیرے پر کس طرح زخمی ہوئیں۔

واضح رہے کہ سانتا باربرا پانچ آتش فشاں جزیروں میں سے ایک ہے جو ابرولہوس مجمع الجزائر کا حصہ ہے، جو مشرقی برازیل کی ریاست باہیا کے ساحل سے تقریباً 70 کلومیٹر دور بحراوقیانوس میں موجود ہے، لیکن سائنس دانوں کا خیال ہے کہ انہیں کالونیئزرز (باہر سے آنے والے آبادکار) کے ذریعے لایا اور چھوڑ دیا گیا تھا۔

مویشی جیسے بکرے، سور اور مرغیاں جو کہ انسانی خوراک کا قابل بھروسہ ذریعہ تھے، لیکن جب نوآبادیات ناکام ہو گئی تو یہ مویشی عام طور پر پیچھے رہ جاتے تھے۔ 

تاریخی ریکارڈ کے مطابق سانتا باربرا جزیرے پر ان کی موجودگی 250 سال سے زیادہ عرصہ رہی اور اس کی دستاویزات موجود ہیں، جو قابل ذکر ہے۔ جبکہ اس بات کو مدنظر رکھیں کہ اس چھوٹے جزیرے میں تازہ پانی کے کوئی ذرائع نہیں ہیں۔

اس مشکل کے باوجود، بکریاں خشک اور آندھی والے جزیرے پر پھل پھول گئیں انھیں جہاں مقامی پودوں اور جانوروں سے محفوظ رکھنے کےلیے منتقل کیا گیا تھا۔

گزشتہ ماہ چیکو مینڈس انسٹیٹوٹ فار بایو ڈائیورسٹی کنزرویشن جو ابرولہوس نیشنل میرین پارک کا انتظام کرتا ہے، نے سانتا باربرا پر آخری 27 بکریوں کو وہاں سے نکالا۔

اسکی وجہ یہ تھی کہ نتیجہ اخذ کیا گیا کہ ان کی موجودگی نے جزیرے کے ماحولیاتی توازن کو نقصان پہنچایا ہے، خاص طور پر سمندری پرندوں کی سات انواع کو متاثر کیا۔ تاہم ان بکریوں کو ختم نہیں کیا گیا کیونکہ سائنس دان ان پر تحقیق کرکے یہ جاننا چاہتے ہیں کہ بہت کم پانی پر یہ کسطرح زندہ رہے۔

دلچسپ و عجیب سے مزید