ترکی کے وزیر خارجہ ہاکان فیدان جنکی دعوت پر میں انطالیہ ڈپلومیسی فورم میں شرکت کر رہا تھا اپنی نشست سے اٹھ کر میری نشست پر تشریف لائے اور مجھ سے کہنے لگے کہ انطالیہ ڈپلومیسی فورم میں شرکت کرنے پر میں آپ کا ذاتی طور پر بھی شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں ۔ یہ میرے لئے بہت خوش گوار اور باعث اعزاز لمحہ تھا ۔ میں نے بھی ان کو انطالیہ ڈپلومیسی فورم کے چوتھی بار انعقاد اور اس کے شاندار انتظامات پر مبارک باد پیش کی ۔ اس سے قبل جب انطالیہ ڈپلومیسی فورم کے فلسطين کنٹیکٹ گروپ کی میٹنگ ہوئی تو اس میں وزیر اعظم فلسطين محمّد مصطفیٰ ، ترکی کے وزیر خارجہ ہاکان فیدان اور مصر و اردن کے وزرائے خارجہ موجود تھے ۔ میں دس اپریل سے ترکی کے شہر انطالیہ میں ڈپلومیسی فورم میں شرکت کیلئے موجود ہوں ۔ لاہور میں ترکی کے قونصل جنرل درمس بستاگ بڑے بھائی کی مانند ہیں، وہ پاکستان سے اتنی محبت رکھتے ہیں کہ اپنی بیماری کے دنوں میں بھی ترکی سے پاکستان میں مکمل طور پر رابطے میں رہے تھے۔ چنانچہ جب فلسطين کنٹیکٹ گروپ کی میٹنگ کے دوران میں نے گفتگو کرتے ہوئے سوال اٹھایا کہ’’ کشمیر ، فلسطين اور قبرص کے معاملات سفارت کاری سے کیوں حل نہیں کئے جا سکے، ہمیں ان اسباب کا جائزہ لینا چاہئے کہ جنکے سبب ان سلگتے مسائل کو حل کرانے میں سفارت کاری تادم تحریر ناکام نظر آ رہی ہے۔ غزہ میں اس وقت جو کچھ الميہ مستقل طور پر قائم ہے اس پر دل گرفتہ ہونے کے ساتھ ساتھ ہمیں اپنے سفارتی داؤ پیچ کا بھی جائزہ لینا چاہئے کہ موجودہ صورتحال کو سنبھالنے میں روایتی سفارت کاری تو ناکام ہو چکی ہے ۔ کیا کوئی اور بھی سفارتی حربے امن کی خواہش رکھنے والے ممالک کے پاس ابھی موجود ہیں ؟ جب سے یہ صورت حال سامنے آئی ہے اس وقت سے ہم نے عملی طور پر مسلمان ممالک کی مشترکہ آواز قائم کرنے کی کتنی مؤثر کوشش کی اور یہ صرف کوئی مسلمان ممالک کا ہی تو مسئلہ نہیں ہے بلکہ غیر مسلم ممالک میں بھی عوام کی کثیر تعداد یہ سمجھتی ہے کہ غزہ میں بربریت کا مظاہرہ کیا جا رہا ہے ، امریکہ یورپ تک میں مظاہرے کئے گئے مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ان مظاہروں سے ہم نے کس حد تک تعلق پیدا کرنے کی کوشش کی، کیوں کہ یہ تو دیوار پر صاف تحریر نظر آ رہا ہے کہ اب تک کی منظور کی گئی ہماری قراردادوں سے اسرائیل کے کان پر جوں تک نہیں رینگی ، اس حقیقت سے کسی کو اختلاف نہیں ہو سکتا کہ امریکہ کی مستقل حمایت نے ہی اسرائیل کو اس حد تک نڈر کر دیا ہے کہ وہ کسی بھی اخلاقیات سے ماورا ہو کر ہر حد سے تجاوز کر رہا ہے مگر اس کے ساتھ ساتھ یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ ہم نے کیا امریکی خارجہ پالیسی کی ترجیحات کی وجوہات کا بغور جائزہ لیتے ہوئے غزہ کی موجودہ صورتحال میں اسکے مؤقف ، حکمت عملی کو تبدیل کرانے کیلئے کوئی گروپ قائم کیا ہے ، یقینی طور پر یہ ایک بہت مشکل ہدف ہے مگر مشکل اہداف کا حصول ہی اصل سفارت کاری ہوتی ہے ورنہ عمومی حالات تو چلتے ہی رہتے ہیں ۔‘‘میں نے غزہ میں ڈپلومیسی کی ناکام ہونے کی وجوہات پر سوال کیا تو وزیر اعظم فلسطين محمّد مصطفیٰ نے جواب دیا کہ مسئلہ فلسطين حل نہ ہونے کا بنیادی سبب اسرائیل کی ہٹ دھرمی ہے اور ہم جب کبھی اس مسئلہ کو حل کرنے کی غرض سے کوئی قدم بڑھاتے ہیں تو اسرائیل کوئی نہ کوئی ایسا اقدام کر گزرتا ہے کہ جس سے سب کچھ رک جاتا ہے ۔ میں نے ترکی کے وزیر خارجہ سے سوال کیا کہ آپ گزشتہ تین انطالیہ ڈپلومیسی فورمز کے مقابلے میں موجودہ فورم کو کیسے دیکھتے ہیں تو انہوں نے کہا کہ یہ ماضی سے بھی زیادہ کامیاب ہوا ہے کیوں کہ اس میں شرکا کی تعداد ماضی کے فورمز کی نسبت زیادہ رہی اور روس کے وزیر خارجہ اور یوکرائن کے وفد نے بھی شرکت کی ۔ یقینی طور پر یہ ترکی کے صدر طیب اردوان کی بھی بہت بڑی کامیابی ہے ۔ غزہ کنٹیکٹ گروپ کی میٹنگ کے بعد وزیر اعظم فلسطين محمّد مصطفیٰ اور ترکی کے وزیر خارجہ سے علیحدہ بھی ملاقات ہوئی جس میں وزیر اعظم فلسطين نے پاکستانی عوام و حکومت کا مستقل حمایت کرنے پر شکریہ ادا کیا ۔ وہاں میں نے یہ بھی عرض کی کہ غزہ کے المیہ کے دوران ہی شام میں حکومت کی تبدیلی کا واقعہ پیش آیا ، سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ شام کی صورت حال کی وجہ سے مسلم ممالک اور عوام میں اتحاد کی کیفیت پیدا ہوئی یا اس معاملہ کو مس ہینڈل کیا گیا ہے۔ ایک ترک اعلیٰ افسر نے مجھ سے کہا کہ اتنے مختصر الفاظ میں اتنی جامع گفتگو اور کسی نے نہیں کی ۔ وہاں پر وزیر اعلیٰ پنجاب مريم نواز تشریف لائی ہوئی تھیں ، ان سے ملاقات بھی ہوئی۔ مريم نواز نے اپنی تقریر میں ایک ایسا جملہ پاکستانی قوم اور اپنے صوبے کیلئے ادا کیا کہ سامعين اس ایک جملے سے انکے پاکستانی قوم سے تعلق پر رشک کرنے لگے میرے پہلو میں بیٹھے ترک نے مجھ سے کہا کہ اس ایک لفظ نے ہر خلوص کے جذبے کو مجسم کردیا ہے ۔ مريم نواز نے اپنی تقریر میں کہا کہ میں ان کی ماں ہوں اور ماں اپنی اولاد کیلئے کتنی پر خلوص ہوتی ہے یہ بتانا سورج کو چراغ دکھانے جیسا ہے ۔