• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

قائد انقلاب نے گزشتہ برس دسمبر میں غیر ملکی تارکین وطن سے اپیل کی تھی کہ وہ ترسیلات زر نہ بھیجیں کیونکہ انکے زرمبادلہ سے حکومت مضبوط ہوگی۔یوں تو انکے ہاں عقل کے بجائے عشق اور جنون کی اجارہ داری ہے اور معقولیت کا کوئی کام نہیں مگر بعض اصحاب خرد نے انہیں یہ اپیل واپس لینے پر قائل کرنے کی کوشش کی اور بتایا کہ عملاً ایسا ممکن نہیں مگر حقیقی آزادی کے علمبرداروں کا منطق و استدلال سے کیا واسطہ ۔قائد انقلاب نے جنوری 2025ء میں ایک بار پھر بیرون ملک مقیم پاکستانیوں سے کہا کہ بائیکاٹ کا سلسلہ جاری رکھیں، یہ حکومت جلد گھٹنے ٹیک دے گی۔ مگر قائد انقلاب کے واضح احکامات کے باوجود غیر ملکی ترسیلات زر کی آمد کا سلسلہ نہ رُکا اور اس میں کمی واقع ہونے کے بجائے بتدریج اضافہ ہوتا چلا گیا۔ مجھے یاد ہے کہ جب شیخ وقاص اکرم سے اس حوالے سے سوال کیا گیا تو انہوںنے فرمایا کہ سمندر پار پاکستانیو ں سے ترسیلات زر روکنے کی اپیل کا اثراگلے دو تین ماہ میں نظر آئے گا۔ اب تین ماہ بعد صورتحال یہ ہے کہ مارچ 2025ء میں بیرون ملک پاکستانیوں کی طرف سے رقوم بھجوانے کے سب ریکارڈ ٹوٹ گئے ہیں۔ اسٹیٹ بینک کے مطابق مارچ 2025ء میں 4.1بلین ڈالر کی ترسیلات زر موصول ہوئیں جو ایک ریکارڈ ہے۔ اس سے پہلے مئی 2024ء میں سب سے زیادہ 3.2بلین ڈالر موصول ہوئے تھے اور یہ صرف ایک ماہ کی بات نہیں مجموعی طور پر بیرون ملک پاکستانیوں کی طرف سے بھجوائی جارہی رقوم میں اضافے کا رجحان دیکھنے کو مل رہا ہے۔ گزشتہ مالی سال کے دوران پاکستانیوں نے 34.1بلین ڈالر بھجوائے جبکہ اس سال 38ارب ڈالر کی آمد متوقع ہے۔

جب قائد انقلاب نے بائیکاٹ کا اعلان کیا، میں نے تب بھی عرض کیا تھاکہ پیٹ کی آگ بجھانے کے بعد انسان رفع حاجت کو نہ جائے بھلا یہ کیسے ممکن ہے؟ دراصل طفلان انقلاب انواع و اقسام کے مغالطوں اور مبالغوں کا شکار ہیں اور ان میں سے ایک ترسیلات زر کا واہمہ ہے۔ ان کا خیال ہے کہ شاید سمندر پار پاکستانی یہ رقوم قومی خزانے میں جمع کرواتے ہیں اور اس سے ملک کا نظام چلتا ہے حالانکہ یہ ترسیلات زر اپنے اہلخانہ کو بھجوائی جاتی ہیں تاکہ وہ اپنے گھر کے اخراجات پورے کر سکیں۔ جنکے بیوی، بچے، بہن، بھائی، ماں، باپ یا دیگر عزیز پاکستان میں ہیں، کیا ایسا ممکن ہے کہ وہ انہیں پیسے بھجوانا چھوڑ دیں؟جب ضروریات بڑھتی ہیں تو غیر ملکی ترسیلات زر میں بھی اضافہ ہو جاتا ہے۔ مارچ 2025ء میں ریکارڈ ترسیلات زر کی وجہ بہت واضح ہے، رمضان المبارک اور عید الفطر۔ ان دونوں مواقع پر اپنی حیثیت کے مطابق فراخدلی سے خرچ کرنے کی روایت ہے اور شاید یہی وجہ ہے کہ نیا ریکارڈ قائم ہوا۔

افواج پاکستان کے سپہ سالار جنرل عاصم منیر نے بھی بیرون ملک پاکستانیوں کے کردار کی تعریف کی ہے۔ اوور سیز پاکستانیوں کے کنونشن سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے بیرون ملک پاکستانیوں کو روشنی قرار دیا۔ جنرل عاصم منیر نے کہا کہ جو لوگ برین ڈرین کا بیانیہ بناتے ہیں وہ جان لیں کہ یہ برین ڈرین نہیں بلکہ برین گین ہے اور بیرون ملک پاکستانی اس کی عمدہ ترین مثال ہیں۔ بلاشبہ آرمی چیف نے اس ضمن میں مثبت پہلو کو اجاگر کیا۔ ہمارا ہمسایہ ملک بھارت طویل عرصہ سے اسی سوچ کو لیکر چل رہا ہے اور یہی وجہ ہے کہ اب بیرون ملک مقیم بھارتی شہری ان کا بہترین اثاثہ بن چکے ہیں۔

قابل ذکر بات یہ ہے کہ ہمارے ہاں سمندر پار پاکستانیوں کی طرف سے بھجوائی جا رہی غیر ملکی ترسیلات زر کا حجم بمشکل 34ارب ڈالر ہے اور حکومت پاکستان نے انہیںنہ صرف دہری شہریت کی سہولت دے رکھی ہے بلکہ اوورسیز پاکستانیوں کے مسائل حل کرنے کیلئے بہت سے اقدامات کیے ہیں لیکن بھارت میں صورتحال اس کے بالکل برعکس ہے۔ بیرون ملک مقیم بھارتی شہری ہر سال 129.4ارب ڈالر کی خطیر رقوم بھارت بھجواتے ہیں مگر وہاں کبھی یہ مطالبہ نہیں کیا گیا کہ انہیں بیرون ملک ووٹ کاسٹ کرنے کی اجازت دی جائے۔ پوسٹل بیلٹ یا بھارتی سفارتخانے میں ووٹ ڈالنے کی اجازت نہیں۔ جس نے ووٹ کاسٹ کرنا ہے وہ بھارت آئے اور اپنے حلقے میں جا کر ووٹ ڈالے۔ انڈین سٹیزن شپ ایکٹ 1955ء کے تحت دوہری

شہریت کی اجازت نہیں۔ جس نے امریکہ، کینیڈا، برطانیہ یا کسی اور ملک کا پاسپورٹ لینا ہے، اسے بھارتی شہریت ترک کرنا ہو گی۔ ایک ٹکٹ میں دو مزے نہیں لیے جا سکتے۔ یہ نہیں ہو سکتا کہ آپ رہیں کسی اور ملک میں اور بھارتی سیاست میں بھی حصہ لیں۔ اسی طرح کوئی سرکاری ملازم، کوئی جج، کوئی جرنیل دہری شہریت نہیں رکھ سکتا۔ گاہے خیال آتا ہے کہ ہمارے ہاں 34ارب ڈالر کی خاطر سمندر پار پاکستانیوں کے ناز نخرے اُٹھائے جاتے ہیں مگر بھارت میں 129.4ارب ڈالر بھجوانے والے بھارتی شہریوں کو کوئی نہیں پوچھتا، آخر کیوں؟ اس لیے کہ بھارت کے پاس 676بلین ڈالر کے غیر ملکی زرمبادلہ کے ذخائر ہیں، 129.4بلین ڈالر کی ترسیلات زر میں سے کچھ کم بھی ہو جائیں تو کوئی فرق نہیں پڑتا جبکہ ہمارے ہاں 15بلین ڈالر کے غیر ملکی زرمبادلہ کے ذخائر ہیں، اس لیے بہت فرق پڑتا ہے۔ اسی طرح بھارت کی سالانہ برآمدات کا حجم 820ارب ڈالر ہے اس لیے 129.4بلین ڈالر کی ترسیلات زر سے کوئی خاص فرق نہیں پڑتا مگر پاکستان کی برآمدات بمشکل 31بلین ڈالر ہیں اگر غیر ملکی ترسیلات زر بھی 34ارب ڈالر سے کم ہو جائیں تو ملکی معیشت کی سانسیں پھول سکتی ہیں اس لیے قائد انقلاب جیسے موقع پرست بلیک میل کرتے ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ایک طرف ملکی مصنوعات برآمد کرنے کی طرف توجہ دی جائے اور دوسری طرف ہنر مند پاکستانیوں کو بیرون ملک روزگار دلوایا جائے تاکہ سپہ سالار جس برین گین کی طرف اشارہ کررہے ہیں اس میں اضافہ ہو اور ماضی میں ایسا ہو چکا ہے۔ 2020ء میں پاکستان نے 2لاکھ 24ہزار 705افراد کو ملازمتوں کیلئے بیرون ملک بھجوا کر بھارت اور بنگلہ دیش سمیت دیگر ہمسایہ ممالک کو پیچھے چھوڑ دیا تھا۔

تازہ ترین