اس وقت خواب جیسے سفر کا احوال میرے قلم کی نوک سے گررہا ہے -یہ ’’خواب سفر ‘‘گزشتہ چار دن میرے پائوں میں چکر کی طرح رہا -میں اور شوکت چنگیزی ڈرامہ سریل بانوری کی ریکارڈنگ سے پہلے ریکی کیلئے نکلے تھے۔ہماری پہلی منزل چشمہ جھیل میں سندھی مچھیروں کی بستی تھی -تقریبا دس بارہ کلومیٹر لمبی چوڑی جھیل کے درمیان بنائی گئی ،یہ کچی بستی بچپن سے میرے دماغ میں چپکی ہوئی ہے۔یہ بستی پچاس پچپن سال پہلے بسائی گئی تھی ، کراچی سے مچھیرے یہاں بلا کر آباد کیے گئے اوراب تومیانوالی کی ثقافت اور سندھی مچھیروں کی ثقافت آپس میں مل جل کر ایک نئی ثقافت کو جنم دے چکی ہے۔
وہاں سے نکل کرقلعہ کافر کوٹ آ گئے ،وہاں مٹی کے ہر ٹکڑے میں ایک گمشدہ دنیا کی سرگوشیاں چھپی ہوئی تھیں ۔ہر طرف زندہ و جاوید خاموشی پھیلی ہوئی تھی ،یہ راجہ ٹل کا قلعہ ہے ،پنجابی زبان میں اب بھی ’ٹل کا روز‘ محاورے کےطور پر استعمال ہوتا ہے۔یہاں کچھ دیواریں اور بدھوں سٹوپاز ابھی موجود ہیں ۔۔وہاں سے ایک وسیع وعریض غارکی تلاش میں بلوٹ شریف گئے مگر وہ غار چھوٹا تھا ۔غاروں کی تلاش کاسفر جاری رہا۔ہم کالاباغ گئے ، رات وہیں دریائے سندھ کے کنارے ایک ریسٹ ہائوس میں بسر کی ۔دریائے سندھ اسی مقام پر پہاڑوں سے دھاڑتا چنگھاڑتا ہوا نکلتا ہے اور میانوالی کے میدانوں میں سکوت افزا تسلسل کے ساتھ بہنے لگتا ہے ۔یہیں سے دریا سفر کے قابل ہوتا ہے ۔ زمانہ قدیم میں کالاباغ کےپہاڑوں سے نکلنے والا نمک اسی دریا کے راستے سے دیبل پور کی بندرگاہ جاتا تھا ۔ دریا کا منظر شوکت چنگیزی کی روح کو شاداں و فرحاں کرتا ہوا دکھائی دیا ، مجھے یخ بستہ ہوا کے جھونکے اچھے لگے اورمیں نے ہوا کو دعا دی کہ ترا کبھی خاتمہ نہ ہو۔وہاں گرمیوں کے موسم میں تصور سے زیادہ ٹھنڈا پانی تھا۔ وہاں نیند کیا آئی صدیوں کی تھکن اتر گئی ۔
ہم غاروں کی تلاش میں پرانی ماڑی پہنچ گئے ، یہ وہ مقام ہے جس کے متعلق معروف مورخ ملک اسلم نے لکھا ہے کہ مہابھارت میں جوکوروں پانڈوؤں کی لڑائی کا ذکر ہے،وہ اسی مقام پر ہوئی تھی ۔وہاں میری جوانی تک توآثار قدیمہ موجود تھے اب بس نشانات ہی باقی رہ گئے ہیں ۔ہمیں وہاں ایک خاصاوسیع غار مل گیا ۔ اس میں گھر آباد کیا جا سکتا تھا ۔وہ ہم دونوں کو پسند آیامگرشوکت چنگیزی کا دل نہیں بھرا،وہاں سے اسلام آباد چلے گئے ،پتہ چلا تھا کہ شاہ اللہ دتہ میں بھی کچھ غار ہیں ،انہیں جا کردیکھا ، بے شک وہ بہت قدیم تھے مگر ان کا لینڈ اسکیپ ڈرامے سے مطابقت نہیں رکھتا تھا ۔رات بلوچستان ہائوس میں بسر کی ، المصطفی ویلفیئر ٹرسٹ کے دفتر میں یوکے سے اوورسیز پاکستانیز کنونشن کے سلسلے میں آئے دوستوں سے ملاقاتیں ہوئیں۔ ٹرسٹ کے چیئرمین عبدالرزاق ساجد ،معروف برطانوی صحافی طاہر چوہدری اور وجاہت علی خان سے گپ شپ ہوئی ۔کنونشن میں آرمی چیف جنرل عاصم منیر کا بلوچستان کے حوالے سے بیان خاصا حوصلہ افزا تھا۔بے شک ہم پاکستانی بلوچستان کے حوالے سے بہت پریشان ہیں ۔خاص طور پر میں تواس حوالے سے بہت زیادہ پریشان تھا کیونکہ میرے ہمسفر شوکت چنگیزی کا تعلق بھی بلوچستان کے ہزارہ قبیلے سے ہے ۔سو اس سفر میں مجھے دوسروں سے زیادہ بلوچستان کے حالات کی آگاہی حاصل ہوئی ۔
پی ٹی وی ہیڈ کوارٹر کا چکر لگایا ، جہاں پی ٹی وی کے ایم ڈی دانیال گیلانی سے ملاقات ہوئی ،جب سے وہ پی ٹی وی میں آئےہیں ، پی ٹی وی کے معاملات میں بہت زیادہ بہتری آئی ہے ۔ انہیں دیکھ کر مجھے ان کے والد سلیم گیلانی کا وہ دور یاد آیا جب وہ ریڈیو پاکستان کے ڈائریکٹر جنرل ہوا کرتے تھے ۔ وہ ایک نابغہ روزگار تھے۔مولانا ظفرعلی خاں کے اخبار’’زمیندار‘‘ سے بطوررپورٹر اپنی صحافتی زندگی کا آغاز کیا۔کچھ عرصہ وائس آف امریکہ سے بھی وابستہ رہے ۔ بڑے باکمال شاعر تھے ،انگریزی کے بے مثال نثر نگار بھی تھے ۔ریٹائرمنٹ کے بعد جب وہ سی ڈی اے آفیسر ہاسٹل میں رہا کرتے تھے تو میں ان کے ساتھ والے کمرے میں مقیم تھا ،ان دنوں تقریباً روزانہ ان سے گفتگو رہتی تھی ۔پی ٹی وی کے ڈائریکٹر پروگرام سیف الدین سے ملاقات ہوئی ۔وہاں فرخ افضل سے بھی پرانی یادیں تازہ کیں ۔کومل سلیم بھی ملیں ۔
اسلام آباد میں کئی خواب دیکھے اور پھر سفرکو آبادکرلیا ،کٹاس راج پہنچے،کٹاس راج یروشلم کے بعد دوسرا ایسا مقام ہے جسے تین مذاہب کے لوگ مقدس تصور کرتے ہیں ۔ہندو مت ، بدھ مت اور جین مت تینوں کے لئے یہ جگہ قابلِ احترام ہے ،سکھ بھی اس مقام کی عزت کرتے ہیں۔کٹاس راج تالاب کے ارد گرد بنا ہوا مندروں کا ایک کمپلیکس ہے ۔برطانوی انجینئر الیگزینڈر کننگھم کے اس مندروں کی بنیاد 66 قبل مسیح میں رکھی گئی تھی۔گرو نانک بھی کافی عرصہ یہاں رہے ۔ اسی سبب سکھ شہنشاہ رنجیت سنگھ یہاں باقاعدگی سے آتے تھے ۔ماضی قریب میں یہ مندر لوٹ لئے گئے تھے ۔پرویز مشرف کے دور میں حکومت پاکستان نے ان سات مندروں کی بحالی پر بھرپور توجہ دی ۔باقاعدہ ایک ٹیم ہندوستان ، سری لنکا اور نیپال بھیجی گئی جو کروڑوں روپے خرچ کر کے مندروں میں رکھنے کےلئے مورتیاں خرید کر لائی ۔کٹاس راج میں مجھے معروف ناول نگارنعمان فاروق یاد آئے ۔ وہ یہیں کے رہنے والے ہیں ۔انہوں نے اس تاریخی مقام کو اپنی ذات میں شامل کرکے ایک تخلیقی تجربہ بنالیا ہے ۔
آثار قدیمہ کی آنکھوں سے قدیم زمانوں کے خواب ابھر ابھر کر باہر آ رہے تھے ۔سفر کا ہرقدم نئی دنیا سے روشناس کرا رہا تھا ۔سفر اور خواب نے مل کر مجھے تخلیق کی طرف متوجہ کیا اور یہ تین شعر ہوئے ۔
ترے وصال سے بڑھ کر فساد کیا ہوگا
تباہ تُو نے کیا جس کو ، شاد کیا ہوگا
تو پوچھتی ہے کہ میں جائوں گاکہاں اور میں
یہ سوچتا ہوں ترا میرے بعد کیا ہوگا
بس اک نظر کے تعلق کی خیر ہو منصور
فقیر ملکہ ِعالم کو یاد کیا ہوگا
یعنی یہ بات سچ ہے کہ تخلیق کے ما خذسفر اور خواب ہی ہیں ۔