سپریم کورٹ آئینی بینچ میں سویلینز کے ملٹری ٹرائل کیس کی سماعت ہوئی۔
سماعت کے دوران جسٹس حسن اظہر رضوی نے سوال کیا کہ 9 مئی کو ملٹری تنصیبات پر حملے سیکیورٹی کی ناکامی تھے، کیا اس وقت ملٹری افسران کیخلاف کارروائی کی گئی؟ کیا 9 مئی پر کسی ادارے نے احتساب کیا؟
جس پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل عامر رحمان نے جواب دیا کہ اس سوال کا جواب تو اٹارنی جنرل ہی دیں گے، جسٹس حسن اظہر رضوی نے مزید سول کیا کہ 9 مئی کے کیسز میں پک اینڈ چوز کیسے کیا؟
وزارت دفاع کے وکیل خواجہ حارث نے جواب دیا کہ پک اینڈ چوز والی کوئی بات نہیں، جرم کو اس کی نوعیت کے مطابق اے ٹی سی کا ملٹری کورٹ بھیجا جاتا ہے۔
جسٹس مسرت ہلالی نے سوال کیا کہ کیا سویلینز اس کے زمرے میں آتے ہیں؟ قانون تو فورسز کے ممبر کو ڈسپلن میں رکھنے کیلئے ہے، ملٹری کا قانون آئین سے ٹکراتا ہے۔
خواجہ حارث نے کہا کہ کورٹ مارشل آئینی طور پر تسلیم شدہ ہے جو زمانہ امن میں بھی ہوتا ہے، جسٹس جمال مندوخیل نے کہا خواجہ صاحب ایسا نہ ہو کہ نمازیں بخشوانے آئیں اور روزے گلے پڑ جائیں۔
کیس کی مزید سماعت 28 اپریل تک ملتوی کردی گئی۔