• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اسحاق ڈار کو اعداد و شمار کا جادوگر کہا جاتا ہے۔ وہ اپنی جادوگری سے معیشت کو قابو میں رکھنے کا ہنر جانتے ہیں ۔ کچھ لوگ انہیں مصنوعی معاشی ترقی کا طعنہ دیتے ہیں توبعض لوگ غلط اعداد و شمار بتا کر عالمی اداروں کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کی پھبتی کستے ہیں۔لیکن حقیقت یہ ہے کہ انہوں نے ہمیشہ اپنی صلاحیتوں سے پاکستان کی معیشت کو بہت حد تک استحکام دینے کی کوشش کی ہے۔نواز شریف کے وزارت عظمی کے پہلے دور میں ایٹمی دھماکوں کے بعد جب پاکستان پر بدترین اقتصادی پابندیاں عائد کی گئیں تو اس وقت یہی اسحاق ڈار تھے جنہوں نے اپنی معاشی جادوگری کے ذریعے نہ صرف پاکستان کے خزانے کو سنبھالا دیا بلکہ عالمی پابندیوں کا بھی بہتر انداز میں مقابلہ کیا۔2013 سے 2018 تک کے درمیان وہ حکومت کے '' ڈارلنگ وزیر ''تھے، میاں نواز شریف کی قربت انہیں حاصل تھی۔ وہ معاشی جادوگری کے ساتھ ساتھ سیاسی جادوگری کے کمالات بھی دکھاتے رہے۔ ہر نوعیت کی سیاسی جماعت اور ہر طرح کے سیاستدان سے مکالمہ کرنے میں وہ اپنا ثانی نہیں رکھتے تھے۔شاید اس کی سب سے بڑی وجہ یہ تھی کہ انہیں اپنی جماعت کے قائد کا قرب حاصل تھا اور ان کے فیصلوں کو میاں نواز شریف کی بھرپور حمایت حاصل ہوتی تھی۔ پی ڈی ایم کے دور میں انہیں ایک مرتبہ پھر وزارت خزانہ کے منصب پر فائز کیا گیا تو ان کی کارکردگی کچھ متاثر کن نہ تھی۔ ڈالر بھی قابو میں نہ رہا۔ مہنگائی بھی آسمان کی بلندیوں کو چھوتی رہی۔ حقیقت یہ تھی کہ پی ڈی ایم کے دور میں اسحاق ڈار اپنی صلاحیتوں کا کھل کر اظہار نہ کر سکے۔ 2024 کے الیکشن کے بعد جب شہباز حکومت قائم ہوئی تو یہی توقع کی جا رہی تھی کہ انہیں ایک مرتبہ پھر وزارت خزانہ کا منصب ہی سونپا جائے گا۔لیکن ہوا یہ کہ، بیرون ملک سے ایک صاحب کو درآمد کیا گیا جنہیں سینیٹر بنوا کر پاکستان کی وزارت خزانہ پر بٹھا دیا گیا۔سابقہ تجربہ تو یہ کہتا ہے کہ بیرون ملک سے منگوائے ماہرین معاشیات کا ایک بریف کیس ہر وقت تیار رہتا ہے۔ادھر تبدیلی کی اندھی چلتی ہے ادھر ماہر معاشیات صاحب اپنا بریف کیس سنبھالتے ہیں اور اپنے وطن مالوف کو لوٹ جاتے ہیں۔ جناب محمد اورنگزیب کا زیادہ وقت اپنی ہی حکومت پر تنقید کرنے میں گزرتا ہے، کبھی ٹیکس ہدف میں ناکامی کا رونا روتے ہیں تو کبھی معاشی اصلاحات میں ناکامی کا ملبہ کسی اور پر ڈالتے نظر آتے ہیں۔اسحاق ڈار کو خزانہ سے بے دخل کر کے وزارت خارجہ میں ''دھکیل ''دیا گیا۔ یہ ایسی وزارت ہے جس پر فضل قادر،ذوالفقار علی بھٹو اور صاحبزادہ یعقوب علی خان جیسے لوگ جن کی عالمی طور پر ایک شناخت تھی ، متمکن رہے،اس وزارت میں ''نو وارد ''اسحاق ڈار کی کارکردگی پر سب کی نگاہیں تھیں۔وزارت خارجہ کانٹوں کی سیج ہے۔جہاں خارجی امور کے ساتھ ساتھ ''داخلی''امور کو بھی درست رکھنا پڑتا ہے۔بلاول بھٹو اور اسحاق ڈار کی کارکردگی کا موازنہ کیا جائے تو بلا شبہ بلاول کے کریڈٹ میں بیرونی دوروں کی تو بہتات ہے لیکن پاکستان کے لیے ان دوروں کے ثمرات دیکھنے کو نہیں مل سکے،اس کے مقابلے میں جناب اسحاق ڈار کی کارکردگی غیر معمولی رہی ہے۔ایک ایسی حکومت کہ جس پر فارم 47 کا دھبہ ہے، ارد گرد کے خارجی حالات اس کے موافق نہیں، ایسے ماحول میں جناب اسحاق ڈار کی کارکردگی بلاشبہ قابل تحسین ہے۔ہمیں یہ حقیقت نہیں بھولنی چاہیے کہ آج کے دور میں معاشی طور پر مضبوط ملک کی ہی دفاعی اور خارجی طور پر اہمیت ہوتی ہے۔ معیشت اور دفاع میں اگر توازن ہو تو پھر ہی دنیا میں آپ کا نام احترام سے لیا جاتا ہے اور آپ کی خارجہ پالیسی کی اہمیت تسلیم کی جاتی ہے۔جناب اسحاق ڈار معاشی نزاکتوں سے بھی واقف ہیں اور وزارت خارجہ میں بھی انہوں نے اپنی جگہ بنا لی ہے۔ ماضی کے بعض وزرائے خارجہ کے برعکس وہ جب بھی بات کرتے ہیں تو مجموعی طور پر ملکی حالات کی بات کرتے ہیں۔وہ ملک میں امن و امان کی بات کرتے ہیں،وہ معاشی اشاریوں کے حوالے سے بھی عالمی دارالحکومتوں میں پاکستان کا مقدمہ پیش کرتے ہیں، وہ انسانی حقوق کے حوالے سے بھی بات کرنے کا ہنر جانتے ہیں، افغان مہاجرین کے حوالے سے بھی بڑی مضبوطی سے اپنا مقدمہ عالمی فورمز پر پیش کیا ہے۔انہوں نے معاشی مسائل کو سمجھتے ہوئے ہمسایہ ممالک کے ساتھ معاشی سفارت کاری کی داغ بیل ڈالی ہے، وہ وزارت خارجہ کی بنیادی پالیسی میں کوئی بڑی تبدیلی تو نہیں لا سکے اور نہ ہی وہ لا سکتے ہیں لیکن انہوں نے خارجہ پالیسی کو معاشی نقطہ نظر سے ضرور دیکھا ہے وہ دنیا میں پاکستان کو معاشی مارکیٹ کے طور پر متعارف کروانے میں کسی حد تک کامیاب رہے ہیں۔ تین بار ملک کے وزیر خزانہ رہنے والے اسحاق ڈار،بین الاقوامی فورمز اور عالمی مالیاتی اداروں میں پاکستان کی نمائندگی کر رہے ہیں۔ معیشت اور معاشی تعلقات یقینی طور پر خارجہ پالیسی کا ایک اہم جز ہوتے ہیں کیونکہ بین الاقوامی روابط میں وزارت خزانہ کو بھی وزارت خارجہ کی ضرورت پیش آتی ہے،اسحاق ڈار جادو گری سے اپنے ساتھ ساتھ وزارت خزانہ کو بھی لے کر چل رہے ہیں۔پاکستان کی معاشی خواہشات پورا کرنے کے لیے علاقائی استحکام پر بھی توجہ دے رہے ہیں، افغانستان اور انڈیا کے ساتھ اپنے تعلقات کو ایک نئے زاویے سے دیکھنے کی کوشش کر رہے ہیں۔انکا حالیہ دورہ افغانستان اور متوقع دورہ بنگلہ دیش انکی سفارتی سرگرمیوں کا عکاس ہے انہوں نے پاکستان کی سفارتی تنہائی کا تاثر ختم کیا ہے۔اگر اسحاق ڈار کو جادو گری کا پورا موقع مل گیا تو عالمی منظر نامے پر پاکستان کا مثبت چہرہ ضرور نمایاں ہوگا۔

تازہ ترین