ڈاکٹر نعمان نعیم
دھوکا دہی سے بچنے کے طریقے… !
اپنے دل میں اللہ کا خوف رکھیں اور ہر معاملے میں سچائی کا راستہ اختیار کریں۔ دھوکا دہی کے مختلف طریقوں اور علامات کے بارے میں آگاہی حاصل کریں، تاکہ آپ خود کو محفوظ رکھ سکیں۔ اگر آپ کو شک ہو کہ آپ کے ساتھ فراڈ ہو رہا ہے تو فوری طور پر متعلقہ اداروں سے مدد لیں۔ اپنے دوستوں اور عزیزوں کے ساتھ مالی معاملات میں واضح گفتگو کریں اور کسی بھی غیر معمولی صورت حال کی نشاندہی کریں۔
قرآن میں اللہ تعالیٰ نے دھوکا دہی کے بارے میں سختی سے منع کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: اور ایک دوسرے کے مال آپس میں غلط طریقے سے مت کھاؤ۔ سورۃ البقرہ، آیت 188)نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: جو شخص لوگوں کو دھوکا دے، وہ ہم میں سے نہیں۔(سنن ابی داؤد)
کسی پر ناحق ظلم کرنا … !
کسی پر ناحق ظلم کرنا ایک بڑی اخلاقی برائی ہے، جو اسلامی تعلیمات کی روشنی میں سختی سے ممنوع ہے۔ یہ عمل نہ صرف فرد کے لیے نقصان دہ ہے بلکہ پورے معاشرتی نظام میں بے چینی اور فساد کا سبب بنتا ہے۔ ظلم کا مطلب ہے کسی کو بلا وجہ، بلا جواز یا غلط انداز میں نقصان پہنچانا، چاہے وہ جسمانی، ذہنی، یا مالی کسی بھی صورت میں ہو۔
یہ عمل اس وقت وقوع پذیر ہوتا ہے جب ایک فرد یا گروہ دوسروں کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی کرتا ہے۔ ناحق ظلم کرنا ایک سنگین جرم ہے جو اسلامی تعلیمات کے قطعی منافی ہے۔ مسلمانوں کو ہمیشہ انصاف، رحم، اور محبت کا راستہ اختیار کرنا چاہیے، تاکہ وہ اللہ کی رضا حاصل کر سکیں اور معاشرے کی بہتری کے لیے کام کر سکیں۔
انسانیت کے اصولوں کے تحت ہر ایک کو عزت اور حقوق ملنے چاہئیں، چاہے وہ کسی بھی مذہب، نسل یا فرقے سے تعلق رکھتا ہو۔ بعض افراد یا ادارے اپنے اختیارات کا ناجائز فائدہ اٹھاتے ہوئے کمزوروں اور ماتحتوں پر ظلم کرتے ہیں۔ بعض اوقات لوگوں کی باہمی دشمنی یا حسد کی وجہ سے وہ دوسروں پر ظلم کرتے ہیں۔ معاشرتی، خاندانی، برادری ازم یا ثقافتی دباؤ بھی بعض اوقات افراد کو ناحق ظلم کرنے پر مجبور کرتا ہے۔
بعض اوقات زیادتی کرنے والا شخص بااثر اور طاقت ور ہوتا ہے، اس لیے اُس کا تو کچھ بگاڑ نہیں سکتے، سو اپنے دل کو مطمئن کرنے اور جھوٹی تسلی دینے کے لیے کسی مظلوم کے ساتھ ظلم وزیادتی سے پیش آتے ہیں، یوں وقتی طور پر اپنے غصے کو ٹھنڈا کرتے ہیں، لیکن یہ نہیں سوچتےکہ جس قادر وقہا ر ذات کا غصہ مول لے رہے ہیں اُس نے پکڑا تو کوئی نہ چھُڑا سکے گا۔
ناحق ظلم کے نقصانات… !
ناحق ظلم سے معاشرتی تفرقہ پیدا ہوتا ہے، جس کی وجہ سے امن و امان متاثر ہوتا ہے۔ مظلوم افراد کی جسمانی اور ذہنی صحت متاثر ہوتی ہے، جس کی وجہ سے معاشرے میں بے چینی اور بے سکونی بڑھتی ہے۔ گھر اجڑ جاتے ہیں۔بچوں کی تربیت اور نشوونما متاثر ہوتی ہے۔ خواب بکھر جاتے ہیں۔ بچوں سے اُن کا پچپن، جو ان عورتوں سے اُن کا سہاگ چھن جاتا ہے۔ غرضیکہ مظلوم کا سارا نظام ہی اتھل پتھل ہوجاتا ہے اور وہ جیتے جی مرجاتا ہے۔
وہ چیخنا چاہتا ہے مگر چیخ نہیں سکتا، دُہائی دینا چاہتا ہے، مگر اُسے منہ بند کرنے پر مجبور کیا جاتا ہے۔ وہ عدالتوں کا دروازہ بھی نہیں کھٹکھٹا سکتا، کیونکہ اُس سے تمام مالی وسائل چھینے جاچُکے ہوتے ہیں۔
ناحق ظلم سے بچنے کے طریقے… !
ہر عمل میں اللہ کا خوف دل میں رکھیں اور ناحق ظلم سے بچنے کی کوشش کریں۔ انصاف کے اصولوں کے تحت زندگی گزاریں اور دوسروں کے حقوق کا خیال رکھیں۔ ظلم کی صورتوں اور اس کے اثرات کے بارے میں آگاہی حاصل کریں، تاکہ آپ خود کو اور دوسروں کو محفوظ رکھ سکیں۔
اللہ تعالیٰ کے نزدیک ظلم ایک بڑا گناہ ہے، اور ظالم کو عذاب کی وعید سنائی گئی ہے۔ قرآن میں فرمایا گیا ہے: اور ظلم کرنے والوں کا کوئی دوست اور ساتھی نہیں۔ (سورۃ الغافر،آیت: 31) ایک اور مقام پر ارشاد ہے: بے شک اللہ ظالموں کو ہدایت نہیں دیتا۔ (سورۃالبقرہ،آیت: 254) نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: تم میں سے کوئی بھی شخص جب کسی پر ظلم کرے تو اس کا جواب دینے کا وقت آتا ہے۔ (صحیح بخاری)
یہ حدیث دراصل اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ ظلم کرنے والے کا قیامت کے دن سخت حساب کتاب ہوگا۔ ہر انسان کو اپنے اعمال کا جواب دینا ہوگا، خاص طور پر جب وہ دوسروں کے ساتھ ظلم کرتا ہے۔ یہ حدیث اس بات کی یاد دہانی بھی کراتی ہے کہ کسی پر ظلم کرنے والا یہ نہ سمجھے کہ اس کا ظلم چھپ جائے گا، بلکہ اللہ تعالیٰ کا انصاف یقینی ہے۔ اس حدیث میں یہ پیغام بھی ہے کہ جو لوگ دوسروں پر ظلم کرتے ہیں وہ اپنی اصلاح کریں اور دوسروں کے ساتھ حسن سلوک کریں۔
فساد پھیلانا… !
فساد پھیلانا ایک سنگین اخلاقی برائی ہے، جو معاشرتی امن اور ہم آہنگی کے لیے خطرہ بنتی ہے۔ اسلامی تعلیمات میں اس عمل کی سختی سے ممانعت کی گئی ہے۔ فساد کا مطلب ہے معاشرتی نظام میں بگاڑ، انارکی، اور بے چینی پیدا کرنا۔ یہ عمل مختلف صورتوں میں ہو سکتا ہے، جیسے جھگڑے، بدعنوانی، بے قاعدگیاں اور دیگر غیر قانونی سرگرمیاں۔
جب لوگوں کے درمیان وسائل کی تقسیم میں عدم توازن ہو تو لوگ فساد پھیلانے کی طرف مائل ہوتے ہیں۔ بعض اوقات افراد اپنے گروہ یا کمیونٹی کے دباؤ کی وجہ سے فساد پھیلانے کی کوشش کرتے ہیں۔ سیاست میں مفادات کی خاطر فساد پھیلانا ایک عام سی بات ہے۔
فساد کے نقصانات… !
فساد سے معاشرتی نظام متاثر ہوتا ہے، جس کی وجہ سے امن و امان کی صورت حال بگڑ جاتی ہے۔ قرآن اور سنت کی روشنی میں، فساد پھیلانا اللہ کے غضب کو دعوت دینا ہے۔ فساد کی وجہ سے لوگوں میں بے چینی، خوف، اور اضطراب بڑھتا ہے، جو ان کی ذہنی صحت پر منفی اثر ڈالتا ہے۔
فساد سے بچنے کے طریقے… !
افراد کو تعلیم دینا کہ فساد کے نقصانات کیا ہیں اور معاشرتی ہم آہنگی کو برقرار رکھنے کی کتنی ضرورت ہے۔ معاشرتی انصاف کی ضمانت دینا، تاکہ لوگوں میں عدم اطمینان پیدا نہ ہو۔ بچوں اور نوجوانوں کی اخلاقی تربیت کرنا، تاکہ وہ فساد کی حوصلہ شکنی کریں اور ایک مثبت معاشرتی رویہ اپنائیں۔ فساد کی قرآن وسنت میں سخت مذمت آئی ہے۔ چنانچہ ایک مقام پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا: اور زمین میں فساد مت پھیلاؤ بعد اس کے کہ اس کی اصلاح کی جا چکی ہو۔ (سورۃالأعراف،آیت: 56)
نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: اگر کسی شخص نے اپنے مسلمان بھائی کے خلاف (جھوٹ، غلط بیانی، دروغ گوئی پر مبنی بات کے لیے) زبان کھولی تو وہ فساد پھیلانے والا ہے۔ (صحیح مسلم)س حدیث میں یہ بات واضح کی گئی ہے کہ زبان کاغلط استعمال، خصوصاً جب یہ کسی مسلمان بھائی کے خلاف ہو، فساد کا باعث بن سکتی ہے۔ کسی کی عزت، حیثیت یا کردار پر بے بنیاد الزامات یا تنقید کرنا نہ صرف اس شخص کے لیے نقصان دہ ہے، بلکہ اس سے معاشرت میں بھی بے چینی اور اختلافات پیدا ہوتے ہیں۔
اسلامی تعلیمات کی روشنی میں، ہمیں ہمیشہ امن، محبت، اور بھائی چارے کو فروغ دینا چاہیے۔ معاشرتی ہم آہنگی کو برقرار رکھنے کے لیے ہر فرد کی ذمہ داری ہے کہ وہ فساد پھیلانے کی ہر کوشش کو روکنے کے لیے آگے آئے اور مثبت تبدیلی کے لیے کام کرے۔
بدگمانی… !
بدگمانی ایک اخلاقی برائی ہے جو انسان کے اندر شکوک و شبہات پیدا کرتی ہے اور اس کی معاشرتی اور روحانی زندگی کو متاثر کرتی ہے۔ بدگمانی کا مطلب ہے: بغیر کسی ٹھوس ثبوت یا دلیل کے کسی شخص، گروہ یا معاملے کے بارے میں منفی خیالات یا ناپسندیدہ تصورات رکھنا۔
یہ رویہ انسانی تعلقات میں دراڑ پیدا کرتا اور لوگوں کے درمیان عدم اعتماد کا باعث بنتا ہے۔ جب افراد میں ایک دوسرے کے ساتھ اعتماد کی کمی ہوتی ہے تو بدگمانی پیدا ہوتی ہے۔ ماضی کے تجربات، خاص طور پر منفی تجربات بدگمانی کو جنم دے سکتے ہیں۔ بعض اوقات صحیح معلومات کی عدم موجودگی کی وجہ سے بھی بدگمانی ہوتی ہے۔
بدگمانی کے نقصانات… !
بدگمانی کی وجہ سے رشتے متاثر ہوتے ہیں، جو کسی بھی معاشرتی نظام کے لیے نقصان دہ ہے۔ بدگمانی انسان کی روحانی حالت کو متاثر کرتی ہے۔ بدگمانی انسان کو ذہنی دباؤ اور اضطراب کا شکار کر سکتی ہے۔ بدگمانی ایک خطرناک رویہ ہے جو انسانی تعلقات میں عدم اعتماد پیدا کرتا ہے۔ اسلامی تعلیمات کی روشنی میں، ہمیں ایک دوسرے کے بارے میں حسن ظن رکھنا چاہیے اور بدگمانی کی حوصلہ شکنی کرنی چاہیے۔
معاشرتی ہم آہنگی کو برقرار رکھنے کے لیے یہ ضروری ہے کہ ہم ایک دوسرے کے بارے میں مثبت خیالات اپنائیں اور بدگمانی سے بچنے کی کوشش کریں۔ اسلامی تعلیمات کی روشنی میں، ہمیں غرور وتکبر سے بچنے کی کوشش کرنی چاہیے اور تواضع و نرمی کو اپنانا چاہیے۔ یہ رویے ہمیں ایک اچھا انسان اور بہتر معاشرہ بنانے میں مدد دیتے ہیں۔
بدگمانی سے بچنے کے طریقے… !
کسی بھی معاملے کی تحقیق کر کے حقائق تک پہنچنا چاہیے، تاکہ بدگمانی کے بجائے معلوماتی رائے بنائی جا سکے۔ عوام الناس اور نوجوانوں کی اخلاقی تربیت کرنا اور انہیں سمجھانا چاہیےکہ بدگمانی کیسی برائی ہے؟ رشتوں میں اعتماد قائم کرنا، جیسے کھل کر بات چیت کرنا اور ایک دوسرے کے ساتھ مثبت رویہ رکھنا بھی بدگمانی کی راہیں مسدود کر دیتا ہے۔ سنی سنائی بات کی متعلقہ شخص سے تحقیق کا انداز بھی بدگمانیاں پھیلنے اور پنپنے میں رُکاوٹ بنتا ہے۔
قرآن کریم میں اس گناہ کی سخت مذمت آئی ہے، ایک مقام پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا: اے ایمان والو! تم بہت سی بدگمانیوں سے بچو، کیونکہ بعض گمان گناہ ہیں۔ (سورۃالحجرات، آیت: 12)نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:جب تم ایک دوسرے کے ساتھ بات کرو تو بدگمانی سے بچو۔(صحیح مسلم) (… جاری ہے… )