ڈاکٹر نعمان نعیم
اخلاقی برائیوں سے مراد وہ اعمال اور رویے ہیں، جو معاشرے اور انسانیت کے معیار کے مطابق قابلِ مذمت سمجھے جاتے ہیں اور انسان کے کردار، سماجی تعلقات، اور روحانیت کو نقصان پہنچاتے ہیں۔ اخلاقی برائیوں کا تعلق ہمارے رویوں، عادات اور طرزِ عمل سے ہوتا ہے۔ اسلامی تعلیمات سے معلوم ہوتا ہے کہ اخلاقی برائیاں نہ صرف فرد کی ذاتی زندگی پر منفی اثر ڈالتی ہیں، بلکہ پورے معاشرے میں بے چینی اور بگاڑ کا سبب بنتی ہیں۔
قرآن و سنت میں ان سے بچنے کی سختی سے تاکید کی گئی ہے، کیونکہ یہ اعمال انسان کے ایمان کو کمزور کرتے ہیں اور اسے اللہ کے قرب سے دور کرتے ہیں۔ جھوٹ، غیبت، حسد، بدعنوانی، بغض،ب دخواہی، تکبروغرور، دوسروں کو حقیر سمجھنے جیسی اخلاقی برائیاں اسلامی تعلیمات میں سخت گناہ سمجھی جاتی ہیں اور ان سے بچنے کا حکم دیا گیا ہے۔ واضح رہے کہ اخلاقی برائیوں کی بنیاد تین اہم انسانی خواہشات یا قوتوں میں عدم اعتدال سے پیدا ہوتی ہے:
۱۔قوتِ غضبیہ(غصہ میں زیادتی): یہ انتقام، نفرت اور بدتمیزی جیسی برائیوں کا باعث بنتی ہے۔۲۔قوتِ شہوانیہ خواہشات میں زیادتی): یہ حسد، بدعنوانی، اور بے حیائی وغیرہ کو فروغ دیتی ہے۔۳۔قوتِ عقلیہ(عقل میں کمزوری یا بے راہ روی): یہ فریب، جھوٹ اور دھوکہ دہی جیسے اعمال کی طرف مائل کرتی ہے۔
اخلاقی برائیاں کسی بھی معاشرتی نظام کو کمزور کر سکتی ہیں، جس سے تعلقات، اعتماد، اور عدل و انصاف کی فضا متاثر ہوتی ہے۔ اس لیے ان برائیوں کا شعوری طور پر خاتمہ اور نیکیوں کی طرف رجوع اسلامی تعلیمات کی روشنی میں انتہائی ضروری ہے۔ تعلیمات نبویؐ اخلاقی برائیوں سے بچنے اور اعلیٰ اخلاقی اقدار اپنانے کادرس دیتی ہیں، جن کی پیروی سے ہم اپنی ذاتی اور اجتماعی زندگی کو بہتر بنا سکتے ہیں۔
اخلاقی برائیوں کی تعریف
روایتی طور پر اخلاقی برائیوں کی تعریف ایسے رویوں اور اعمال سے کی جاتی ہے، جو معاشرتی اقدار اور انسانیت کے عمومی اصولوں کے خلاف ہوں۔ ہر معاشرہ اپنے تجربات، اقدار اور کلچر کے مطابق اخلاقی برائیوں کی ایک فہرست مرتب کرتا ہے، جس میں عموماً جھوٹ، فریب، حسد، ظلم، خیانت اور بددیانتی وغیرہ جیسے اعمال شامل ہوتے ہیں۔
ان برائیوں کو سماجی یا اخلاقی اصولوں کی خلاف ورزی کے طور پر دیکھا جاتا ہے، کیونکہ یہ انسانی تعلقات کو نقصان پہنچاتی ہیں اور معاشرے میں بےچینی اور عدم اعتماد کا باعث بنتی ہیں۔
مذہبی طور پر اخلاقی برائیوں کی تعریف اُن اعمال کے طور پر کی جاتی ہے جو اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی تعلیمات اور ہدایات کے خلاف ہوتے ہیں، جو انسان کو اللہ سے دور کرتے ہیں، اس کے ایمان کو نقصان پہنچاتے ہیں اور آخرت میں خسارے کا سبب بنتے ہیں۔مذہبی نقطہ نظر سے، ان اخلاقی برائیوں سے بچنے کا حکم دیا گیا ہے، تاکہ انسان نہ صرف اللہ کے قریب ہو سکے، بلکہ ایک پاکیزہ معاشرے کی تشکیل میں بھی کردار ادا کر سکے۔
اخلاقی برائیاں اور اُن سے بچنے کے طریقے
جھوٹ:۔اسلامی تعلیمات کے مطابق، جھوٹ ایک بدترین برائی ہے، جس سے بچنا ہر مسلمان کا فرض ہے۔ جھوٹ سے بچنا اور سچائی کو اپنانا ایک بہترین اخلاقی اصول ہے جو فرد، خاندان اور معاشرتی امن و امان کو محفوظ رکھتا ہے۔ جھوٹ بولنا انسانی فطرت میں ایک کمزوری ہےاور مختلف عوامل انسان کو اس برائی کی طرف لے جاتے ہیں۔ اکثر لوگ سچ بولنے کے نتائج سے بچنے کے لیے جھوٹ کا سہارا لیتے ہیں، مثلاً سزا سے بچنے، ناکامی کو چھپانے یا شرمندگی سے بچنے کے لیے۔
کچھ لوگ ذاتی یا مالی فائدے کے لیے جھوٹ بولتے ہیں، جیسے کسی سے پیسے بٹورنے، کاروباری فائدہ حاصل کرنے یا کسی کی حمایت حاصل کرنے کے لیے۔جھوٹ بولنے کی عادت بھی ایک بڑی وجہ ہے، جب کوئی شخص عادتاً جھوٹ بولتا ہے، تو وہ اکثر چھوٹی باتوں میں بھی جھوٹ کا سہارا لیتا ہے۔
بعض اوقات لوگ اپنی عزت بڑھانے یا اپنی حیثیت بڑھا چڑھا کر پیش کرنے کے لیے جھوٹ بولتے ہیں۔ بعض اوقات لوگوں کوکسی کو دھوکا دینا یا اسے نقصان پہنچانا ہوتا ہےتو وہ جھوٹ کا سہارا لیتے ہیں۔ بعض لوگ اپنی کمزوریوں کو چھپانے کے لیے بھی جھوٹ بولتے ہیں، تاکہ دوسروں کے سامنے کمزور نہ نظر آئیں۔
جھوٹ کے نقصانات
جھوٹ انسان کے لیے اخلاقی اور روحانی نقصانات کے علاوہ معاشرتی اور سماجی اعتبار سے بھی نقصان دہ ہے۔ اسلامی تعلیمات میں جھوٹ کو گناہِ کبیرہ قرار دیا گیا ہے اور جھوٹے لوگوں کو اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی نظروں میں ناپسندیدہ قرار دیا گیا ہے۔ جھوٹ انسان کو اللہ سے دور کر دیتا ہے اور اس کی روحانی زندگی کو نقصان پہنچاتا ہے۔ قرآن میں جھوٹے لوگوں کے لیے سخت عذاب کی وعید آئی ہے۔ جھوٹ بولنے سے لوگوں کا اعتماد ختم ہو جاتا ہے اور ایک جھوٹا شخص دوسروں کے سامنے اپنی ساکھ کھو بیٹھتا ہے۔
جھوٹ لوگوں کے تعلقات میں دراڑ ڈال دیتا ہے۔ رشتے دار، دوست اور ساتھی جھوٹے شخص سے دُور ہو جاتے ہیں۔ جھوٹ بولنے والا شخص اکثر ذہنی دباؤ اور گناہ کے احساس میں مبتلا رہتا ہے، جس سے اس کی ذہنی صحت بھی متاثر ہوتی ہے۔ جھوٹ معاشرے میں بگاڑ پیدا کرتا ہے اور لوگ ایک دوسرے پر بھروسا کرنے میں ہچکچاتے ہیں، جس سے معاشرتی ترقی متاثر ہوتی ہے۔
حدیث میں آیا ہے کہ منافق کی علامتوں میں سےایک جھوٹ بولنا ہے، فرمانِ نبویﷺ ہے: منافق کی تین علامتیں ہیں: جب وہ بات کرتا ہے تو جھوٹ بولتا ہے، جب وعدہ کرتا ہے تو خلاف ورزی کرتا ہے، اور جب اسے امانت دی جاتی ہے تو خیانت کرتا ہے۔( صحیح بخاری، صحیح مسلم) منافقین کے لیے آخرت میں سخت عذاب کی وعید آئی ہے، قرآن میں فرمایا گیا: بے شک، منافقین دوزخ کے سب سے نچلے طبقے میں ہوں گے اور تم ان کے لئے کوئی مدد نہیں پاؤ گے۔ (سورۃ النساء، آیت 145)
جھوٹ سے بچنے کے طریقے
جھوٹ سے بچنے کے لیے اسلام نے کچھ خاص تعلیمات اور اصول دیے ہیں، جنہیں اپنانا انسان کو اس برائی سے دور رکھتا ہے: اپنے دل میں اللہ کا خوف پیدا کرنا کہ اللہ ہر بات کو جانتا ہے اور کسی بھی جھوٹ کو اللہ کے سامنے چھپانا ناممکن ہے۔ جب دل میں اللہ کا خوف ہوگا تو جھوٹ بولنے کی عادت بھی چھوٹ جائے گی۔ جب ایمان مضبوط ہوتا ہے تو انسان جھوٹ سے دور رہتا ہے۔ ایمان کو مضبوط بنانے کے لیے نماز، تلاوتِ قرآن، اور دعا کا اہتمام کرناچاہیے۔
ہر وقت اس بات کا استحضار رکھے کہ اسلام میں صدق (سچائی) کی بڑی فضیلت ہے۔ سچ بولنے والے کو اللہ کے ہاں بلند مقام ملتا ہے اور اس کا آخرت میں اجر و ثواب رکھا گیا ہے، اسی طرح جھوٹ کے برے نتائج یعنی آخرت میں عذاب اور دنیا میں لوگوں کی نظروں میں گرنا، یہ چیزیں مستحضر رہیں تو انسان کو جھوٹ سے روک سکتی ہیں۔
جھوٹ سے بچنے کے لیے اس ماحول میں رہنا بھی ضروری ہے جو سچائی کی حوصلہ افزائی کرے، لہٰذاجھوٹ بولنے والے لوگوں سے دوری اختیار کریں اور سچ بولنے والے لوگوں سے دوستی کریں۔ ہر رات اپنا احتساب کریں کہ کہاں غلطیاں ہوئیں اور ان پر استغفار کریں۔ یہ عادت انسان کو جھوٹ سے بچنے میں مدد دے سکتی ہے۔ اللہ سے جھوٹ سے بچنے کی دعا مانگنا اور گناہ ہونے کی صورت میں استغفار کرنا بھی بہت ضروری ہے۔
جھوٹی شہادت دینا
جھوٹی شہادت دینا ایک سنگین اخلاقی برائی ہے، جو اسلامی تعلیمات کے مطابق سختی سے منع ہے۔ جھوٹی شہادت کا مطلب ہے کسی معاملے میں حقیقت کے برخلاف گواہی دینا یا کسی واقعے کے بارے میں جھوٹی معلومات فراہم کرنا۔ یہ عمل نہ صرف اخلاقی اعتبار سے غلط ہے بلکہ اس کے قانونی اور معاشرتی نتائج بھی سنگین ہو سکتے ہیں۔
اس کی متعدد وجوہات ہوتی ہیں: بعض اوقات لوگ ذاتی فائدے، جیسے مالی یا معاشرتی فوائد کے لیے جھوٹی گواہی دیتے ہیں۔ کسی شخص سے بدلہ لینے کی نیت سے بھی لوگ جھوٹی شہادت دینے کا انتخاب کر سکتے ہیں۔ بعض اوقات افراد اپنے گروہ یا جماعت کے دباؤ میں آ کر جھوٹی شہادت دیتے ہیں۔
جھوٹی شہادت کے نقصانات
جھوٹی گواہی سے معاشرت میں عدم اعتماد پیدا ہوتا ہے، جس کے نتیجے میں لوگوں کے درمیان تعلقات خراب ہوتے ہیں۔ جب جھوٹی شہادت دی جاتی ہے تو صحیح انصاف حاصل کرنا مشکل ہو جاتا ہے، جس کی وجہ سے مظلوم کو انصاف نہیں ملتا۔ جھوٹی گواہی دینا انسان کی روحانی حالت کو متاثر کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے نزدیک یہ ایک بہت بڑا گناہ ہے، اور اس کا عذاب بھی شدید ہو سکتا ہے۔
جھوٹی شہادت سے بچنے کے طریقے
اپنے دل میں اللہ کا خوف رکھیں اور ہمیشہ سچائی کا ساتھ دیں۔ لوگوں کو سچ بولنے اور سچ کی اہمیت کو سمجھائیں، تاکہ جھوٹ کا کلچر کم ہو سکے۔عدل و انصاف کے اصولوں کو سمجھیں اور ان کی پیروی کریں۔ جب بھی گواہی دینا ہو تو ہمیشہ حقیقت کو بیان کریں۔
اگر کسی نے کبھی جھوٹی شہادت دی ہے تو اسے توبہ کرنی چاہیے اور اللہ سے معافی مانگنی چاہیے۔ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے جھوٹی شہادت دینے کی سختی سے مذمت کی ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: اور جھوٹی گواہی مت دو۔ (سورۃ البقرہ، آیت: 283)نبی اکرم ﷺ نے بھی اس بارے میں واضح طور پر فرمایا:جھوٹی گواہی دینا بڑا گناہ ہے۔ صحیح مسلم)
دھوکا دہی
دھوکا دہی بہ الفاظ دیگر فراڈ کرنا ایک سنگین اخلاقی برائی ہے، جو نہ صرف اسلامی تعلیمات کے خلاف ہے بلکہ معاشرتی نظام کو بھی نقصان پہنچاتی ہے۔فراڈ کا مطلب ہے: دھوکا دینا یا فریب کے ذریعے کسی سے مالی یا غیر مالی فوائد حاصل کرنا۔ یہ ایک غیر اخلاقی عمل ہے جس میں ایک شخص یا جماعت دوسرے کی بے خبری یا اعتماد کا فائدہ اٹھاتی ہے۔
اکثر لوگ زیادہ پیسہ کمانے کی لالچ میں آ کر فراڈ کا راستہ اختیار کرتے ہیں۔بعض اوقات افراد اپنے دوستوں یا معاشرتی حلقے کی طرف سے دباؤ محسوس کرتے ہیں کہ وہ بھی فراڈ میں شامل ہوں۔
بعض افراد کسی کی ناکامی یا کمزوری سے فائدہ اٹھا کر فراڈ کرتے ہیں۔ دھوکا دہی اور فراڈ کے نتیجے میں افراد یا ادارے مالی نقصان اٹھاتے ہیں، جس سے ان کی معیشت متاثر ہوتی ہے۔ فراڈ کی وجہ سے لوگوں کے درمیان عدم اعتماد بڑھتا ہے، جس کی وجہ سے معاشرے میں بے چینی اور بے یقینی پیدا ہوتی ہے۔اللہ کے نزدیک یہ ایک بڑا گناہ ہے، اور فراڈ کرنے والوں کے لیے عذاب کی وعیدآئی ہے۔ ( … جاری ہے … )