آپ کے مسائل اور اُن کا حل
سوال: اگر کسی بیٹے نے 12 سال قبل اپنی والدہ کے تقریباً 15 سے 16 تولہ سونے کو چوری کر کے فروخت کر دیا ہو، تو اب واپس کرنے کی صورت میں کس قیمت کا اعتبار ہوگا؟ چوری کے وقت کی یا موجودہ وقت کی؟ کیا والدہ ان سالوں میں اس سونے سے حاصل شدہ نفع کا بھی مطالبہ کرسکتی ہیں؟ اور اگر بیٹا سونا واپس کرنے سے انکار کرے تو شریعت کا اس بارے میں کیا حکم ہے؟
جواب: بیٹے پر لا زم ہے کہ جس قدر سونا چوری کیا تھا، اتنی ہی مقدار سونا والدہ کو واپس کرے۔ قیمت ادا کرنی ہو تو آج کل مارکیٹ میں جتنی بنتی ہو، وہ والدہ کو دے دے۔ اگر بیٹے نے اس چوری شدہ سونے سے اس عرصے میں نفع کمایا ہو تو یہ نفع یا تو والدہ کو ادا کردے یا صدقہ کر دے اگر وہ سونا یا اس کی رقم والدہ کو واپس کر دے گا تو اس کے بعد اس سے حاصل شدہ نفع استعمال کرنے کی گنجائش ہوگی۔
واضح رہے کہ چوری کرنا، ناحق کسی کا مال کھانا، ناجائز اور حرام ہے۔لہٰذا بیٹے پر لازم ہے کہ جلدازجلد والدہ کو سونا لوٹا دے اور اپنی اس حرکت پر توبہ اور استغفار کرے۔ اگر وہ لوٹانے سے انکار کردے تو والدہ عدالت سے رجوع کر کے اپنا حق وصول کر سکتی ہے۔
حدیث پاک میں ہے: ”حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آپ ﷺ نے صحابہؓ سے پوچھا کہ تم مفلس کس کو سمجھتے ہو؟ صحابہ رضوان اللہ علیہم نے عرض کیا کہ مفلس وہ ہے جس کے پاس درہم اور دینار نہ ہوں، اور مال واسباب نہ ہوں، تو آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: مفلس وہ ہے جو قیامت کے دن آئے اور اس نے نمازیں بھی پڑھی ہوں، اور روزے بھی رکھے ہوں، اور زکوٰۃ بھی دیتا رہا ہو، مگر اس کے ساتھ اس نے کسی کو گالی دی تھی، کسی پر تہمت لگائی تھی، کسی کا ناحق مال کھایا تھا، ناحق خون بہایا تھا، کسی کو مارا تھا، اب قیامت میں ایک اس کی یہ نیکی لے گیا اور دوسرا دوسری نیکی لے گیا، یہاں تک کہ اس کی نیکیاں ختم ہوگئیں، لیکن پھر بھی حق دار بچ گئے ، تو پھر باقی حق داروں کے گناہ اس پر لاد دیے جائیں گے، یہاں تک کہ وہ گناہوں میں ڈوب کر جہنم میں پھینک دیا جائے گا، یہ ہے حقیقی مفلس۔“
(صحيح مسلم، کتاب البرو الصلۃ و الآداب ،باب تحريم الظلم، ج: 8، ص: 18،رقم الحديث: 2581، ط: دار الطباعۃ العامرۃ -بدائع الصنائع فی ترتيب الشرائع ج:7،ص:148 ط :دار الکتب العلميۃ - مرقاۃ المفاتیح، کتاب البیوع باب الغصب و العاریۃ ج: 5، ص: 1974، ط : دار الفکر بیروت - فتاوی ٰ ہندیہ، کتاب الغصب، الباب الثامن فی تملک الغاصب والانتفاع بہ، ج:5، ص:141، ط:مکتبہ رشيديہ- بذل المجہود، کتاب الطہارۃ، باب فرض الوضوء، ج:1، ص:359، ط : مرکز الشیخ أبي الحسن الندوي للبحوث و الدراسات الاسلامیۃ الھند)