• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

(گزشتہ سے پیوستہ)

گفتگو کا سلسلہ دراز ہوا تو اعجاز حسین بٹالوی نے گفتگوکا رخ ایک ایسے موضوع کی طرف موڑ دیا جس پر گفتگو کی واقعی ضرورت تھی۔ انہوں نے عصمت چغتائی صاحبہ سے کہا ’’محترمہ !میں ایک بات بڑے احترم سے کہنا چاہتا ہوں !‘‘وہ متوجہ ہوئیں اور بولیں ’’کہو‘‘ اعجاز حسین بٹالوی نے کہا ہمیں بھارت میں بسنے والے اپنے ادیب بھائیوں سے گلہ ہے کہ وہ پاکستان کے بارے میں ابھی تک 1947ء کی رومانسٹرم کا شکار ہیں جبکہ ان کی یہ سوچ اس وقت بھی ریالیٹی نہیں تھی، عصمت چغتائی نے پوچھا ’’کیا مطلب؟‘‘ اعجاز بٹالوی نے جواب دیا جب وہ قیام پاکستان کا ذکر کرتے ہیں تو بھارت اور پاکستان کے درمیان کھینچی ’’لکیر‘‘ کو بہت جذباتی رنگ دینے کی کوشش کرتے ہیںچنانچہ کچھ عرصہ پیشتر ایک ادیبہ بھارت سے تشریف لائیں تو انہوں نے اس موضوع پر علی سردار جعفری کی ایک نظم پاکستانی دوستوں کو سنائی ان کا خیال تھا کہ یہ نظم سن کر یہاں رو رو کر لوگوں کی آنکھیں سوج جائیں گی مگر اس کا یہاں الٹا اثر ہوا ،آپ براہ کرم انہیں ہماری طرف سےیہ بتائیے کہ محبت اور اخوت کی باتیں اس وقت خیر سگالی کے جذبات پیدا کرتی ہیں جب دوسرے کا وجود دل سے تسلیم کر لیا جائے، اس پر عصمت چغتائی کے چہرے پر قدرے ردعمل ظاہر ہوا اور پھر انہوں نے کہا میں پاکستان کے وجود کو دل سے تسلیم کرتی ہوں میرا موقف تو صرف یہ ہے کہ اس لکیر کو خون کی لکیر کی بجائے صندل کی لکیر بنایا جائے ۔پیشتر اس کے کہ اعجاز بٹالوی اس کے جواب میں لب کھولتے عصمت چغتائی کی پاکستانی عزیزہ نے اس گفتگو پر ناراضی کا اظہار کیا اور کہا کہ ایسی گفتگو نہ کیجئے جو میرے اور ان کے ملاپ میں کسی قسم کی رکاوٹ کا باعث بنے وہ پہلے ہی تیس سال بعد ملنے آئی ہیں اس پر تمام ادیبوں نے انہیں سمجھایا کہ بی بی یہ سیاسی گفتگو نہیں ہے دونوں طرف بسنے والوں کا مفاد اس میں ہے کہ وہ سوجھ بوجھ سے کام لیں اور پاکستانی ادیب کی حیثیت سے یہ مجھ پر فرض عائد ہوتا ہے کہ اپنے اور اپنی قوم کے جذبات سے بھارت میں بسنے والے اپنے ادیب بھائیوں کو آگاہ کروں مگر وہ بہت ڈری ہوئی لگتی تھیں سو انہوں نے یہ گفتگو آگے نہ بڑھنے دی !۔

اور آج کچھ یادیں عبدالعزیز خالد کے حوالے سے خالد صاحب کسی زمانے میں ’’ٹاک آف دی ٹائون‘‘ شاعر تھے اور ان کی اردو میں عربی کی آمیزش بہت زیادہ تھی اور یوں تحسین فراقی کے محبوب شاعر تھے خالد صاحب انکم ٹیکس کمشنر تھے اور یوں ہر پبلشر ان کے شعری مجموعے بہت خوشی سے شائع کرتا تھا کہ ان کا نکاس کوئی مشکل کام نہیں تھا ایک دفعہ کراچی میں ان کے ایک شعری مجموعے کی تقریب رونمائی تھی اور وہاں ان کی کتابوں کا اسٹال بھی لگا ہوا تھا تقریب کے اختتام پر کتابوں کی سیل شروع ہوئی دروغ برگردن راوی کراچی کے میمن ان کتابوں کی خریداری اس طرح کرتے تھے پچاس ‘‘دانے‘‘ باندھ دو ستر دانے باندھ دو غیرہ اور پھر ایک کتاب پر خالد صاحب سے آٹو گراف بھی لیتے اور یوں ’’منہ دکھائی ‘‘ کی رسم بھی ادا ہو جاتی۔ ایک دلچسپ واقعہ اس سے ہٹ کر بھی ہے ایک دفعہ رمضان کے دنوں میں انہوں نے اسلم کمال کو فون کیا اور کہا ’’آپ آج افطار میرے ساتھ کریں ‘‘ سو اسلم کمال شام کو ان کے گھر پہنچ گئے افطاری کا وقت آیا تو ملازم دو گلاس روح افزا کے اور دو کھجوریں ایک ٹرے میں لایا دونوں نے روزہ افطار کیا اس کے بعد نماز پڑھی اور پھر گپ شپ میں مشغول ہو گئے اسلم کمال (مرحوم) نے مجھے بتایا کہ وہ مسلسل کھانے کا انتظار کرتا رہا اور جب اس انتظار میں ایک گھنٹے سے زیادہ گزر گیا اور کھانا نہ آیا تو اس نے خالد صاحب سے جانے کی اجازت مانگی جو انہوں نے بخوشی عنایت فرمادی ۔اسلم کمال مجھے یہ ’’دردناک‘‘ واقعہ سناتے ہوئے ’’آبدیدہ‘‘ ہونے کے قریب تھا کہ میں نے اسے کہا سارے واقعہ میں خالد صاحب کا کیا قصور ہے انہوں نے تو تمہیں افظار کا کہا تھا وہ ایک کھجور اور ایک شربت سے انہوں نےکرا دیا کھانے کی تو بات ہی نہیں ہوئی تھی ۔

ایک دن ضمیر صاحب عبدالعزیز خالد کے مہمان ہوئے اور وہاں کچھ لکھنے کیلئے انہوں نے خالد صاحب سے ان کا قلم مستعار لیا مگر تین چار دفعہ کوشش کے باوجود یہ قلم ان سے نہ چل سکا اس پر انہوں نے خالد صاحب کو قلم واپس کرتے ہوئے کہا ’’یہ آپ رکھ لیجئے اسے غالباً آسان اردو لکھنے کی پریکٹس نہیں ہے‘‘ اب کچھ یادیں ضمیر صاحب کے رمضان کے مہینے میں، ضمیر صاحب اپنے گھر میں اپنی مصنوعی بتیسی اتارے اپنے ایک مہمان سے بات چیت کر رہےتھے جس کے نتیجے میں گفتگو کم اور وینٹی لیشن زیادہ ہو رہی تھی اس پر مہمان نے عرض کی کہ جناب !آپ نے یہ بتیسی اتاری کیوں ہوئی ہے جس پر ضمیر صاحب نے کہا ’’چونکہ رمضان کے مہینے میں کھانے پینے کی تو کوئی گنجائش نہیں ہے اس لئے خواہ مخواہ منہ میں بتیسی رکھنے کا کوئی فائدہ نہیں میری مانیں تو آپ بھی بتیسی اتارلیں ۔متحدہ عرب امارات کے مشاعروں میں ضمیر صاحب اور میں اکٹھےتھے دبئی سے العین جاتے ہوئے قریباً سو میل کے لق ودوق صحرا سے گزرتے ہوئے ضمیر صاحب کی باغ وبہار شخصیت کے کئی پہلو سامنے آئے ان چٹیل میدانوں پر ایک نظر ڈالتے ہوئے جہاں نہ کوئی بندہ اور نہ کوئی بندے کی ذات تھی ضمیر صاحب نے مجھے مخاطب کیا اور کہا ’’میں تاریخ کی کتابوں میں پڑھا کرتا تھا کہ فلاں فاتح نے دنوں میں سینکڑوں میل کا علاقہ فتح کر لیا مجھے اس بات پر یقین نہیں آتا تھا مگر آج یہ علاقہ دیکھ کر یقین آ گیا ہے کہ وہ واقعی دنوں میں سینکڑوں میل کے علاقے فتح کر لیتے ہوں گے‘‘ عمان کے ایک مشاعرے میں میں ضمیر صاحب کے ہمراہ تھا انہوں نے عمان کے حوالے سے ایک کمال کا شعر کہا جو میں آپ کو سنائے بغیر نہیں رہوں گا

اک طرف پہاڑی ہے ایک طرف سمندر ہے

اس کے بعد جو کچھ ہے بس اسی کے اندر ہے

تازہ ترین