مولانا محمد راشد شفیع
اسلام ایک ایسا مکمل ضابطۂ حیات ہے جو انسانی زندگی کے ہر پہلو کی راہنمائی کرتا ہے۔ عبادات کے ساتھ ساتھ اسلام نے اخلاقیات، معاشرت، اور حقوق العباد کو بھی بنیادی اہمیت دی ہے۔ انہی معاشرتی حقوق میں سے ایک اہم ’’پڑوسی کا حق‘‘ ہے۔ قرآن کریم اور احادیثِ مبارکہ میں اس رشتے کو نہایت قدر و منزلت حاصل ہے۔
پڑوسی وہ ہوتا ہے جو ہمارے قریب رہتا ہے، ہماری زندگی کے نشیب و فراز، دکھ سکھ اور حالات کا براہِ راست مشاہدہ کرتا ہے۔ اس لیے اسلام نے اس تعلق کو محض رہائش کی بنیاد پر محدود نہیں رکھا، بلکہ اسے محبت، خیرخواہی، اور ایثارو ہم دردی کا نمونہ بنایا ہے۔نبی کریمﷺ کی تعلیمات سے معلوم ہوتا ہے کہ ایک مسلمان کا ایمان مکمل ہی نہیں ہوتا، جب تک وہ اپنے پڑوسی کو تکلیف سے محفوظ نہ رکھے۔
قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے صراحت سے فرمایا:’’وَالْجَارِ ذِي الْقُرْبَىٰ وَالْجَارِ الْجُنُبِ‘‘ (سورۃ النساء: 36)یعنی قریبی پڑوسی ہو یا اجنبی، دونوں کے ساتھ حسنِ سلوک کا حکم دیا گیا ہے۔ احادیثِ مبارکہ میں ایسے ایمان کا انکار کیا گیا ہے جس کا حامل شخص خود تو پیٹ بھر کر کھائے، مگر اس کا پڑوسی بھوکا ہو۔ ایسے شخص پر جنت حرام قرار دی گئی ہے جو اپنے پڑوسی کو ایذا پہنچاتا ہے۔ افسوس کہ آج کا معاشرہ ان تعلیمات سے غافل ہو چکا ہے۔
پڑوسیوں کے ساتھ حسنِ سلوک، صبر، ہمدردی اور تحمل کی بجائے جھگڑے، بدگمانی اور قطع تعلق عام ہو چکے ہیں۔ یہ صورت حال ہمیں سوچنے پر مجبور کرتی ہے کہ کیا ہم واقعی اسلامی معاشرے کا حصہ ہیں؟ قرآن کریم میں اللہ تبارک و تعالی نے جا بجا پڑوسیوں کے حقوق کو بیان فرمایا ہے، چند آیاتِ کریمہ ملاحظہ فرمائیں۔
پڑوسی کے ساتھ حسنِ سلوک:۔ ارشادِ ربّانی ہے: ’’اللہ کی عبادت کرو، اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤاور پڑوسی رشتے دار اور غیر رشتے دار پڑوسی کے ساتھ حسن ِسلوک کرو‘‘۔(سورۃ النساء: 36)
پڑوسی کو ایذاء دینا منع ہے: ترجمہ: "اور جو لوگ مومن مردوں اورعورتوں کو بلا وجہ ایذا دیتے ہیں، وہ بہتان اور کھلا گناہ اپنے سر لیتے ہیں۔"(سورۃ الاحزاب: 58)
پڑوسی کو بھوکا رکھنا ظلم ہے: ترجمہ: "وہ دوسروں کو خود پر ترجیح دیتے ہیں، اگرچہ خود کو سخت حاجت ہو۔"(سورۃ الحشر: 9)
پڑوسی سے صلۂ رحمی و حسنِ سلوک کی ترغیب: ترجمہ: "یقیناً اللہ عدل، احسان، اور قرابت داروں کو دینے کا حکم دیتا ہے..."(سورۃ النحل: 90)
ایمان کے تقاضے: ترجمہ: "مومن تو آپس میں بھائی بھائی ہیں۔"(سورۃ الحجرات: 10)
احادیث مبارکہ میں بھی نبی کریمﷺ نے پڑوسیوں کے حقوق کے بارے میں بہت تفصیل کے ساتھ بیان فرمایا ہے۔
حدیثِ جبرائیل و وصیتِ جار: نبی کریمﷺ نے فرمایا: ’’جبرائیل علیہ السلام مجھے برابر پڑوسی کے بارے میں وصیت کرتے رہے، یہاں تک کہ میں نے گمان کیا کہ پڑوسی کو وارث بنا دیا جائے گا۔‘‘(صحیح بخاری: 6014، صحیح مسلم: 2624)
ایذاء رسانی سے بچاؤ: نبی کریمﷺ نے فرمایا:’’اللہ کی قسم! وہ ایمان والا نہیں، جس کا پڑوسی اس کی ایذا رسانی سے محفوظ نہ ہو۔‘‘(صحیح بخاری: 6016)
پڑوسی کو تحفہ دینے کی ترغیب: رسول اللہﷺ نے فرمایا:’’اے مسلم عورتو! پڑوسن کو معمولی چیز کا تحفہ دینا بھی حقیر نہ جانو، خواہ وہ بکری کا کھُر ہی کیوں نہ ہو۔‘‘(صحیح بخاری: 2566)
کھانے میں شریک کرنے کی تاکید: نبی کریمﷺ نے فرمایا:’’جب سالن بناؤ تو اس میں شوربا زیادہ کردو اور اپنے پڑوسیوں کا خیال رکھو۔‘‘(صحیح مسلم: 2625)
پڑوسی سے نیکی کا حکم: رسول اللہﷺ نے فرمایا: ’’جو شخص اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہے، وہ اپنے پڑوسی کے ساتھ حسنِ سلوک کرے۔‘‘ (صحیح مسلم: 47)
قریبی دروازے والے کو فوقیت: حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے عرض کیا،اے اللہ کے رسول ﷺدو پڑوسی ہوں تو تحفہ کسے دوں؟ نبی کریمﷺ نے فرمایا ’’جس کا دروازہ تم سے زیادہ قریب ہے۔‘‘(صحیح بخاری: 6021) سلف کے بکثرت واقعات اور اقوال بھی اس بات پر دلالت کرتے ہیں کہ اسلام میں پڑوسی کے ساتھ حسن سلوک کی کس قدر تاکید ہے۔
حضرت ابوذر غفاریؓ کو وصیت: نبی کریمﷺ نے فرمایا:"اے ابوذر! جب سالن بناؤ تو پانی زیادہ ڈال کر اپنے پڑوسی کو بھی دو۔"(صحیح مسلم: 2625)
حضرت عبداللہ بن عمر ؓ کا ایثار: جب بکری ذبح کرتے تو بار بار غلام سے فرماتے: "ہمارے یہودی پڑوسی کو گوشت دینا نہ بھولنا۔"(مکارم الاخلاق لابن ابی الدنیا: ص 70)
حضرت حسن بصری رحمہ اللہ کے پڑوسی: ایک شخص نے ان کے گھر کی دیوار میں سوراخ کیا، مگر انہوں نے کچھ نہ کہا، بلکہ فرمایا: "شاید انہیں روشنی کی ضرورت ہو"۔(صفۃ الصفوۃ: 2/95)
خلیفہ عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ کی تلقین: آپ فرماتے تھے:’’ پڑوسی کو بھوکا سونے دینا ظلم ہے ،خواہ وہ غیر مسلم ہی کیوں نہ ہو‘‘۔(کتاب الزہد لابن المبارک: 1165)
خلاصۂ تحریر یہ ہواکہ اسلامی معاشرہ تب ہی فلاح پا سکتا ہے جب اس کی بنیاد حسنِ سلوک، ایثار اور باہمی احترام پر رکھی جائے۔ پڑوسی کے حقوق کو قرآن و سنت میں جتنی اہمیت دی گئی ہے، وہ اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ ایک مسلمان کا کردار صرف عبادات تک محدود نہیں، بلکہ سماجی تعلقات کی بہتری میں بھی اہم کردار ادا کرنا لازم ہے۔ پڑوسی چاہے مسلمان ہو یا غیر مسلم، قریبی ہو یا اجنبی، اس کا ادب، خبر گیری اور مدد کرنا اسلامی فریضہ ہے۔
نبی کریمﷺ نے پڑوسی کے ساتھ حسنِ سلوک کو ایمان کی علامت قرار دیا۔ اگر ہم ان تعلیمات پر عمل کریں تو معاشرے میں رنجشیں، بغض و کینہ اور حسد کی جگہ محبت، رواداری اور بھائی چارگی جنم لے گی۔ ہر گھر ایک امن کا گہوارہ بنے گا اور ہر دل میں دوسروں کا خیال پیدا ہو گا۔ ہمیں چاہیے کہ ان تعلیمات کو اپنی عملی زندگی کا حصہ بنائیں، اپنے بچوں کو سکھائیں، اور معاشرے میں اس شعور کو عام کریں، تاکہ ایک مثالی اسلامی معاشرہ تشکیل پا سکے۔
رسول اللہﷺ نے فرمایا : تمہیں معلوم ہے کہ پڑوسی کا حق کیا ہے؟ یہ کہ:
٭…جب وہ تم سے مدد مانگے تو اس کی مدد کرو۔
٭…جب وہ قرض مانگے تو قرض دو۔
٭…جب محتاج ہو تو اس کی مالی مدد کرو۔
٭…جب وہ بیمار ہو تو اس کی عیادت کرو۔
٭…جب اسے خیر پہنچے تو مبارکباد دو۔
٭…جب مصیبت پہنچے تو تعزیت کرو۔
٭… جب وہ مر جائے تو اس کا جنازہ پڑھو۔
٭…بغیر اجازت اپنی عمارت اتنی بلند نہ کرو کہ اس کی ہوا روک دو۔
٭…اپنی ہانڈی سے اسے ایذا نہ دو، مگر اس میں سے اسے بھی کچھ دو۔(شعب الایمان)