جولائی 2025 کا تاریک دن تھا۔ سورج نے پوری طرح آنکھ بھی نہیں کھولی تھی۔ دھرتی کے منہ پر دھند کا دبیز پردہ تھا۔ پرندوں کی چہچہاہٹ کے ساتھ بے دار ہونے والی خواتین صبح کا ناشتہ بنانے کی تیاری کررہی تھیں۔ وہ انسانی آوازیں بھی سرشاری سے گنگنا رہی تھیں جنہوں نے خاموش رات کی آغوش میں خواب دیکھے تھے۔ لیکن اچانک ہی ایک جھما کے سے سارے خواب اس طرح زمیں بوس ہوگئے کہ، زن، زندگی، آزادی اور حقوق کی جنگ میں شریک آوازوں نے ماتمی دھنوں کی بوجھل لے پر بھیگی پلکوں کی چادر سے خود کو ایسے ڈھانپا کہ پھر کوئی منظر نظر نہیں آیا دھند کی چادر کے سوا۔
بڑی آرزو تھی اپنی مرضی سے جینے کی لیکن کتنا کم وقت لگا خوشیوں کے لمحوں کو ماتم میں بدلتے۔ چیختی دھاڑتی آوازوں سے صبح کے ناشتے کا آغاز ہوا، عورتوں نے آنسوؤں سے ناشتا کیا تو مردوں نے اُنہیں منہ بھر بھر کے ماں بہن کی گالیاں دے دے کر پیٹ بھرا۔ اُس سمے دھرتی کا ناقابلِ یقین منظر دیکھ کر بادلوں کی اوٹ سے جھانکتا سنہری سورج بھی ’’بلیک روز‘‘ بن گیا۔
ٹیلی ویژن اسکرین پر گونجتی آوازیں ایک گھر سے دوسرے گھر ہی نہیں ایک شہر سے دوسرے شہر میں داخل ہوتے ہوتے دنیا بھر میں ایسے چھاگئیں کہ مشرق سے مغرب تک سب کو قبائلی معاشرے کی فرسودہ روایات کے بہیمانہ اثرات کا علم ہوگیا۔ شور اُس وقت ہوا جب بلوچستان کی گل بانوستگزئی کی پسند کی شادی کا علم ہوا، اُس نے قبیلے والوں کی غیرت کو للکاراتھا،اس لیئے اُس جوڑےسے جینے کا حق ہی چھین لیاگیا۔
کہتے ہیں ایک تصویر سو الفاظ سے زیادہ اثر رکھتی ہے اس سے کئی گنا زیادہ وڈیو اثر دکھاتی ہے۔ ٹی وی چینلز، سوشل میڈیا پر مقتول جوڑے کی وڈیو نے اُدھم مچایا، دوسرے دن کم وبیش ہر اخبار کے صفحہ اوّل پر خاتون کی تصویر شہ سرخیوں کے ساتھ شائع ہوئی، جس کا چہرہ مٹا مٹا سا تھا، غیرت مندوں نے ایسا از خود کیا تھا کہ وہ اپنی خواتین کا چہرہ کسی غیر کو دکھانا نہیں چاہتے، لیکن انہوں نے تو اسکا وجود ہی مٹادیا۔
گل بانو کی چادر سے ڈھپی دھندلی تصویر نے ہی نہیں اس کی زبان سے ادا کیا گیا ایک جملہ ’’صرف گولی سے مارنے کی اجازت ہے‘‘ نے پتھر دلوں کو بھی نرم کردیا۔ اس واقعے کی گھن گرج کم نہ ہوئی تھی کہ راولپنڈی میں 19سالہ نئی نویلی دلہن’’سدرہ‘‘ کو شب کی تاریکی میں اُس کے سسرال والوں نے غیرت کے نام پر نہ صرف قتل کیا بلکہ رات کے اندھیرے میں بغیر کفن اور جنازے کے تدفین کردی پھر چند منٹوں بعد ہی قبر مٹادی مقتولہ کی بے نام و نشاں قبر کی چھان بین ہورہی تھی کہ کراچی میں محبت کی شادی کرنے والے جوڑے کو قتل کر کے اُن کی لاشیں ساحل سمندر پر پھینک دیں، صرف یہی نہیں، بلوچستان سے مالاکنڈ، سندھ سے کراچی، پنجاب سے پشاور تک پے درپے واقعات’’بریکنگ نیوز‘‘ بنے۔ ہر واقعہ میں اندوہناک منظر سمایا ہوا سماعتوں سے ٹکراتارہا۔ لیکن یہ واقعات چند خواتین کے نہیں بلکہ معاشرے کی اس روح کے قتل ہیں جسے ہم غیرت، روایات اور مردانگی کے نام پر روندتے آرہے ہیں، گرچہ ہوگا وہی جو اب تک ہوتا آیا ہے۔ یعنی ظلم کا تسلسل، انصاف کا تعطل۔
وقت کے ماتھے پہ کنندہ ایک دو نہیں لاتعداد کہانیاں ہیں جنہیں کوئی عنوان نہیں دیا جاسکتا۔ حقیقتاً وقت دکھائی نہیں دیتا مگر پھر بھی کیا کیا دکھا دیتا ہے۔ سوچا تھا کسی نے سونا اُگلنے والی زمینوں میں سبزیوں، گندم، کپاس کی جگہ ’’غیرت کی قبریں‘‘ بنیں گی، جن میں بےگوروکفن لاشیں دفن ہوں گی، جن کی نماز جنازہ پڑھی جائے گی نہ مغفرت کی دعاء کی جائے گی۔
کسی کی تدفین رات کے اندھیرے میں، تن کے کپڑوں میں ہوگی تو کسی کو صبح سویرے ایسے زمین کے سپرد کیا جائے گا جیسے گھر کا کاڑ کباڑ ہو۔ لیکن ایسا کرتے وقت یہ بھول گئے کہ گناہ کرکے کہاں چھپاؤ گے، یہ زمیں وآسماں اسی کا ہے۔ کہا جا رہا ہے کچھ غلط نہیں ہوا، جو رسم و رواج کو پامال کریں گے، وہ سزا کے مستحق ٹہریں گے، اُنہیں جینے کا حق نہیں ہے۔ پہلے بھی ایسا ہوتا رہا ہے، آئندہ بھی یہی ہوگا، پھر یہ عام سی زندگانیاں آج خاص کیسے ہوگئیں ۔
روز مرہ ہونے والے واقعات پر اتنا واویلا کیوں، اس واویلے میں قبیلے کے مرد کیوں شامل ہوگئے؟ کیا اُن کی سوئی غیرت جاگ گئی ؟ جب کچھ بھی نیا نہیں ہے، وہی ہوا ہے جو صدیوں سے ہورہا ہے تو یہ ہنگامہ اے خدا کیوں… کڑواسچ تو یہ ہے کہ جب دماغ پر طاقت کا نشہ سوار ہو، جب معاشرہ ہر وقت سبق پڑھائے ، مرد آقا ہے، ان داتا ہے، برتر ہے، عورت تو صلیب پر زندگی گزارتی ہےاور اپنے عورت ہونے کا خراج پل پل ادا کرتی ہے تو شور مچانا بے معنیٰ۔
لیکن بہادر سپوتوں کو یہ نہیں معلوم کہ اب وقت کے ساتھ بہت کچھ بدل گیا ہے اس بدلتے وقت میں عورت کی چھٹانک بھر کی زبان چلنے لگی ہے، وہ اپنے آپ کو پہچان گئی ہے، اسی لیے جی دار ہوگئی ہے۔ اب وہ شرائط کے ساتھ، دوسروں کی مرضی سے جینا نہیں چاہتی، مگراس بدلاو کے باوجود منظر نامہ بتا رہا ہے کہ جب وہ ایسا سوچے گی، تو فرسودہ روایات اُسے جینے نہیں دیں گی، یہی کچھ ہوگا جو بلوچستان کی بانو کے ساتھ ہوا لیکن اُس کی بہادری کی تو داد دینی پڑے گی کہ اپنے قبائل سے ڈری نہ موت سے ،وہ تو قرآن پاک لے کر خود جرگے میں پیش ہوئی اور دیدہ دلیری سے کہا، ہم نے شرعی نکاح کیا ہے۔
سردار نے کہا، اگر شوہر پر بلیک میلنگ کا الزام لگا دو گی تو جاں بخشی ہوسکتی ہے۔ جواباً بانو نے کہا، بتاؤ وہ آیت جس میں بہتان لگانا جائز ہے۔ اُس نے سورۃ النساء کی آیات پڑھ پڑھ کر نکاح کے احکامات سنائے تو سردار نے دھمکیاں دیں لیکن اس پر کوئی اثر نہ ہوا۔ وہ گڑگڑائی نہیں، جاں بخشی کا نہ کہا، روئی نہ چلائی، نہ کسی کی منت نہ ترلہ، وہ خود چل کر مقتل گئی۔ غیرت مند جرگے، قبیلے نے سات گولیاں داغ کر اُس کی زندگی ختم کردی، جس کی امانت تھی اس کے پاس چلی گئی۔
اب سنا ئے گی رب کو اپنی داستان۔ بانو سے پہلے بھی نہ جانے کتنی خواتین نے اپنے پر ہونےوالی زیادتیوں کے قصے رب کو سنائے ہوں گے، یہ جانتے ہوئے بھی کہ وہ تو سب جانتا ہے۔ کسی کی زندگی ختم کرنے والوں پر تو آسمان سے پتھر برسنے چاہئے تھے لیکن ابھی رب انہیں مہلت دے رہا ہے۔
گرچہ غیرت کے نام پر یہ پہلااور آخری قتل نہیں ہے،جو کسی جذباتی لمحے کا نتیجہ بھی نہیں تھابلکہ باقاعدہ منصوبہ بندی، قبائلی انا، جھوٹے وقار ، مذہب کی غلط تشریح اور جرگہ نظام کی سفاکی کا مجموعہ تھا،حقیقت تو یہ ہے کہ، انسانی آنکھیں ہی نہیں کیمروں کی شیشے والی آنکھیں بھی غیرت کے نام پر خواتین کے قتل کے مناظر محفوظ کرتے ہوئے تکلیف محسوس کرتی ہوں گی، جب ہی تو دھندلی تصاویر نظر آتی ہیں۔
سچ یہ ہی ہے کہ ، غیرت کے نام پر قتل عام بات ہے اگر کسی خاتون پر بدکاری کا شبہ ہے تو تحقیق کیے بغیر اسے موت کے گھاٹ اُتار دیا جاتا ہے۔ وہ خواتین جو کسی طرح بھی خاندان کے لے بدنامی کا باعث بنیں، پسند کی شادی کرلیں تو گھر والے ہی نہیں خاندان کے دیگر افراد بھی انہیں جان سے ماردینا اپنا حق سمجھتے ہیں یعنی پسند کی شادی کا انجام ’’موت‘‘ ہے۔
ونی ہو یا سوارہ، غیرت کے نام پر قتل کیے جائیں یا جائیداد کے بٹوارے سے بچنے کے لیے قرآن سے شادی کی جائے، سب سرداری طاقت اور قبائلی نظام کی قبیح صورتیں ہیں۔ عدالت عالیہ نے 2019ء میں جرگے کے فیصلہ جات کو غیر آئینی اور غیر قانونی قرار دیا، مگر زمینی سطح پر وہ فیصلے زندہ ہیں۔ جرگے فیصلے کرتے، متوازی عدالتیں قائم کرتے اور اپنے قانون خود نافذ کرتے ہیں۔ عدالت اور ریاست اس سارے عمل میں بے بس نظر آتی ہے۔
مگر سوال یہ ہے کہ سزا دینے کا اختیار کب سرداروں، وڈیروں یا قبیلوں کو منتقل ہوا۔ بےشک قانون کے لفظ، قانون کی کتابیں، قانونی داؤ پیچ اور دلیلیں گم ہوگئیں، پھر بھی دنیا کی کوئی شریعت کسی کی بھی زندگی ختم کرنے کی اجازت نہیں دیتی۔ دراصل یہ جرگے، پنچائتیں اور قبائلی فیصلے ریاست، آئین و قانون اور نظام عدل کو تسلیم نہ کرنے کا عملی اظہار ہے،جب ریاست خود ان متوازی نظاموں کو قبول کرلے تو انصاف دفن ہوجاتا ہے۔
جس معاشرے میں عورت کو صرف خاندان کی عزت اور سرداری نظام کی ’’غیرت ‘‘ کا نشان سمجھا جاتا ہے، وہ اپنی مرضی سے سانس بھی لے تو جرم بن جاتا ہے۔ پاکستانی پس منظر میں قبائلی اور جاگیردارانہ پدر شاہی رویے ہر جگہ نظر آتے ہیں۔ غیر قانونی قبائلی جرگے ، پنچائیت، جاگیردار اور مذہب کے معاملات میں یہ ایک نہایت ہی سخت پدری نظام ہے۔ اگر یہ نظام اتناہی مہذب اور منصفانہ ہوتا تو آج وہاں تعلیم، صحّت، ترقی، روزگار اور خواتین کی صورت حال ایسی نہ ہوتی۔
حقیقت یہ ہے ان علاقوں میں رسم و رواج کے نا م پر قبائلی سرداروں، وڈیروں اور سیاسی گدی نشینوں کا حق حکم رانی تسلیم کرلیا گیاہے۔ ان غیر قانونی جرگوں اور پنچائتوں میں جو فیصلے ہوتے ہیں، وہ انسانی حقوق، ملک کے آئینی و قانونی تقاضوں اور اخلاقی اُصولوں کی دھجیاں بکھیر دیتے ہیں، المیہ یہ ہے کہ ان سرداروں، وڈیروں اور قبائلی.عمائدین کو سیاسی تحفظ حاصل ہوتا ہے۔
وہ اسمبلیوں میں بیٹھ کر قانون سازی میں حصّہ لیتے ہیں، وزارتیں لیتے ہیں اور سیاسی اثر ورسوخ کے زور پر اپنی سلطنت قائم رکھتے ہیں، جہاں کم زور خصوصاً خواتین کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ 2008ء کی مخلوط کابینہ میں بلوچستان کے ایک وزیر اسرار زہری تھے، اس وقت بلوچستان میں 6 لڑکیوں کو زندہ دفن کیا گیا تھا۔ اس واقعے پر وزیر موصوف نے کہا تھا ’’یہ ہماری روایت کے مطابق ہے‘‘۔اس کے بعدکیا کچھ کہنے کی گنجائش ہے؟
یقین اور بے یقینی کی کیفیت میں دل و دماغ میں ایک ہی سوال ہتھوڑے برسارہا ہے، کیا ہم بہ حیثیت قوم انسانیت کے کم سے کم معیار پر بھی پورے اُتررہے ہیں؟ اس کا جواب چند سال قبل ڈاکٹر ساجدہ احمد جو اُس وقت ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج تھیں، کے ایک خط سے مل گیا، جو انہوں نے چیف جسٹس پاکستان اور چیف جسٹس لاہور کو لکھا تھا۔ اس کھلے خط میں اپنے پچھتاوے کا اظہار کرتے ہوئے ڈاکٹر ساجدہ احمد نے لکھا تھا، ’’کاش صدی کا ربع حصّہ اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے میں صرف کرنے کے بجائے وہ گاؤں میں مویشی چراتیں، اُپلے تھاپتیں، اپنی کاشت کارفیملی کی مدد کرتیں۔
اعلیٰ ترین تعلیم حاصل کرکے ایک نہایت بلند منصب پر فائز ہوکر انہیں کیا حاصل ہوا؟ گالیاں، بے حرمتی، خوف وہراس، توہین، بدسلوکی، مجبوری اور مایوسی۔ مکتوب کے آخر میں وہ آرزو کرتی ہیں کہ ’’کاش‘‘ خواتین کو اتنا حوصلہ ملے کہ وہ اپنے جوش اور ایمان کے ساتھ کسی کی بہن ، بیٹی یا ماں بن کر وقار اور تکریم کے ساتھ قوم کی خدمت کرسکیں۔‘‘
ڈاکٹر ساجدہ احمد نے خواتین کے ساتھ بدسلو کی کا ذکر اس پیشے کے حوالے سے کیا ہے، جس سے وہ منسلک ہیں، جس ناسور کا ذکر کیا ہے وہ بدن کے کسی ایک عضو تک محدود نہیں، پورے بدن کو فاسد کرچکا ہے۔ ناقابل تردید حقیقت یہ ہے کہ، عورت کو اس معاشرے نے وہ مقام دیا ہی نہیں جو اس کا استحقاق ہے، اس میں حسبِ توفیق سب اپنا حصّہ ڈال رہے ہیں۔
بلوچستان کی بانو نے اپنی مرضی سے نکاح کیا تو اُسے شوہر سمیت غیرت کے نام پر قتل کردیا گیا۔ راولپنڈی کی19 سالہ سدرہ کو کفنایا گیا، نہ جنازہ پڑھا یا گیا،. جرم وہی پسند کی شادی کیوں کی، اس سے قبل 16 سے 18 سال کی تین لڑکیوں کو ریگستان میں زندہ دفن کردیا گیا تھا، اس بربریت کا دفاع کرنے والے مرد سینیٹر تھے۔
آئین کاآرٹیکل 4 اور 25 عورت کو تحفظ فراہم کرتا ہے، لیکن ان دفعات کی عمل درآمدی کسی سردار پر ہوتی ہے؟ ان سرداروں اور قبائلی جرگوں نے کئی دہائیوں سے ریاست کے اندر ریاست قائم کر رکھی ہے۔ وہ فیصلے کرتے، قتل کے حکم صادر کرتے اور کوئی کچھ نہیں کرسکتا۔ جرگے آج بھی عورت کے نکاح، زندگی، موت اور آزادی کے فیصلے کرتے ہیں، ان فیصلوں کی بنیاد دین یا قانون نہیں بلکہ غیرت، انتقام اور قبیلے کی انا ہوتی ہے، آخر کیوں؟
ملک آئین سے چلتا ہے۔ بندوق اور اَنا سے نہیں۔ ہونا تو یہ چاہیے کہ جرگہ اور پنچائیت کے غیر آئینی اور غیر قانونی نظام پر پابندی لگائی جائے۔ متوازی عدالتی نظام کو آئینی و قانونی سطح پر جرم قرار دیا جائے، بصورت یہ ہی ہوتا رہے گا لیکن کب تک؟ کون اس کا جواب دے گا؟
ہم جھو ٹ بولتے ہیں
آج ہم سچ کا اعتراف کرہی لیں کہ ہم جھوٹ بولتے ہیں جب ہی تو نہیں بتاتے کہ عورت کو کس کس طرح زمین بوس کیا جاتا ہے۔ ہر بات پر ، ہر مسئلے میں تو مرد کی غیرت جاگ جاتی ہےاور پھر اسے جواز بناکر قتل کردیا جاتا ہے۔
ذرا غور کریں، 2023 میں جنوری تا نومبر 392 خواتین غیرت کے نام پر قتل ہوئیں، 2024ء میں پنجاب میں 168 سندھ میں 1051، خیبرپختون خوا میں 52، بلوچستان میں 19، جب کہ اسلام آباد میں دو کیس رپورٹ ہوئے، دیگر واقعات میں ملک بھر میں 980 خواتین کو موت کے گھاٹ اتارا گیا۔ 2025 میں تادم تحریر 60 خواتین قتل ہوچکی ہیں۔
یہ وہ واقعات ہیں جو منظر عام پر آئے، جب کہ ایسے واقعات کی بڑی تعداد رپورٹ ہی نہیں ہوتی، جتنی خاموشی سے قتل کیا جاتا ہے، اتنی ہی خاموشی سے دفن کردیا جاتا ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں ہر برس 5 ہزار عورتیں نام نہاد غیرت کے نام پر قتل ہوتی ہیں، ان میں پاکستان کا حصّہ ایک ہزار ہے۔
’’اب ہم قبائلی خواتین کو پرانی روایات کی بھینٹ نہیں چڑھنے دیں گے‘‘
اگست 2025 میں ڈیرہ غازی خان کے قبائلی علاقے میں ایک ایسا انقلاب رونما ہوا جس نے صدیوں پرانی روایات کو چیلنج کیا اور بلوچی خطے کی تاریخ کو نیارُخ دیا۔ 124 سالہ تاریخ میں پہلی بار قبائلی علاقوں سے 53 خواتین قبائلی فورسز کا حصّہ بن گئیں۔ بلوچ قبائلی برادریوں کی باہمت خواتین نے کوٹہ کے بجائے میرٹ پر قانون نافذ کرنے والے اداروں میں شمولیت اختیار کی ہے۔
1901 میں برطانوی نو آبادیاتی دور میں قائم ہونے والی بارڈرملٹری پولیس (بی ایم پی ) اور بلوچ لبویز (بی ایل) کا مقصد وزیرستان کے قبائلی علاقوں سے ملحقہ پنجاب کے قبائلی علاقوں کی سرحدوں کی حفاظت کرنا تھا۔ اب وہ بٹیاں جو کبھی سخت پردے اور روایات تک محدود تھیں، آج اپنے لوگوں کی محافظ بن گئی ہیں۔
راجن پور اور ڈیرہ غازی خان سے 53خواتین ، بی ایم پی وبی ایل میں بھرتی ہوئی ہیں۔ ان خواتین کی تقرری محض علامتی نہیں بلکہ ایک انقلابی قدم ہے۔ ان خواتین نے معاشرتی رکاوٹیں توڑنے اور اپنے علاقوں کی دیگر خواتین کو با اختیار بنانے کا عزم کرتے ہوئے کہا ہے کہ ، ’’ہم قبائلی خواتین کو پرانی روایات کی بھینٹ نہیں چڑھنےدیں گے‘‘۔ یہ نئے دور کے آغاز کی علامت ہے۔
فرسودہ رسوم پر ہمارے قوانین
ہم ایک ایسے معاشرے میں سانس لے رہے ہیں جہاں قانون کتابوں میں تو درج ہے لیکن عملاً نظر نہیں آتا۔ فرسودہ رسمیں ہزاروں سال سے جاری ہیں۔ انگریز حکومت نے1860 میں کاروکاری کو جرم قرار دیا تھا 1990ء میں فیڈرل شریعت کورٹ نے قوانین میں ترمیم کرکے اسے شریعت کے مطابق بنایا۔
دسمبر 2004 میں حکومت نے ان میں ٹرمیم کی۔ نئے قانون کے تحت غیرت کے نام پر قتل کرنے والے افراد کو سات سات عمر قید تک کی سزا تجویز کی گئی۔ 2005 میں حکومت پاکسان نے ایک ایسے قانونی مسودے کو مسترد کیا، جس میں کاروکاری کے مجرموں کی سزا میں اضافے کی تجویز پیش کی گئی تھی۔
2006 میں خواتین کے تحفظ کا قانون نافذ ہوا، جس کے تحت کاروکاری کے مجرموں کو عمر قید کی سزا دینے کا فیصلہ کیا گیا۔ 2010 میں کریمنل لاء (Amendment Offenees in the name of Pretext of Honor) نافذ ہوا، اس قانون کے تحت سزا یافتہ مجرم کو قریبی رشتے داروں کی جانب سے معافی دینے کا اختیار ختم کیا گیا۔ اس قانون کے تحت اب مجرموں کو 14 سال تک قید کی سزا ہوسکتی ہے۔ 2004 میں ونی یا سواراکے خلاف پارلیمنٹ نے باقاعدہ قانون سازی کی اور تعزیرات پاکستان قوانین میں ترمیم کی گئیں، جن کے تحت اسے قابل سزا جرم قرار دیتے ہوئے پاکستان پینل کوڈ کے سیکشن 310، اے کا اضافہ کیا گیا۔
اس میں واضح طور پر لکھا ہے کہ خواتین کو بدل صلح کی شکل میں پیش کرنا قانوناً جرم ہے۔ اس کی سزا کم ازکم تین سال اور زیادہ سے زیادہ دس سال ہوگی۔ 2004 میں ان جرائم کے خلاف بننے والے قوانین کو دسمبر 2011 میں مزید سخت کیا گیا تھا۔
پارلیمنٹ نے قانون پاس کیا۔ جس کی روسے خواتین کی جبری شادی کرانے کے جرم کو ناقابلِ ضمانت قرار دیا گیا۔ اس کا مقصد یہ تھا کہ خواتین کی حالت بہتر بنائی جائے۔عورت کی قرآن سے شادی پر 3 سے 7 سال تک قید اور 5 لاکھ جرمانہ کی سزا مقرر ہے، اس کے باوجود اس رسم کا قلع قمع نہیں کیا جا سکا۔
فرسودہ رسومات آج بھی زندہ ہیں
یہ بدلتی ترقی یافتہ دنیا ہے لیکن پاکستان میں کئی فرسودہ رسومات آج بھی زندہ ہیں۔ قوانین کے باوجود جرگے، پنچائتیں، سردار، ووڈیرے فیصلے کرتے ہیں، ان رسومات کی وجہ سے لاتعداد خاندان متاثر ہوتے اور اَن گنت خواتین اپنی جان سے ہاتھ دھوبیٹھتی ہیں۔
ذیل میں چند رسوم کے بارے میں ملاحظہ کریں اور سوچیئے کہ ، ان رسوم کے نام پر جو کچھ ہورہا ہے کیا یہ صحیح ہے ؟ اگر غلط ہے تو ختم کیوں نہیں کی جارہیں۔
سام
یہ ایک انتہائی قبیح رسم ہے۔ اس کا مطلب ہے تاحیات خدمت بہ حیثیت غلام یا باندی .۔ ’’پناہ‘‘ میں رکھے جانے والے مرد، عورت یا مویشی’’سام‘‘ کہلائے جاتےہیں، اس طرح خواتین مکمل طور پر ان کے تسلّط میں آجاتی ہیں۔ وہ حلف اُٹھاتی ہیں کہ ، تمام عمر خدمت گزاری کریں گی۔ سارے اختیارات سردار کو حاصل ہوتے ہیں۔ وہ ان کی بولی لگا کر فروخت بھی کرسکتا ہے۔
قرآن سے شادی
سندھ ، بلوچستان اور جنوبی پنجاب میں ایک رسم ’’قرآن سے شادی‘‘ہے یہ شادی اُن لڑکیوں کی ہوتی ہے جو با اثر خاندان کی اور صاحب جائیداد ہوتی ہیں۔ انہیں جائیداد سے محروم رکھنے یا اس پر قبضہ کرنے کے لئے انہیں قرآن سے بیاہ دیا جاتا ہے، لڑکی کی رضامندی ضروری نہیں سمجھی جاتی۔
کاروکاری
یہ رسم ہزاروں سال پرانی ہے۔ اسے سندھی زبان میں کالے اور کالی کو کہاجاتا ہے۔ یعنی ’’سیاہ کار‘‘ یہ غیرت اور عزت کے نام پر قتل ہوتا ہے۔ پاکستان ، خاص کر سندھ میں عورتوں کے قتل کی ایک بڑی وجہ یہ رسم ہے۔ مرد، عزت کے نام پر اپنی ماں، بیٹی، بیوی اور بہن کو قتل کرنا اعزاز اور فخر سمجھتا ہے۔
کاروکاری کے نام پر ذاتی دشمنی اور انتقام کے لئے قتل عام ہے، جس کی زد میں عورت ہی آتی ہے، مرد دشمن کو سزا دینے کے لئے اپنی ہی خواتین کو کاری یعنی سیاہ کار کہتے ہوئے قتل کر کے ، اپنے دشمن سے منسوب کرتے ہوئے قتل کردیتے ہیں، اس قبیح جرم کے مرتکب افراد سزا سے بھی بچ جاتے ہیں۔
سندھ کے مختلف گاؤں کے مضافات میں ایسے قبرستان ہیں، جہاں کاری قراردی جانے والی عورتوں کو کفن اور نماز جنازہ پڑھائے بغیر خاموشی سے دفن کردیا جاتا ہے۔
کاروکاری کے تنازعات قبائلی جرگوں میں طے کیے جاتے ہیں، یہ جرگے با اثر مردوں پر مشتمل ہوتے ہیںِ ان میں کوئی خاتون شریک نہیں ہوسکتی اور نہ اپنی صفائی میں کچھ کہہ سکتی ہے ان جرگوں کی ضرورت بھی اس وقت ہوتی ہے جب مخالف قبیلے کے لوگ اس کا شکار ہوں، بہ صورت دیگر قبیلے کے سردار ہی فیصلہ کرتے ہیں۔
ونی یا سوارا
یہ ایک رسم کے دو نام ہیں، پنجاب میں اسے ’’ونی‘‘ جب کہ سرحد میں ’’سوارا‘‘ کہا جاتا ہے۔ خوں بہا کے طور پر سرحد میں عورت دینا سوارا، جنوبی پنجاب میں قتل معاف کرانے کی صورت عورت دینا’’ونی ‘‘کہلاتا ہے۔ سندھ اور بلوچستان میں بھی اسی طرح کی رسمیں ہیں۔
قدیم دور میں قبیلوں اور خاندانوں میں دشمنوں اور قتل و غارت گری کو روکنے کے لئے جرگے اور پنچائیت کا نظام رائج تھا، اسی کے ذریعے فیصلے کئے جاتے تھے۔ آج بھی دو خاندانوں میں صلح کی خاطر بہ طور جرمانے لڑکیاں دی جاتی ہیں، بعض اوقات کم سن لڑکیاں بڑی عمر کے مردوں سے بیاہی جاتی ہیں۔
سسرال والے ان سے غلاموں جیسا سلوک کرتے ہیں، ان کے کوئی حقوق نہیں ہوتے، والدین اور رشتے داروں سے نہیں مل سکتیں۔ اس جرم کو جرم نہیں خاندانی رسم اور اپنا حق سمجھاجاتا ہے۔ بدقسمتی سے جب کسی کو خوں بہا دینا ہو، کسی کو بدکاری یا بدفعلی کے الزام سے رہائی دلانی ہو،یا کسی اور جرم سے فرار اختیار کرنا ہو تب ’’سوارا‘‘ سے برادی والے واقف ہوتے ہیں کہ کون شادی کے پردے میں دشمنوں کے حوالے کیا جائے۔
’’ستی، ونی، کاروکاری کی رسوم ختم کرنے میں مغل اور انگریز حکم راں بھی ناکام ہوئے
ایسٹ انڈیا کمپنی نے ’’ستی‘‘کی رسم پر پابندی لگادی تھی۔ ممتاز ہندو راہ نما، راجہ رام موہن رائے نے ہندوؤں میں ستی کی رسم کے خلاف مہم چلائی تھی۔ سندھ کے انگریز کمشنر، چارلس نیپئر نے کاروکاری کی رسم کو غیر قانونی اور غیر انسانی قرار دیتے ہوئے اپنے حکم نامے میں لکھا تھا ’’سندھ میں عورتوں کو جس بے دردی سے قتل کیا جاتا ہے، اس کی مثال دنیا بھر میں نہیں ملتی، یوں محسوس ہوتا ہے کہ، بھیڑ بکریوں اور عورتوں میں کوئی فر ق نہیں ہے۔ بعد ازاں انڈین پینل کوڈ میں عزت کے نام پر قتل کرنے والے کو سزا کا مستحق قرار دیا گیا تھا۔
مغل بادشاہ جلال الدین اکبر نے دور شہنشائیت میں رسم ’’ستی‘‘ ’’ونی یا سوارہ‘‘ کے خاتمے کے لیے کوششیں کیں لیکن کام یاب نہ ہوسکے۔ مغل اور انگریز حکم راں دونوں ہی فرسودہ رسومات کو ختم نہ کرسکے۔
زمانہ قدیم سے جدید ہوگیا بہت کچھ بدل گیا لیکن نہ .بدلیں تو رسومات، بلکہ اب تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ بعض رسوم میں انتہا پسندی درآئی ہے۔