• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

عمرِ رفتہ کبھی لَوٹتی ہے کیا ؟ نہ بھی لَوٹے ، لیکن دانائی یا شہنائی اور تحریک یا تاریخ کی کہانی اس وقت تک مکمل نہیں ہوتی جب تک ماضی کے دریچوں سے جھانکا نہ جائے۔ مسئلہ یہ کہ ہم نے کہانی سننا یا سنانا چھوڑ دیا۔ جب کبھی پریوں کی کہانی سنتے تھے لگتا تھا پَر لگ گئے، جب کوئی سر کٹے جِن کی کہانی سناتا تو سہم جاتے کہ انسان کا نقصان ہو گا۔ یہ کہانیاں دادی کے لرزتے لبوں پر ہوتیں یا دادا کے گرجتے ہونٹوں کی، یہ ڈراتی اور سمجھاتی رہتی تھیں۔ آج چھوٹی چھوٹی دو کہانیاں ہمارے پاس بھی ہیں۔ سیاسی کارکنان و سیاسی قیادت، جنگ اورامنگ کی کہانیاں، کوئی سفر اور جبر کی کہانی! کچھ دن قبل جنوبی پنجاب کیلئے رختِ سفر باندھا پھر شہرِ اقتدار گئے۔ اب کل جو ہو سو، لیکن جنگ کے منڈلاتے سایوں میں کہیں بھی عوام کے سر پر جوں تک نہ رینگتی دیکھی، قوم کا یہ بلا کا اعتماد کیا ہے؟  زیڈ اے بھٹو کا تدبر، ایٹمی پاکستان کے خواب کو عملی جامہ پہنانا پھر ڈاکٹر اے کیو خان اور انکی ٹیم کی سب کہانیاں سچی کہانی ہو جانا، پاکستان کا جوہری توانائی کا حامل ہو جانا۔ اور قوم کا اعتماد یہ بھی کہ اسے اپنی فوج پر اعتماد ہے!اسی طرح گورنر پنجاب سردار سلیم حیدرسے ملے تو گورنر ہاؤس کی بزم میں ان کا سوال تھا ’’جنگ کے متعلق خیال ہے؟‘‘ گورنر صاحب جہاندیدہ آدمی ہیں سب سمجھتے ہیں لیکن وہ میرے سمیت سب حاضرین کے چہرے کی کہانی پڑھنا چاہتے تھے۔ 

سوال اتنا اچانک تھا کہ جو بھی کسی کے دل میں تھا سب کہہ دیا۔ ہر چہرے پر مسکراہٹ تھی اور اعتماد گویا کہانی سمجھ آ گئی۔ ویسے گورنر صاحب کے ہاں جب بھی حاضر ہوں انہیں چانسلر ذی وقار سمجھ کر جاتے ہیں اس امید پر کہ کبھی تو کھل کر ہائر ایجوکیشن کی باتیں ہوں گی۔ زیورِ تعلیم چرانے کیلئے چانسلر ہاؤس پر محمود غزنوی کی طرح شاید "17حملوں" کی کہانی ذہن میں رکھنا ہو گی۔۔۔ یاد آیا، پیپلزپارٹی کا کارکن بھی کیا کمال مخلوق ہے: جیتوں تو تجھے پاؤں ہاروں تو پیا تیری! کوئی جو بھی کہے پیپلزپارٹی جمہوریت پسندی اور آئین سازی کی ایک سچی کہانی ہے۔ حالیہ پیپلز پارٹی پنجاب چاہے جتنی بھی مدہوش ہو، کارکنان سے دور رہ کر تین چار تحصیلوں اور چند بے بنیاد اور بےثمر عہدوں سے چمٹی رہی لیکن اس پارٹی کی آکسیجن اس کا تابناک ماضی ہے، کوئی تازہ ہوا کا جھونکا نہیں! بے شک راجہ پرویز اشرف سے دوست غصہ ہی کر جائیں لیکن عرض یہ ہےکہ منظور وٹو سے تاحال صدور کو جو رہ گئے یا جاکر واپس آگئے انہیں سوچنا چاہیے کہ زوال کیوں ہے؟ کیا دائیں بائیں "دو سطحی کہانیوں" کو بٹھا کر ایک جید پارٹی چل جائے گی، پنجاب کی قیادت سے گہرے سیاسی فہم والا طبقہ خوش نہیں دائیں بائیں براجمان "خصوصی سیٹیں" ہوں، تو ہوں۔ گورنر ہاؤس میں چند کارکنان سے ملاقات ہوئی گورنر صاحب سے بےلوث محبت اور بےغرض الفت کے ساتھ خوش ہیں۔ ابھی پرسوں ترسوں یوم مزدور تھا اور ہر طرف کہانی یہ دہرائی جا رہی تھی کہ بھٹو نے 1972میں مزدور کے تحفظ کیلئے پہلی لیبر پالیسی بنائی، اور بھٹو نے 1976میں مزدوروں کی پنشن کیلئے اولڈ ایج بینیفٹ انسٹیٹیوشن کو قائم کیا۔ پاکستان کے سیاسی کلچر میں پی ٹی آئی اے کے کارکنان انتھک، مسلم لیگ نواز کے سنجیدہ اور جماعت اسلامی کے فہمیدہ ہیں اگر مسئلہ کہیں اوپر نہ ہو تو سب جمال ہیں اور روشن امید بھی۔ خیر گورنر پنجاب سے اتنی گزارش کریں گے کہ گورنر ہاؤس کی بیورو کریسی و ٹیکنو کریسی نہ سہی تاہم آپ کارکنان اور چانسلری کا مان رکھتے ہیں۔ اس ایجوکیشن کی بھی بڑی دردناک کہانیاں ہیں سو چانسلر کے پرسونا ڈیزگنیٹا کو خدارا توجہ درکار ہے!

سیاست اور جمہوریت سے عشق کیلئے ، جنگ ہو کہ امنگ اس میں سرخروئی کیلئے اعلیٰ تعلیم سے محبت ضروری ہے، اور ہائیر ایجوکیشن تحقیق کی سچی کہانیوں سے اُنس رکھتی ہے افسانوں سے نہیں۔ دیرپا احساس اور پائیدار خیال کیلئے:

کہتے  ہیں  عمر رفتہ کبھی  لوٹتی نہیں

جا مے کدے سے میری جوانی اٹھا کے لا

تازہ ترین