• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کبھی آپ نے سوچا ہے کہ انسان تو اشرف المخلوقات ہے ، پھر انسانی مائیں بچوں کو اسی طرح دودھ کیوں پلاتی ہیں ، جیسےدیگر جاندارپلاتے ہیں ؟ جواب :انسان اندر سے میمل بھی ہے ، میمری گلینڈ رکھتا ہے ۔ کبھی آپ نے سوچا ہے کہ اولاد پیدا کرنے کیلئے انسانی نر اور مادہ سانپوں کی طرح ایک دوسرے کے قریب کیوں جاتے ہیں ؟ اسکی وجہ یہ کہ انسان اندر سے ریپٹائل بھی ہے ۔ انسان جانوروں ہی کی طرح خوراک کا محتاج کیوں ہے ۔ کیا انسان اسی طرح رفع حاجت نہیں کرتا، جیسے جانور کرتے ہیں ؟ انسانوں میں دانت، زبان، خوراک کی نالی، جلد، خون ،معدہ، پھیپھڑے، سب کچھ جانوروں جیسا ہے ۔ موت بھی اسی طرح آتی ہے ۔

حیاتیاتی یا سائنسی طور پر انسان اور جانوروں میں کوئی فرق نہیں ۔تمام انسانوں اور جانوروں کا 99فیصد جسم ہائیڈروجن، نائٹروجن، کیلشیم، فاسفورس، کاربن اور آکسیجن سے بنا ہے ۔ فرق اگر روحانی ہے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ آدم علیہ السلام کی روح باقیوں سے مختلف ہے ۔ اس روح کا وجود بھی ثابت نہیں کیاجا سکتا۔ انسان کا جسم اسی زمین پر بنا ہے ، قرآن کے مطابق اسی زمین کی مٹی اور پانی سے اوردوسرے جانوروں کا بھی۔ مٹی میںہائیڈروکاربنز ہوتے ہیں ، جو زندہ اشیا کا بنیادی جزو ہیں ۔ پانی انہیں تعامل کرنے میں مدد دیتاہے۔

اس کے ساتھ ساتھ سائنسی تحقیقات سو فیصد تصدیق کرتی ہیں کہ انسان کوئی ایک نہیں تھا۔پچھلے ستر اسی لاکھ سال میں کم و بیش بیس اسپیشیز ایسی گزر چکی ہیں جو دو ٹانگوں پہ سیدھی کھڑی ہو کر چلتی اور انسانوں جیسی دکھائی دیتی تھیں ۔ نینڈرتھل کا ڈی این اے شائع ہو چکا جو آج سے صرف تیئس ہزار سال پہلے تک زندہ تھا۔یاد رہے کہ ہم ڈائنا سار کو مانتے ہیں جو ساڑھے چھ کروڑ سال پہلے ختم ہو گئے تھے ۔

ان پندرہ بیس قسم کے انسانوں میں ایسا کوئی بھی نہ تھا جو جنگ و جدل اور علم و فضل میں اس حد تک آگے گیا ہو، جہاں ہم جا چکےہیں ۔ وجہ یہ ہے کہ ان کے اندر آدم علیہ السلام والی عقلی اور علمی صلاحیت نہیں تھی ۔یہ عقل دی گئی تھی خدا کی شناخت کے لیے ، انسان اسے ایٹم بم بنانے میں استعمال کر تا پھر رہا ہے۔ ان میں سے ہومو اریکٹس اور نینڈرتھل آگ استعمال کرنا جانتے تھے اور شاید ہومو نیلیڈی بھی ۔ آدمؑ میں علمی صلاحیت اس لیے تھی کہ ان پر شریعت نازل ہونا تھی ۔

لوگ کہتے ہیں کہ آدم ؑ سے پہلے کوئی انسان نہیں تھا۔ آدم ؑ سے تو وہ انسان شروع ہوا ، جس کی آٹھ ارب اولاد اس وقت زمین میں پھیل چکی ہے ۔ باقی مر کھپ چکے ہیں ۔ ہمیں تو صرف تین لاکھ سال ہوئے ہیں ، ہومو اریکٹس بیس لاکھ سال زندہ رہا ، ہوموہیبلس دس لاکھ سال ۔وہ ہم سے زیادہ کامیاب تھے ۔

قرآن کہتاہے کہ ہم نے پانی سے ہر زندہ شے پیدا کی۔ فاسلز کا ڈیٹا بتاتا ہے کہ 3.8ارب سال قبل پہلا زندہ خلیہ پانی میں پیدا ہوا۔ اربوں سال زندگی پانی میں ہی پیچیدہ ہوتی رہی ۔ 32 کروڑ سال پہلے زندگی ریپٹائلز کی شکل میں خشکی پر اتری ۔ 22کروڑ سال پہلے انہی ریپٹائلز میں سے پہلے میملز پیدا ہوئے ، جن میں مائیں بچوں کو دودھ پلاتی ہیں ۔ 9کروڑ سال پہلے ان میملز میں سے پہلے پرائمیٹس پیدا ہوئے ، جن کا دماغ قدرے بڑا تھا ۔ آج سے اڑھائی کروڑ سال قبل پرائمیٹس میں سے پہلے گریٹ ایپس پیدا ہوئے ۔ تین لاکھ سال پہلے ان گریٹ ایپس میں ہومو سیپین یعنی ہمارے جیسے انسان پید اہوئے ۔

سائنس یہ نہیں کہتی کہ انسان بندر کی اولاد ہے ۔ سائنس کہتی ہے کہ اس دنیا کے تمام جاندارایک دوسرے سے پیدا ہوئے ۔ وہ سب اس ایک واحد خلیے کی اولاد ہیں ، جو 3.8ارب سال پہلے پانی میں پیدا ہوا۔ آدم ؑ کے زمین پہ اتارے جانے کے بارے میں درست نظریہ پروفیسر رفیق کا ہے ۔ اس کے مطابق آدم ؑ کی صرف روح اتری تھی ،زمین پر اس روح کے سواگت کے لیے ایک جسم موجود تھا۔ اوپر والا جسم اوپر ہی رہ گیا تھا۔ آج بھی رحم مادر میں اسی طرح روح نازل ہوتی ہے اور گوشت کا لوتھڑا زندہ انسان بن جاتا ہے ۔

فرشتے چونکہ زمین پہ دو ٹانگوں والوں کی گھمسان کی جنگیں دیکھتے رہے تھے ، اسی لیے حیران تھے کہ اتنی جنگجو قومیں خدا کی نائب کیسے بن سکتی ہیں۔ شیطان کو جب یہ پتہ چلا کہ ہومو سیپین کو خدا زمین پہ اپنا نائب بنا رہا ہے تو حیرت اور غم سے اس کی چیخ نکل گئی ۔ پھرتو وہ ان کی لڑائیوں کو دیکھ دیکھ کر محظوظ ہوتا رہا ہوگا۔کل اگر پتہ چلے کہ باقی سب کو ختم کرنے والا بھی ہومو سیپین ہی تھا تو مجھے کوئی حیرت نہ ہوگی ۔ تین لاکھ سال پہلے جب سیپین پیدا ہوا تو دو ٹانگوں والے 9قسم کے انسان زندہ تھے ۔ آج ایک بھی باقی نہیں ۔

ارتقا بتاتا ہے کہ وہیل کے چار ٹانگوں والے آباؤ اجداد خشکی پہ رہتے تھے ۔ وہ مچھلی نہیں ، میمل ہے ، آج بھی پانی میں سانس نہیں لے سکتی ۔ اسی کو ارتقا کہتے ہیں ۔ اسی کے ذریعے ایک زندہ خلیے سے خدا نے پانچ ارب قسم کی مخلوقات پیدا کیں ۔

سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ جب زندہ چیزوں میں آہستہ آہستہ تبدیلیوں سے انسان بن گیا تو اب کیا ثبوت ہے کہ یہ سب اپنے آپ نہیں ہوا ؟بظاہر تو یہ سب اپنے آپ ہی ہو رہا ہے ۔جواب : ایک میدان میں اگر اینٹیں ، ریت ، سیمنٹ اور سریا پڑا ہوتوایک طوفان اسے اپنے آپ ایک نفیس عمارت میں کبھی نہیں بدل سکتا۔ انسان کا وجود وہی نفیس عمارت ہے ۔نتائج چیخ چیخ کر بتا رہے ہیں کہ پیچھے کوئی بہت بڑا منصوبہ ساز ہے ۔

تازہ ترین