اسلام آباد ہائی کورٹ میں دورانِ سماعت 4 لاپتہ بھائیوں کی والدہ کمرہ عدالت میں روتے ہوئے گر گئی۔
اسلام آباد ہائی کورٹ میں جسٹس محمد آصف نے چار لاپتہ بھائیوں کی بازیابی سے متعلق کیس کی سماعت کی۔
اس دوران لاپتہ بھائیوں کی والدہ کمرہ عدالت میں روتے روتے گرگئیں۔ لیڈی پولیس اور خواتین وکلاء نے خاتون کو پانی پلایا۔
درخواست گزار کے وکیل نے کہا کہ ایک سال 4 ماہ ہو چکے ہیں، لاپتہ بھائیوں کا کچھ پتہ نہیں چلا۔
جسٹس محمد آصف نے پولیس سے سوال کیا کہ کیس میں کیا پیش رفت ہے؟
ڈائریکٹر لیگل اسلام آباد پولیس نے کہا کہ کوششیں جاری ہیں، سیف سٹی راولپنڈی سے بھی مدد لی گئی ہے، اسپیشل انویسٹی گیشن ٹیم بنائی تھی۔
درخواست گزار کے وکیل نے کہا کہ ہم نے 3 پولیس اہلکاروں کو نامزد کیا، ان کو گرفتار نہیں کیا گیا۔
ڈی آئی جی اسلام آباد پولیس نے کہا کہ پولیس نے ان کو نوٹس کیا لیکن وہ تفتیش میں شامل نہیں ہوئے، شاملِ تفتیش نہ ہونے پر اب ہم اُن کی گرفتاری کے وارنٹ لیں گے۔
جسٹس محمد آصف نے کہا کہ اب تک وارنٹ لے لینے چاہیے تھے یہ بار بار عدالت میں پیش ہو رہے ہیں، آپ کے ساتھ اور میرے ساتھ بھی ایسا ہو سکتا ہے، پھر ہم کیا کریں گے۔
درخواست گزار کے وکیل نے کہا کہ پنجاب پولیس اسلام آباد سے بندے اٹھا کر کیسے لے گئی۔
جسٹس محمد آصف نے کہا کہ ہمیں پولیس سے اُمیدیں ہیں لیکن آپ کچھ نہیں کر رہے، ہمارے پاس ہر تین چار دن بعد کیس آتا ہے کہ بندہ غائب ہو گیا۔
ڈائریکٹر لیگل اسلام آباد پولیس نے کہا کہ لوگ خود چلے جاتے ہیں اور تاثر دیا جاتا ہے کہ غائب کر دیا گیا۔
جسٹس محمد آصف نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ ہم اس کیس میں تفصیلی آرڈر جاری کریں گے۔
جس کے بعد اسلام آباد ہائی کورٹ نے کیس کی سماعت ملتوی کر دی۔