ثانیہ انور، کراچی
مجھے یہاں نوکری کرتے تین سال ہوگئے ہیں، اِس عرصے میں شاید ارد گرد تو اتنا نہیں بدلا، لیکن مَیں اندر سے بہت بدل گئی ہوں۔ یہاں اسپتال میں استقبالیہ پر ملازمت بھی بس اتفاقاً ہی مل گئی تھی۔ اِس کی صُورت بھی یوں بنی کہ مجھے اسپتال کے پڑوس میں واقع اسکول میں اپنے تین بچّوں کو صُبح چھوڑنا اور دوپہر کو لینا ہوتا تھا، آنے جانےکے چار چکروں کے بجائے بہتر یہ لگا کہ مَیں یہ وقت اسپتال میں نوکری کر کے گزار لوں۔
شروع شروع میں تو مَیں، بہت پُرجوش تھی۔ تن خواہ گو کم تھی، تقریباً آدھی آنےجانےکے کرائے ہی میں نکل جاتی، کچھ زیادہ نہیں بچتا تھا۔ لیکن مجھے حیرت اس بات پر تھی کہ مجھے ہمیشہ یہ باور کروایا گیا کہ مَیں یہ نوکری شوقیہ کر رہی ہوں اور دوم، مجھ پر ایک طرح سے احسان کر کے اِس کی اجازت دی گئی ہے۔ تو پھر وہ پیسے، جو بلاضرورت تھے، میرے پاس جمع ہونے چاہیے تھے، آخرخرچ کہاں اور کیوں ہو جاتے تھے۔ خیر، یہ تو ایک طرح سے بے کار کی بحث ہے۔
میری پوری کوشش کے باوجود بے چارے بچّوں کو اکثر چُھٹی کے بعد میرا انتظار ہی کرنا پڑتا اور اُنہیں یوں گرمی، دھوپ میں خوار ہوتا دیکھ کر میرا دل کٹ جاتا۔ گھر پہنچتے ہی مَیں دوپہر کے کھانے اور گھر سمیٹنے کی فکر میں لگ جاتی۔ پھر بچّوں کو ہوم ورک کروانا ہوتا اور رات کے کھانے کی تیاری بھی کرنی ہوتی۔ برتن، کپڑےدھونا، استری کرنا الگ ذمّے داری۔ اتنی مصروفیات اور وقت کی تنگی میں مہمان داری توکُجا، خوشی، غمی، عید تہوار پر بھی کہیں آنا جانا جنجال ہی لگتا۔
ہاں، تو مَیں کہہ رہی تھی کہ مَیں بہت تھک گئی ہوں، جذباتی طور پر بھی اور جسمانی طور پر بھی۔ ہر روز بلکہ ہر گھنٹے بلکہ ہر گھنٹے کے ہر منٹ پر نئے لوگوں سے واسطہ پڑتا ہے۔ وہ لوگ، جو بہت پریشان، دُکھ، تکلیف اورعجلت کا شکار ہیں اور اُن کے رویے اور برتاؤ بھی عام حالات کے مقابلے میں بہت مختلف ہوتے ہیں۔ انسان اندر سے جیسا بھی ہو، وہ بظاہر اپنے آپ کو اچھا ثابت کرنے کی کوشش کرتا ہے یا یوں کہہ لیں، خُود پر ایک ملمّع چڑھا رکھتا ہے، لیکن جب وہ خُود یا اُس کا کوئی عزیز کسی درد، اذیت میں ہو، تو اِس بے بسی میں اچھے اچھوں کی حالت پتلی ہو جاتی ہے۔
ہر ایک بس یہ چاہتا ہے ہےکہ اوروں کو چھوڑ کے سب سے پہلے اُسی کی خدمت میں پیش ہوا جائے، جیسے اُس کی مصیبت ہی دنیا کی سب سے بڑی مصیبت ہے۔ ایسے میں عموماً لوگ بہت بے صبرے ہوجاتے ہیں۔ کچھ اپنا طمطراق بھول کر رقیق القلب بھی ہو جاتے ہیں، جب کہ کچھ تحمّل مزاج، مہذّب لوگ لڑنے مَرنے پر آمادہ نظر آتے ہیں، یعنی بیماری صرف مریض ہی کی آزمائش نہیں، لواحقین کےرویوں کا بھی امتحان ہوتی ہے۔
یوں بھی ہوتا ہے کہ صُبح اسپتال میں داخلے کے وقت آپ پر غصّہ کرنے والے، دوپہر کو آپ کی خوشامد کر رہے ہوتے ہیں۔ انداز کچھ یوں ہوتا ہے کہ ’’اب بدقسمتی سے آپ لوگوں سے غرض پڑ گئی ہے اور آپ کے بغیرکام بھی نہیں ہو سکتا، لہٰذا مہربانی کریں۔‘‘ بہرطور یہ طے ہے کہ سب جلد سے جلد اسپتال، عملے، ڈاکٹروں اور دواؤں غرض اسپتال سے جُڑی پریشان کن یادوں تک سے جان چھڑوانا چاہتے ہیں۔ کچھ لوگ ہماری غلطیوں تک کو قسمت کا لکھا سمجھ کر نظر انداز کر دیتے ہیں، تو زیادہ تر چھوٹی چھوٹی باتوں کا بتنگڑ بنا لیتے ہیں۔
یہ تو یقینی ہے کہ مریض جس ذہنی وجسمانی عذاب سے گزر رہا ہوتا ہے، اُس کے ساتھ آنے والے اُس کیفیت کو کماحقہ نہیں سمجھ سکتے اور تیمار داروں پر جو بیت رہی ہوتی ہے، اسپتال کا عملہ بعینیہ وہ محسوس نہیں کر سکتا۔ البتہ مختلف تکالیف میں مبتلا بیمار، پریشان، اُمید و نااُمیدی کے بیچ لٹکے ہوئے لوگوں کے درمیان ہمہ وقت رہنے سے ہم اسپتال والوں کی دماغی حالت بھی دگرگوں ہو جاتی ہے۔ گرچہ ہمیں اِس کی عادت ہوجانی چاہیے، مگر ایک چڑچڑاہٹ، بے کیفی، مسلسل ذہنی و جسمانی تھکن ہمیں توڑ کے رکھ دیتی ہے۔
میرا خیال ہے کہ میری قوتِ برداشت کا بھی آخری نقطہ آچکا تھا۔ ویسے تو میرا پچھلے ڈیڑھ سال سے یہی خیال تھا، لیکن اب ایسا لگتا کہ میری میز کے اوپر تاروں کے ڈبےسے نکلتے، ہوا میں معلق کالے، سفید، پیلے، لال تار میرا منہ چڑا رہے ہیں۔ سامنے سے کالی بدرنگ وردی میں خاکروب کچرے کی ٹوکری دھکیلتا ہوا جاتا، تو اُس کے پیروں کے گھسٹنے کی آواز سے دھیان ہٹانا مشکل ہو جاتا۔ ای سی جی مشین کو ترتیب دیتی نرس کا سفید لباس زیادہ نیل کی وجہ سے یوں لگتا، جیسے گہرے نیلے پلٹاوے کا رنگ نکل کر پورے کپڑوں پر پھیل گیا ہو۔
چائے والے کی چائے کا کپ میز پر رکھنے کی آواز بھی ایسے محسوس ہوتی، جیسے وہ اپنے پیلے دانت کچکچا رہا ہو۔ انتظار گاہ میں دو دو تین تین گھنٹے اپنی باری کا انتظار کرتے مریض دیکھ کے لگتا، جیسے یہ صرف یہ دیکھنے آئے ہیں کہ ہم نے کسی کو اُن کی باری سے پہلے تو اندر نہیں بھیج دیا۔ جیسا کہ کچھ دوستی کر کے یا کچھ بیماری کی شدت بڑھا چڑھا کربیان کر کے یا کچھ غصّہ کرکے جلدی ڈاکٹر کے پاس جانے کی کوشش کرتے ہیں۔
سچ تو یہ ہے کہ مریض اور عملہ دونوں ہی اسپتال سے بھاگ جانا چاہتے ہیں۔ ہر دفعہ نئے لوگوں کے ساتھ اپنا دماغ کھپاؤ، اُن کی بات سمجھو، اپنی سمجھانے کی کوشش کرو۔ اُن کے ساتھ ہم دردی اور مدد کے جذبے سے کام کرو، مگر دوسری جانب سے صرف شکایات یا پھر وہ اس ہم دردی اور احساس کو بھی ملازمت کا حصّہ سمجھ کر اپنا حق جانیں، کام نکلنے کے بعد ایسے نظر انداز کر دیں کہ جیسے یہاں کوئی انسان نہیں روبوٹ بیٹھا ہے۔ اب ان سب باتوں سے طبیعت سخت اوبنے لگی تھی۔ ہو سکتا ہے، مَیں ہی کچھ جذباتی ہو کر زیادہ توقعات وابستہ کر رہی ہوں، لیکن کیا زندگی میں کسی کا مُسکرا کر شکریہ کہنا کچھ زیادہ امید کرنا ہے۔
غالباً گھر اور اسپتال میں کام کی زیادتی، اوپر سے ناقدری نے مجھے چڑچڑا سا کر دیا ہے یا مَیں شاید ضرورت سے زیادہ ہی سوچتی، محسوس کرتی ہوں۔ ہر روز بدلتے مریض، بدلتے لواحقین حتیٰ کہ ہر شفٹ کے ساتھ بدلتے اہل کار اور ساتھی، اجنبیت اور بے ثباتی کا احساس بڑھا دیتے ہیں۔ کسی کے پاس کسی کے لیے فرصت ہے، نہ کسی دوسرے سے غرض، کوئی دوست، غم گسار نہیں، جو صرف ہماری بات ہی سُن لے کہ جی کا بار ہلکا ہو جائے۔
خیر، اِس نوکری کے تابوت میں آخری کیل شور مچاتے اُس افغانی نے ٹھونکی، جو قد بُت اور شکل و صُورت سے تو آٹھ دس سال کا بچّہ معلوم ہو رہا تھا، مگر اُس کی مونچھیں اور ٹھوڑی پر اُگی داڑھی اُس کی عُمر سے متعلق تذبذب کا شکار کر رہی تھی۔ عام طور پر انسان کو جو چیز سمجھ نہیں آتی، اُس سے کراہیت یا خوف کھانے لگتا ہے۔ مجھے عجیب وحشت سی ہونے لگی۔ ایسا لگ رہا تھا کہ وہ بہت تکلیف میں ہے۔
مسلسل چیخ چلّا رہا تھا، شاید کسی بات پر اصرار کر رہا تھا۔ اُس کی زبان میری سمجھ سے باہر تھی، صرف ’’نہ…نہ…نہ‘‘ سمجھ آ رہا تھا۔ اُس کی زرد رُو، چہرے پر مُردنی لیے ماں اِس احساس کے زیرِ اثر کہ اُس کے یوں چلّانے سے سب پریشان ہورہے ہیں، اُسے بہلا پُھسلا کرچُپ کروانے کی کوشش کرتی، تو وہ ضد کے انداز میں ہاتھ چلا چلا کر اُسے مارنے لگتا۔ مجھے اُس کی ماں پر ترس آنے لگا کہ وہ اُسے کیسے سنبھالتی ہوگی، جب کہ اُس کے دائیں بائیں کھڑے دوبچّے اُس کی چادر کھینچ رہے تھے، اور ایک اور کی آمد بھی متوقع تھی۔
وہ اپنے آپ کو سنبھالتی، چھوٹے بچّوں کو پکڑتی، بڑے لڑکے کی جانب متوجّہ ہونے کی کوشش کرتی۔ اُسے دیکھ کر مَیں یہی سوچتی رہی کہ ہرعورت کی سب سے بڑی خوشی، اُس کی اولاد ہی اُس کی سب سے بڑی آزمائش بھی ہے، جس کے لیے اُسے اپنی ذات کو یک سر بُھلانا پڑتا ہے۔ میرا رنج، اُس بے چاری کی بے بسی، مشقّت و اذیّت دیکھ کرخوف میں بدلنے لگا۔ ہمارے عملے کے سب سے وجیہ، خوش وضع، جسیم رکن نے حالات کی نزاکت دیکھتے ہوئے بچّے سے پشتو میں بات کر کے اُسے پُرسکون کرنے کی کوشش کی، مگر کچھ دیر بعد وہ بھی ناکام ہو کر واپس آگئے۔
وہ ایئرکنڈیشن میں ہونے کے باوجود پسینے میں نہا گئے تھے، خفّت میں ماتھے سے پسینے کے قطرے صاف کرتے حواس باختگی میں پہرے دار کے ہاتھ سے اُس کی چائے لے کر پینے لگے۔ تھوڑی دیر بعد اس لڑکے کا باپ ہال میں داخل ہوا اور دو تین منٹ کی گفت و شنید کے بعد وہ یورین بیگ لگا لڑکا، وہیل چیئر پر بیٹھنے پہ راضی ہو گیا۔ عجیب بات تھی کہ اتنی دیر تک اپنے شور سے ہم سب کو کانٹوں پر گھسیٹنے والا اب بالکل خاموش تھا۔
مَیں فیصلہ نہ کر پائی کہ آیا وہ واقعی تکلیف کا شکار تھا یا عادتاً یہ سب کر رہا تھا کہ عموماً بچّے ماؤں سے زیادہ لاڈ اٹھواتےاور باپ کے سامنے سیدھے ہو جاتے ہیں۔ پھر وہ لوگ اُس کے کچھ ٹیسٹ کروانے نچلی منزل پر بنی لیبارٹری چلے گئے اور مَیں اپنی ملازمت کا وقت ختم ہونے کے بعد، جلدی جلدی اس ندامت میں گرفتار کہ بچّے لینےمیں دیرہو رہی ہے، لفٹ کی جانب چل دی۔
اسپتال کی تعمیری بناوٹ کچھ ایسی تھی کہ راہ داری میں، جہاں لفٹ کےدروازے تھے، اُن کے سامنے ہی سیڑھیاں بھی تھیں۔ ابھی مَیں پہلی منزل پرکھڑی یہی سوچ رہی تھی کہ لفٹ کا انتظار کروں یا سیڑھیوں کا استعمال کروں کہ وہی خاندان وہیل چیئر پر غُل مچاتے لڑکے کے ساتھ لفٹ سے برآمد ہوا۔ وہ لڑکا جیسے کسی بات پر شاید انجیکشن کے ذریعے خون نکالے جانے پر ’’سوئی سوئی‘‘ کہتا غصّے سے بھرا ہوا وہیل چیئر سے اُٹھ کر بھاگنا چاہتا تھا۔
اُس کے زور کے آگے باپ بھی بےاختیار ہوا جا رہا تھا۔ ماں اُسے چمکار رہی تھی، مگر وہ برانگیختہ ہو کر ہاتھ پاؤں چلا رہا تھا۔ ایک دفعہ پھر وہی شور ہنگامہ سُن کر مجھ پر تشنّج کی سی کیفیت طاری ہونے لگی، حالاں کہ لفٹ آپریٹر نے کہا بھی کہ ’’ابھی لفٹ اوپر دوسری منزل پرجارہی ہے، نیچے جانے کے لیے واپسی میں آپ کولے لوں گا۔‘‘ مَیں نے گھبراہٹ میں اُس کی بات سُنی، اَن سُنی کر دی اور لفٹ میں گھس گئی۔ مشکل سے دو منٹ کے بعد جب لفٹ کا دروازہ گراؤنڈ فلور پر کُھلا توسامنےایک دل دہلا دینے والامنظر تھا۔
وہ لڑکا یقیناً ماں باپ سے بےقابو ہو کر بھاگا ہوگا اور حادثاتی طور پر سیڑھیوں سے لڑھک کر گراؤنڈ فلور کے فرش پر آچُکا تھا۔ اور اب سیڑھیوں کے سامنے اپنے خاندان اور دوسرے لوگوں کے حلقے میں فرش پر ساکت پڑا تھا۔ مَیں دُکھ اورخوف سے لرزتی، بغیر رُکے دوبارہ کبھی اُس اسپتال میں واپس نہ آنے کے لیے دروازے کی جانب بھاگی۔ میری نگاہوں میں اپنے بچّوں کی معصوم، منتظر شکلیں گھوم گئیں۔ اُس دُکھیاری ماں کی چیخ و پکار اور پشتو میں بین کرتی آوازیں میرا پیچھا کررہی تھیں۔ اور…میری سمجھ میں صرف ’’نہ…نہ…نہ‘‘ آ رہا تھا۔