سپریم کورٹ آف پاکستان کے آرمی ایکٹ کی اصل شکل میں بحالی کے فیصلے پر جسٹس امین الدین کی سربراہی میں 5 ججز نے اکثریتی شارٹ آرڈر جاری کر دیا۔
اکثریتی فیصلہ دینے والوں میں جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس حسن اظہر، جسٹس مسرت ہلالی، جسٹس شاہد بلال شامل ہیں۔
اکثریتی مختصر فیصلے کے مطابق 4 ججز کی اکثریت سے 23 اکتوبر 2023ء کو آرمی ایکٹ سیکشن ٹو ون ڈی ون اور ٹو ون ڈی ٹو کو آئین سے متصادم قرار دیا گیا تھا، سیکشن 59 کی شق 4 کو بھی غیر آئینی قرار دیا گیا تھا۔
اکثریتی مختصر فیصلے میں کہا گیا ہے کہ آرمی ایکٹ کی شق ٹو ون ڈی ون اور ٹو ون ڈی ٹو کو بحال کیا جاتا ہے، آرمی ایکٹ کے سیکشن 59 (4) کو بھی بحال کیا جاتا ہے۔
5 ججز کے اکثریتی شارٹ آرڈر میں کہا گیا ہے کہ بلا شبہ 9 مئی کے واقعات قابلِ سزا جرم ہیں تاہم شفاف ٹرائل کےلیے اپیل بنیادی حق ہے، اپیل کے حق سے متعلق آرٹیکل 10 اے بالکل واضح ہے۔
اکثریتی مختصر فیصلے میں کہا گیا ہے کہ ہائی کورٹ میں اگر فوجی ٹرائل کے خلاف اپیل کا حق مل جائے تو آزادانہ اپیل میں ہائی کورٹ حقائق کا جائزہ لے سکتی ہے، سماعت کے دوران بھی اٹارنی جنرل نے کہا کہ وہ آزادانہ اپیل کے حق کے لیے حکومت سے ہدایات لے کر بتائیں گے، اٹارنی جنرل نے اپنی دلیل کے دفاع میں ایک عدالتی فیصلے کا حوالہ بھی دیا۔
سپریم کورٹ نے اکثریتی مختصر فیصلے میں کہا ہے کہ آئین کے آرٹیکل 233 کے تحت بنیادی حقوق کی معطلی کا کوئی سوال نہیں، اٹارنی جنرل کے مطابق 9 مئی کو ہونے والے حملے تاریخ میں سیاہ ترین لمحے ہیں۔
اکثریتی مختصر فیصلے میں کہا گیا ہے کہ سزا یافتہ مجرم کا حتمی فیصلہ ہائی کورٹ میں اپیل کے فیصلے سے مشروط ہو گا، شارٹ آرڈر کی کاپی اٹارنی جنرل، سیکریٹری جنرل قومی اسمبلی کو بھجوائی جاتی ہے۔
5 ججز نے اکثریتی مختصر فیصلے میں کہا ہے کہ اکثریتی شارٹ آرڈر کی کاپی وزارتِ قانون و انصاف کے سیکریٹری کو بھی عمل درآمد کے لیے بھجوائی جاتی ہے، اکثریتی شارٹ آرڈر کی کاپی سیکریٹری دفاع، سیکریٹری لاء اینڈ جسٹس کمیشن کو بھی عمل درآمد کے لیے بھجوائی جاتی ہے۔
واضح رہے کہ آج سپریم کورٹ آف پاکستان نے آرمی ایکٹ کو اس کی اصل شکل میں بحال کر دیا ہے۔
سپریم کورٹ نے سویلین کے کورٹ مارشل کیس میں انٹرا کورٹ اپیلوں پر فیصلہ سنا دیا، عدالتِ عظمیٰ نے یہ فیصلہ پانچ دو کے تناسب سے سنایا۔
سپریم کورٹ نے آرمی ایکٹ کی کالعدم قرار دی گئی شقیں بھی بحال کر دیں، جسٹس جمال مندوخیل اور جسٹس نعیم اختر افغان نے فیصلے سے اختلاف کیا ہے جبکہ اکثریتی فیصلہ دینے والے ججوں میں جسٹس امین الدین، جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس مسرت ہلالی اور جسٹس حسن اظہر رضوی شامل ہیں۔
سپریم کورٹ کی جانب سے کہا گیا ہے کہ تفصیلی فیصلہ بعد میں جاری کیا جائے گا۔
سپریم کورٹ نے وزارتِ دفاع اور دیگر اپیلیں منظور کر لیں اور 23 اکتوبر کا فیصلہ کالعدم قرار دے دیا۔
فیصلے کے مطابق آرمی ایکٹ کی شق 2 (1) (ڈی) (ون)، 2 (1) (ڈی) (ٹو) اور 59 (4) بحال کر دی گئی ہیں۔
فیصلے میں کہا گیا ہے کہ حکومت 45 دن میں اپیل کا حق دینے کے حوالے سے قانون سازی کرے، ہائی کورٹ میں اپیل کا حق دینے کے لیے آرمی ایکٹ میں ترامیم کی جائیں۔
فوجی عدالتوں کے فیصلے کے خلاف اپیل کا حق دینے کے لیے معاملہ حکومت کو بھجوا دیا گیا ہے۔