پروفیسر خالد اقبال جیلانی
جدّت بذاتِ خود ایک مستحسن جذبہ اور انسان کی ایک فطری خواہش ہے اگر یہ جذبہ نہ ہوتا تو انسان پتھر کے زمانے سے ایٹم کے دور تک نہیں پہنچتا۔ اسلام نے بحیثیت ایک فطری ، سائنٹفک اور ہر دور کے دین (نظام حیات ) جدّت پر چاہے فکر و فلسفہ ہو یا نت نئی سائنسی ایجادات بطور جدّت کے کوئی پابندی عائد نہیں کی، بلکہ بعض اوقات تو اسلام نے جدّت کو مستحسن قرار دیا اور اس کی حوصلہ افزائی کی، ایسا ہر گز نہیں ہے کہ اسلام مادی ترقی یا جدید سائنسی ایجادات کا مخالف ہو، بلکہ اسلام ہر اس نئی سائنسی ایجاد کا خیر مقدم کرتا ہے، جو انسان کی مادی و روحانی ، ذہنی و اخلاقی علمی و شعوری ترقی کے لئے ممدو معاون ثابت ہو، لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ جس طرح جدت پسندی نے انسان کو بام عروج تک پہنچا یا ہے، اسی طرح بہت سی نفسانی برائیوں میں بھی مبتلا کیا اور بہت سے تباہ کن نقصانات سے بھی دوچار کیا ہے۔
جدّت پسندی ایک دو دھاری تلوار ہے جو انسان کو فائدہ پہنچانے کے کام بھی آسکتی ہے اور اسے ہلاکت میں بھی مبتلا کر سکتی ہے ،لہٰذا کوئی جدید چیز یا نئی ایجاد نہ محض نئی ہونے کے بناء پر قابل قبول ہے اور نہ محض نئی ہونے کی بناءپر رد کرنے کے قابل، اس کے بعد سب سے اہم سوال یہ ہے کہ اسلام کے نزدیک وہ کیا معیار ہے جس کی بنیاد پر یہ فیصلہ کیا جا سکے کہ فلاں جدّت یا نئی ایجاد مفید اور قابل قبول ہے اور فلاں مضر اور نا قابل قبول، کسی بھی شے یا عمل کی اچھائی یا برائی کا معیار اس شے یا عمل کا مقصد یا کار آمد ہونا نہیں ہے۔ اچھائی کیا ہے؟ برائی کیا ہے؟ یہ بات ہم عقل سے طے نہیں کر سکتے ۔ اچھائی یا برائی کا معیار شریعت ہے جسے اللہ اور اس کا رسول ﷺ اچھا فرمائیں ،وہ اچھا ہے، جسے اللہ اور اس کا رسول ﷺ برا کہیں، وہ یقیناً برا ہے۔
شریعت کے نزدیک اچھائی اور برائی کی کسوٹی ’’تقویٰ ‘‘ ہے۔ تقویٰ کا مفہوم یہ ہے کہ’’ اللہ کے حکم کی اطاعت و فرماں برداری کرنا، اللہ کے حکم کی خلاف ورزی سے بچنا (پرہیز گاری) اللہ کے حکم کی نگہداشت و حفاظت کرنا اور اللہ کے حکم کی خلاف ورزی کے برے نتائج سے ڈرنا۔ ‘‘ اسی کو ’’حدود اللہ‘‘ کہا جاتا ہے۔
اس تمہیدی گفتگو سے ہمارا مقصد دور حاضر کی ایک اہم ترین سائنسی ایجاد ’’موبائل فون‘‘ کے حسن و قبح کو احکام شریعت کی رو سے جانچنا ہے۔ اس میں کوئی شک، اختلاف یا دو رائے نہیں کہ موبائل فون دور حاضر کی ایک ایسی سائنسی ایجاد ہے، انسان کو قدرت کی عطا کردہ ذہنی و عقلی صلاحیتوں کا وہ شاہ کار ہے کہ جس نے زمین کے ہر خطے، ہر چپے، ہر شعبۂ حیات میں ہر انسانی طبقے کی نہ صرف بھر پور توجہ حا صل کی ہے، بلکہ بڑی برق رفتاری سے ہماری زندگی کے ہر ہر سانس میں ، ہماری خلوت و جلوت اور ہمارے رگ و پے میں سرایت کر گیا۔
اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ موبائل فون کی ایجاد نے طویل ترین زمینی فاصلوں بلکہ مشرق و مغرب، شمال و جنوب، زمین سے خلاء تک کو سمیٹ کر انسانی ہاتھ کی انگلیوں پر لا کر رکھ دیا ہے۔ گہرے سمندروں اور فلک بوس پہاڑوں، جزیروں اور بر ا عظموں میں پھیلے ہوئے انسانوں کے درمیان جو دیوار کھڑی کر رکھی تھیں، انسانی ذہن کی اس اختراع اور ایجاد نے ان دیوارں کو منہدم کر کے رکھ دیا ہے۔ صرف یہی نہیں، بلکہ دور حاضر کی اس ایجاد نے جہاں تہذیب و ثقافت پر بھی بے پناہ اثرات مرتب کئے ہیں، وہیں ہمارے علمی و ثقافتی ورثے ، ہمارے ادبی لٹریچر پر بھی گہرے نقوش ثبت کیے ہیں۔
موبائل فون کے استعمال اور وسعت و رسائی کا کیا عالم ہوگا؟ بلکہ لمحہ فکریہ یہ ہے کہ تمام اخلاقی قدروں سے آزاد اور تہذیبی حدود و قیود سے بے نیاز اس اہم انسانی ایجاد کا استعمال یوںہی بے محابا جاری رہا تو اور کون سے گھاؤ ہوں گے جو انسان کو سہنے پڑیں گے۔ اس لئے بحیثیت قوم ہمیں اس وقت یہ فیصلہ کرنا از حد ضروری و لازمی ہے کہ وہ کیا اخلاقی حدود و ضوابط ہو سکتے ہیں جو عصر حاضر کی اس نعمت کے درست استعمال کے لئے ہمیں اپنے پیش نظر رکھنا ہوں گے۔
اسلام کی بنیادی تعلیمات سے آگاہی رکھنے والا ہر ذی شعور اس حقیقت سے بخوبی آگاہ ہے کہ اسلام کی نظر میں انسان کی روحانی ترقی مادی اور جسمانی ترقی پر ہر لحاظ سے مقدم ہے، اس لئے وہ کسی ایسی چیز کے استعمال کو درست قرار نہیں دیتا جس کے اندر چند مادی یا وقتی دنیاوی فوائد تو ہوں، لیکن ان فوائد سےبرائی، فحاشی و عریانی اور بے حیائی کا سیلاب امڈ آئے، سائنس و ٹیکنالوجی کی کوئی بھی ایجاد ہو، وہ محض آلہ ہے ،اس آلے کے استعمال کا حتمی فیصلہ ساز انسان ہیں، لہٰذا موبائل فون کے آلے کو استعمال کرتے ہوئے ہمیں یہ فیصلہ کرنا ہوگا کہ ہم اسے حدود اللہ کے اندر رہ کر استعمال کریں یا حدود اللہ کو پامال کر کے استعمال کریں۔
یعنی موبائل فون کا درست شرعی استعمال اللہ کے حکم کے اصولوں کے مطابق ہی ہوگا۔ اگر ذہن و قلب میں یہ احساس موجود ہو کہ موبائل فون کی ایجاد اللہ کی طرف سے انسان کو عطا کردہ ’’خدا داد‘‘ صلاحیتوں کا مرہون منت ہے تو اس احساس کی موجودگی میں اس کے استعمال میں موجود ایسی بے شمار بے احتیاطوں کا ازالہ خود ہوجائے گا۔ جو ’’حدود اللہ‘‘ کو پامال اور اصول ’’تقویٰ‘‘کی خلاف ورزی کا موجب بنیں۔
دل میں احساس تشکر جنم لے گا اور اللہ کے حضور جو اب دہی کا تصور اس کے ناروا، منفی اور فحش استعمال کی راہ میں دیوار بن کر کھڑا ہو جائے گا، لیکن اگر کوئی شخص اسے عطیۂ خداوندی خیال کرنے کے بجائے محض انسانی ایجاد یا اپنے قوت بازو کا کرشمہ تصور کرنے لگے تو صاف ظاہر ہے کہ ایسے انسان سے یہ توقع عبث اور فضول ہے کہ وہ اس کے استعمال میں کسی احتیاط، کسی اخلاقی پابندی یا قانونی حدود کا روادار ہو، بلکہ وہ تو ہر حد کو عبور کر جانا، اور ہر قانون کو ردّی کی ٹوکری میں پھینک دینا اپنا حق سمجھے گا۔ اس لئے سب سے اہم اور ضروری بات یہ ہے کہ دور حاضر کی اس ایجاد یا نعمت کو جسمانی و ذہنی صلاحیتیں بخشنے والے’’ربّ اللعالمین‘‘ اور خدائے بزرگ و برتر کی طرف سے عطیہ گردانا جائے اور پھر اس عطیۂ خداوندی کو ایک نعمت کے طور پر استعمال کیا جائے۔
لیکن افسوس ناک امر یہ ہے کہ ہم نے موبائل فون کے بے مقصد و بے فائدہ اور لاحاصل استعمال میں عالمی ریکارڈ بنائے ہوئے ہیں۔ بہت کم لوگ ہیں جو اس سے علم کی تلاش کر رہے ہیں ، لیکن ان کی تعداد آٹے میں نمک سے بھی کم ہے۔ اس کا سب سے افسوس ناک اورقابل عبرت پہلو یہ ہے کہ موبائل فون کے منفی اور فحش استعمال میں کسی عمر ، جنس اور شخصیات کی کوئی تفریق اور تمیز نہیں ہے۔
قرآن و حدیث میں بے حیائی اور فحاشی کی شدید الفاظ میں مذمت اور وعید موجود ہے۔ سورۂ نور میں ارشاد فرمایا ’’بے شک جو لوگ یہ چاہتے ہیں کہ ایمان والوں کے درمیان (مسلم معاشرے میں) بے حیائی و فحاشی کا چلن عام ہو تو ایسے لوگوں کے لئے دنیا و آخرت میں درد ناک عذاب ہے ‘‘۔
’’بندہ جب حیاء نا کرے تو جا چاہے کرتا پھرے‘‘(مفہوم حدیث) ایک اور حدیث میں رسول اللہ ﷺ نے ’’حدود اللہ‘‘ کو پامال کرنے والوں کے عبرت ناک انجام کو ان الفاظ میں بیان فرمایا ’’میں اپنی امت کے ان لوگوں کو پہچانتا ہوں جو حشر کے میدان میں تہامہ پہاڑ کے برابر نیک اعمال لے کر آئیں گے، لیکن اللہ ان کے نیک اعمال کی طرف نظر بھی نہیں فرمائے گا اور ان کے نیک اعمال کو کچرے کوڑے کی طرح ذرات بنا کر اڑا دے گا۔‘‘ صحابہؓ نے عرض کی، یا رسول اللہ ﷺ وہ لوگ کون ہوں گے؟
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ یہ وہ نیکو کار ہوں گے جو اپنی تنہائیوں میں حدود اللہ کو پامال کیا کرتے تھے‘‘۔ (سنن ابن ماجہ) غور کیجیے، آج ہم میں سے ہر شخص بلا تخصیص عمر، جنس ، علم ، حسب و نسب، مقام و منصب موبائل فون کے ذریعے جس طرح حدود اللہ کو پامال کرتا ہے، اسے الفاظ میں بیان کرنے کی ضرورت نہیں۔
طرفہ تماشہ یہ کہ ہمارے ہاتھ میں موجود موبائل فون ہمیں سیکڑوں ہزاروں لوگوں کے درمیان بھی مکمل تنہائی کا ماحول فراہم کرتا ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ ہم انفرادی اور اجتماعی سطح پر موبائل فون اور سوشل میڈیا کے غلط، منفی استعمال اور اس کے بد ترین نتائج کا ادراک نہیں رکھتے ، ضرور رکھتے ہیں، سب جاننے اور سمجھتے ہیں۔
اس بات میں کوئی شک نہیں کہ موبائل فون اور سوشل میڈیا نے قوم کی دینی، اخلاقی اور معاشرتی اقدار کو جس طرح متاثر اور شکست و ریخت سے دوچار کیا ہے، اتنا کسی اور چیز نے نہیں کیا۔ ایک دور تھا کہ جب معاشرے کے ہمارے ہی جیسے لوگ دین سے دوری کی زندگی گزارتے گزارتے ایک دن اپنے ہی ضمیر کی آواز پر اپنی زندگی کا رخ تبدیل کر کے اچھے نیک با عمل مسلمان بن جا یا کرتے تھے ۔ مگر موبائل فون اور سوشل میڈیا کے غلط استعمال کے زیر اثر ہمارے معاشرے میں یہ بات اب بالکل مفقود ہو تی جا رہی ہے۔
آج ہمارے نوجوان لڑکے اور لڑکیاں یا تو دین و اخلاق اور اپنے کردار کی پاکیزگی سے بالکل ہی بے نیاز اور بیگانہ ہیں یا اگر دین و اخلاق اور اپنے کردار و عمل سے کوئی نام نہا د قسم کا تعلق رکھتے بھی ہیں تو موبائل فون اور سوشل میڈیا کا منفی و غلط استعمال ان کے دین و اخلاق سے کسی با معنی اور ٹھوس تعلق کی راہ میں نہایت سخت طور پر حائل ہے۔ اسی وجہ سے معاشرہ اخلاقی بگاڑ کی تمام حدود کو پامال و عبور کر کے تباہی و بربادی کے اس مقام تک جاپہنچا ہے کہ جہاں سے اسے واپس لانا انسانی عقل و بصیرت کی طاقت سے بعید تر نظر آتا ہے۔
مکمل اور ہمہ گیر تباہی سے دو چار ہونے سے پہلے ہمارے پاس اب بھی شاید کچھ وقت ہے کہ ہم اپنے اندر سرایت کر جانے والی اخلاقی برائیوں کے سامنے ایک حقیر تنکے کی طرح بہنے کے بجائے اس برائی کے خلاف صف آراء ہوں اور اپنی نسلوں کی اخلاقی و دینی تباہی کے اس جاری سلسلے کو روکیں۔
یہ اسی صورت ممکن ہے کہ ہم زندگی کے ہر شعبہ اور خصوصاً موبائل و سوشل میڈیا کے حوالے سے ’’تقویٰ‘‘ کو مضبوطی سے حرز جاں بنالیں، ورنہ تو ’’آنکھ جو کچھ دیکھتی ہے لب پہ آسکتا نہیں‘‘ اگر موبائل فون اور سوشل میڈیا کے استعمال میں ہماری روش تبدیل اور اصلاح پذیر ہو کر اللہ اور رسولﷺ کے احکامات کے تابع نہیں ہوتی تو پھر جو اخلاقی دینی ، تہذیبی تباہی رونما ہوگی، وہ ناقابل بیان ہے۔