تفہیم المسائل
سوال: میری شادی کو آٹھ سال ہوگئے ہیں، کچھ عرصہ بعد میرے شوہر کا مجھ سے سلوک ناروا ہوگیا، پانچ سال سے سعودیہ میں ملازمت کررہے ہیں، ایک دو مہینے بعد فون کرتے ہیں، میں جب پوچھتی کہ آپ کال کیوں نہیں کرتے تو بدتمیزی اور بد اخلاقی پر اتر آتے، ان کا رویہ دیکھ کر میں نے کہا کہ آپ گھر واپس آ جائیں تو انہوں نے گھر خرچ بھیجنا بند کر دیا، کچھ ماہ انتظار کیا، پھر ناچار خود ہی کام کرنا شروع کر دیا اور گھر کے معاملات چل پڑے، جب بھی ان سے گھر خرچ نہ دینے اور رابطہ نہ کرنے کی وجہ پوچھتی تو جھگڑا اور گالی گلوچ کرتے، تو میں نے ان سے طلاق کا مطالبہ کیا کہ آپ نے اتنے عرصے میں ہمیں کوئی خرچ وغیرہ نہ دیا اور اب آپ بداخلاقی کا مظاہرہ کرتے ہیں تو وہ کہنے لگے:جو کرنا ہے، کرلو میں طلاق نہیں دوں گا، یہ معاملہ تین سال تک چلتا رہا، لیکن وہ نہ ہی خرچ بھیجتے اور نہ ہی طلاق دی۔
مجھے نہیں معلوم کہ وہ وہاں کیا کام کرتے ہیں، لیکن دو سال قبل خبر ملی کہ انہیں منشیات کے کیس میں گرفتار کر لیا گیا ہے، لیکن یہ معلوم نہیں کہ کتنی سزا ہوئی، جن لوگوں کے ساتھ ان کا رابطہ ہے، ان کے ذریعے بارہا پیغامات پہنچانے کے باوجود بھی وہ اسی بات پر بضد ہیں کہ طلاق تو نہیں میں دوں گا جو کر سکتی ہے کر لے۔
علمائے کرام اور مفتیانِ عظام کی خدمت میں التماس ہے کہ اس صورت حال میں مجھے کیا کرنا چاہیے؟ میرے قریبی لوگوں نے بتایا کہ آپ عدالت سے خلع لے کر عدت گزار کر نکاح کر لیں، کیا مجھے عدالت سے رجوع کرنا چاہیے اور اس کے فیصلے کے مطابق عدت گزار کر نکاح کر سکتی ہوں؟ (قندیل سحر، ڈیرہ غازی خان)
جواب: عام حالات میں خلع زوجین کی باہمی رضا مندی سے ہوتا ہے، جس میں بیوی اپنے مہر کے حق سے دست بر دا رہو کر کہے : ’’تم مجھے اس کے عوض خلع دے دو اور شوہر اس کے مطالبے کو قبو ل کر تے ہوئے کہے: میں نے تمہیں خلع دیا ‘‘، یہ خلع ہے اور طلاق بائن کے حکم میں ہے، البتہ اگر شوہر طلاق دینے یا خلع پر آمادہ نہ ہو اور جج اپنی نگرانی میں دونوں خاندانوں کے ایک ایک بزرگ یا بااثر شخص کو ثالث بناکر انھیں بٹھائے اور کہے: ترجیحی طور پر کوشش کرو کہ نباہ کی کوئی صورت پیدا ہوجائے اور اگر کسی صورت میں یہ ممکن نہیں ہے، تو ’’تسریح باحسان‘‘ کرلو، بیوی مہرسے دست بردار ہوجائے اور شوہر اسے رضامندی سے خلع دے دے، تو قرآن کریم کی رو سے یہ عدالت کا ایک قابلِ تحسین عمل ہوگا۔
بنیادی طور پر عدالت کا اختیار ’’فسخِ نکاح‘‘ (Dissolution of Marriage) کا ہوتا ہے۔ قاضی کو عورت کے دعوے، دلائل اور شواہد سے جب یہ اطمینان ہوجاتا ہے کہ شوہر ظالم ہے، بیوی کو نان نفقہ نہیں دیتا، مار پیٹ کرتاہے اور اس کے حقوقِ زوجیت ادا نہیں کرتا، ایسی صورت حال میں قاضی یا جج نکاح کو فسخ کردیتاہے اور زوجین میں تفریق کردیتا ہے، یہ طلاقِ بائن کے حکم میں ہے۔ موجودہ پاکستانی قانون کے تحت عورت عدالت میں خلع کا دعویٰ دائر کرتی ہے اور عدالت الزامات کو پایۂ ثبوت تک پہنچائے بغیر محض عورت کے دعوے پر اُس کے نفقے اور مہر کو ساقط کرکے خلع کی ڈگری دے دیتی ہے اور بعض اوقات یہ ڈگری یک طرفہ ہوتی ہے، یعنی شوہر عدالت کے طلب کرنے کے باوجود حاضر نہیں ہوتایا عدالت رسمی طورپر Summon(طلبی کے نوٹس) جاری کردیتی ہے، مگر پولیس کو پابند نہیں کرتی کہ اسے ہرصورت میں پابند کرکے عدالت میں پیش کرے۔ ہماری رائے میں یہ عدالتی عمل نہ خلع کی تعریف میں آتاہے اور نہ فسخِ نکاح کی ، مفتیانِ کرام کے لیے اس طرح کے فیصلوں کی توثیق کرنا ممکن نہیں کہ ان کی توثیق کی کوئی شرعی بنیاد نہیں بنتی۔
آپ کے بیان سے معلوم ہوتا ہے: آپ کا شوہر آپ کے رابطے میں ہے، آپ کا فون اٹھاتا بھی ہے اور بات بھی کرتا ہے، لہٰذا وہ لاپتا تو نہیں ہے۔ قرآن کریم کی تعلیم کی روشنی میں آپ ایک مرتبہ دونوں خاندانوں کے بڑوں کو بٹھاکر اُن کے سامنے مسئلہ رکھیں، اگر وہ مسئلے کا کوئی حل نکال لیتے ہیں، تو اللہ کا شکر ادا کریں، آپ کے سوال سے یہ بھی واضح نہیں ہے کہ آیا آپ شوہر کے گھر میں رہتی ہیں یا اپنے والدین کے گھر میں، اگر شوہر کے گھر میں رہتی ہیں، تو سسرالی خاندان کا کوئی ذمے دار شخص آپ کا خرچ اٹھاتا ہے یا نہیں، اگر دونوں طرف کے حَکَم (ثالث) یہ تسلیم کرلیں کہ آپ کا شوہر یا سسرال والے نہ آپ کا خرچ اٹھاتے ہیں، نہ شوہر کے گھر میں آپ کو قیام کی اجازت دیتے ہیں اور پانچ سال سے وہ ملک سے باہر رہتے ہوئے حقوقِ زوجیت بھی ادا نہیں کرتا، تو ان تمام حقائق پر ایک دستاویز مرتب کرکے دونوں طرف کے ثالثوں کے دستخط کرائیں، پھر اس مُصدّقہ دستاویز کے ساتھ فیملی کورٹ سے رجوع کریں۔ عدالت پولیس کے ذریعے ثالثوں کو بلائے، ان کے بیانات ریکارڈ کرلے اور اگر عدالت مطمئن ہوکہ شرعی حدود کے اندر رہتے ہوئے آپ کے لیے ازدواجی زندگی کو جاری رکھنا تقریباً ناممکن ہوگیا ہے اور آپ کے لیے اپنے نفس پر قابو رکھنا اب دشوار ہے۔
پھر جج صاحب ان تمام حقائق وشواہد کو اپنے فیصلے میں درج کرکے قرار دے کہ میری تحقیقات کے مطابق یہ حقائق درست ہیں اور ممکن ہوتو جج صاحب یا اُن کے عملے کا کوئی ذمے دار فون پر یہ تمام الزامات اور تفصیلات آپ کے شوہر کو پڑھ کر سنائے اور وہ ان کا ازالہ کرنے کی ذمے داری ایک مقررہ مدت کے اندر نہ کرے، تو پھر وہ نکاح فسخ کردے، اس صورت میں مفتی صاحبان کے لیے اس کی توثیق کی گنجائش ہوگی۔
شیخ المالکیہ اور شیخ الجامعہ الازہر نے گیارہ معاشرتی مسائل میں امام مالکؒ کے مذہب کی نصوص پر مشتمل ایک فتویٰ جاری کیا،جس کی جامعۃ الازہر کے تمام علماء نے توثیق کی، ان میں حنفی علماء بھی شامل ہیں، اس فتویٰ کو مصر کی وزارتِ اوقاف نے فتاویٰ اسلامیہ میں شائع کیا ہے۔ اس فتویٰ میں علماء ازہر نے فقہ حنفی سے اس پر تصریحات پیش کی ہیں کہ ضرورت کے وقت دوسرے مذہب پرعمل کیا جاسکتا ہے۔
مفتی مالکیہ اور شیخ الجامعہ الازہر نے جن گیارہ صورتوں میں عورت کو خاوند سے طلاق حاصل کرنے کا حق مالکی مذہب کے مطابق بیان کیا ہے، ان کی بابت علامہ غلام رسول سعیدی ؒ لکھتے ہیں: ’’ گیارہویں صورت وہ ہے، جس میں خاوند کے ظلم اور ضرر کی بناء پر قاضی کو طلاق دینے یا نکاح فسخ کرنے کا حکم دیا گیا ہے اور ان دس صورتوں کی دلیل قرآن کریم کی یہ آیت ہے: ترجمہ: ’’ اپنی عورتوں کو حسنِ سلوک سے اپنے نکاح میں رہنے دو، ورنہ شائستگی سے رخصت کردو اور اُنہیں ضرر پہنچانے کے قصد سے نکاح میں روکے نہ رکھو، تاکہ تم اُن پرزیادتی کرو اورجو شخص ایسا کرے گا، وہ اپنی ہی جان پر ظلم کرے گا ،(سورۂ بقرہ:231)‘‘۔
پس عورت کو نفقہ نہ دینا بھی ضرر اور زیادتی ہے، اس پر ظلم کرنا بھی ضرر اور زیادتی ہے، اگر خاوند اس ضرر اور زیادتی سے باز نہ آئے، تو حکام پر واجب ہے کہ ان کے درمیان تفریق کردیں ، (شرح صحیح مسلم، جلد3،ص:1109)‘‘