’’جنگ شروع آپ نے کی ، اختتام ہماری چوائس‘‘ ، بھارت کو بدلہ چکانا تھا، پاکستان کو سزا دینے آئے ، گہرے گھاؤ کھائے ۔ بھارت شکست کے زخم چاٹ رہا ہے ۔ مجھے صرف افواج پاکستان کو شاباش اور تھپکی دینی ہے ۔ کاش بھارت’’آپریشن بندر‘‘ (2019) سے سیکھتا تو’’آپریشن سندور‘‘کی ضرورت نہ رہتی ۔بھارت کو ہر محاذ سفارتکاری ، میڈیا ، تازہ بہ تازہ ملٹری آپریشن پر پسپائی ، سب کچھ دیوار پر کندہ تھا ۔ پہلے ISPR اور افواج کی غیرمعمولی کارکردگی نے قوم کو مبہوت کر رکھا ہے ۔ ذرا ہٹ کے ، میڈیا پر فلسفیانہ بحثیں کہ جیسے مودی نے بھارت کا سیکولر امیج اور انڈین PLURALISM اصول مسخ کیا ۔ برہمن راج یا اکھنڈ بھارت کی خواہش مودی ذمہ دار نہیں ، صدیوں سے ہندو فلسفہ رائج ہے ۔
ایسے بیانیہ کی ترویج میں لاشعوری طور پر ہم عظیم قائد کو جھٹلاتے ہیں ۔ اکھنڈ بھارت صرف RSS کا نہیں کہ ہمیشہ سے ہندو قیادت کا وطیرہ رہا ہے ، کبھی بغل میں چھری اور کبھی ہاتھ میں ننگی تلوار ، مدعا ایک ہی ہندو راج کیسے قائم ہوگا ؟ گاندھی جی ساری اچھائیوں کے باوجود ، ایک مذہبی انتہا پسند ، دل و جان سے ہندو ریاست کے خواب دیکھے ( تفصیلات اور حوالہ جات کسی اور موقع پر ) ۔ عنان اقتدار میں 15 وزرائے اعظم نہرو ، شاستری ، اندرا گاندھی ، راجیو گاندھی تا مودی سرکار ، کونسا دور جب فوجیں چڑھانے میں کمی بیشی کی یا کشمیر پر ظلم و ستم کے پہاڑنہ توڑے ۔ ہندو قیادت کی پست ذہنیت اور تنگ نظری کہ’’کچھ فرق نہیں تھا ان ساروں میں ‘‘، قائداعظم آزاد مملکت لینے پر مجبور ہوئے۔
عظیم قائد کا فرمان’’ قول فیصل‘‘ ہی ، ’’ہندو اور مسلمان دو قومیں ہیں ، ہندوؤں کیساتھ ہماری گزر بسر ناممکن ہے‘‘ ۔ قائداعظم کی ساری زندگی انکی عقل و دانش کا حاصل حصول مسلمانوں کی آزاد ریاست کا حصول بن گیا۔ مت بھولیں کہ عظیم قائد کی جوانی مسلمانوں اور ہندوؤں کو متحد اور یکجا کرنے میں وقف رہی ۔ جنرل ضیاء الحق کے بعد اب جنرل عاصم منیر ایسے آرمی سربراہ جنہوں نے’’نظریہ پاکستان‘‘ یا ’’دوقومی نظریہ‘‘کو سمجھ بوجھ کر مضبوطی سے تھام رکھا ہے ۔ یقین کامل ، دہائیوں بعد جب تعصب کی بھٹیاں سرد ہونگی تو تاریخ جنرل ضیاء الحق اور ( ممکنہ طور پر ) جنرل عاصم منیر کو باوقار اور باعزت مقام دے گی ۔
6 اور 7 کی درمیانی رات بھارت کا ’’آپریشن سندور‘‘کی وجہ وجود ، بھارت اپنے ہی جھوٹے بیانیہ کا یرغمالی بن گیا ۔ آپریشن کے بغیر چارہ نہ تھا کہ’’ نہ پائے رفتن نہ جائے ماندن‘‘ ۔ قبل ازیں’’ آپریشن بندر ‘‘(2019 )کی ناکامی کو نریندر مودی نے اپنی پارلیمانی تقریر میں تسلیم کیا ، اسکا ذمہ دار ’’رافیل‘‘ طیاروں کی عدم دستیابی بتایا ۔ جولائی 2020میں رافیل طیارے بھارتی ایئرفورس کا حصہ بنے تو بھارت کی رعونت ، تکبردیدنی تھا ۔ 5اگست 2019 کو جموں و کشمیر اور لداخ کو بھارتی یونین کا باقاعدہ حصہ بنا ڈالا ، خصوصی حیثیت ختم کی ۔ چین کا خوف کہ 11اگست کو جے شنکر چین پہنچے ، وضاحتوں کے ڈھیر لگائے کہ معمولی ردو بدل ہے ، چینی قیادت کچھ سننے پر تیار نہ تھی ۔ چین نے مشرقی لداخ بھارتی یونین نقشہ مسترد کر دیا اور اپریل 2020ءمیں 2/3دن کےاندر 2ہزار کلومیٹرکےبھارتی اسٹرٹیجک علاقہ پر قبضہ جما لیا۔ آج تک چین کے قبضہ میں ہے ، بھارت کو’’ اُف‘‘کی اجازت نہیں ۔ اس بحث میں پڑے بغیر کہ اُس وقت وطنی عسکری قیادت جنرل باجوہ کے پاس تھی ۔ ’’پاکستان کی آزادی ، خودمختاری اور سیکورٹی پر آنچ نہیں آنے دیں گے ‘‘، چینی حمایت واشگاف الفاظ میں سر چڑھ کر موجود تھی۔ ایک نکتہ اور ذہن نشین ، 2019کا چین ایک نئی دریافت ہے ، 1965 ، 1971 ، 1984 ، 1987 ، 2002 کا چین بالکل مختلف اور خود مختار تھا ۔اب چین پوری دنیا میں اپنی طاقت ، معیشت ، ٹیکنالوجی ، AI فنی مہارت ، اسلحہ سازی ہر شعبہ میں اپنا لوہا منوا چکا ہے ۔ اچنبھے کی بات نہیں کہ پلوامہ ( آپریشن بندر ) کے موقع پر پاکستان نے بھارت کو دندان شکن جواب دیا اور آج بھی ذلت و رسوائی کیساتھ دانت کٹھے کرائے ہیں ۔ افواج پاکستان کا جذبہ ایمان اور چین سے ملنے والی نئی HYPER ٹیکنالوجی مع PL-15E میزائل ( BVR- BEYOND VISVAL RANGE ) ( رافیل طیاروں کا بھرکس نکالا) بھارت پر برتری قائم کر چکا ہے ۔
5 طیاروں کا ترنوالہ بننا ، نہ صرف بھارت کی قیادت میں سراسیمگی ، سیاستدان ، سائنسدان ، ماہرین مع بیرونی مددگار سر جوڑے بیٹھے ہیں کہ پریشانی کی گتھیاں سلجھ نہیں رہیں ۔ اگرچہ آج علی الصبح 12 ڈرونز پاکستان تشریف لائے ، جو فوراً گرا دیئے گئے ۔ میرے نزدیک 12 ڈرون صرف ہماری ٹیکنالوجی انفارمیشن اور ASSESMENT کیلئے انٹیلی جنس مشن پر ہونگے ۔ بڑے بڑے بین الا قوامی تجزیہ کاروں کا یہ بھی کہنا کہ بھارت اور ہمنوا شاید سانحہ پہلگام اور آپریشن سندور کو بطور گنی پگ( GUINEA PIG ) استعمال کر رہے ہیں تاکہ آنیوالے دنوں میں چینی ٹیکنالوجی اور جنگی استعداد کا کماحقہ اندازہ لگایا جا سکے ، پاکستان کا ہوم ورک مکمل ہے ۔ سانحہ پہلگام سے دو ہفتہ پہلے 8 اپریل کو پاکستان فضائیہ کے سربراہ ظہیر احمد بابر چین پہنچے،چینی وزیر دفاع ڈونگ جن سے ملاقات کی ۔ حاصل حصول چینی وزیر دفاع کا بیان کہ’’ چین اور پاکستان کی DESTINY باہم پیوست ہے‘‘ ، پچھلے کئی سال سے افواج پاکستان اور پیپلز لبریشن آرمی یکسوئی سے ہرمد میں منسلک اور تعاون کر رہے ہیں ۔ 2012 سے پاکستان ایئرفورس چین مشترکہ شاہین مشقیں کر رہے ہیں ۔
کل خواجہ آصف سے امریکی میڈیا نے انٹرویو کیا تو ایک سوال پر سوئی اٹکی رہی کہ’’ چین کی آپ نے کونسی ٹیکنالوجی استعمال کی‘‘ ، خواجہ آصف بات گول کر گئے۔ ہم نے JF-10 حاصل کر رکھے ہیں، یقیناً ان پر ( BRV ) PL-15E میزائل نصب ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ ہم بھارت کے گھس آنے پر خاطر خواہ ، خاطر مدارت کرنے میں کامیاب رہے ۔ بھارت کو 6/7 کی درمیانی رات کو ذلت ، رسوائی اور ہزیمت اٹھانی پڑی ، 6 مئی سے پہلے والا بیانیہ چند دن بعد قیادت کے اپنے گلے کاٹ رہا ہے ۔ ہماری طرف سے جنگ شروع نہیں ہوئی ، البتہ اب اسے ہم نے ہی ختم کرنا ہے ۔ انڈیا اور پاکستان کی مڈبھیڑکے نتیجےنے یہ فیصلہ بھی کرنا ہے کہ 21ویں صدی میں خطہ ارضی کا حکمران کون ؟ پاک بھارت جنگ کروٹ لے چکی ، اٹھان اور آغاز ہوا چاہتا ہے۔ آنیوالے دنوں میں خوفناک جنگ روکنا ناممکن رہیگا ۔ شکریہ مودی ! آج پاکستانی قوم کا یہ تاثر زائل کہ’’ ہم بھارت سے کمزور ہیں‘‘۔ آج پاکستانی قوم اتحاد ، یگانگت ، جذبہ جنون ، حوصلہ ، اعتماد سے لبالب بھری ، نتیجہ کچھ بھی ، قوم کا راسخ عقیدہ ہماری افواج بھارت کا بھرکس نکالنے کی صلاحیت سے مالا مال ہیں ۔ دہائیوں بعد یکجا اور حوصلہ مندپاکستان قوم سامنے ، شکریہ مودی اورشکریہ پاک فوج ۔
شذرہ ! ملٹری کورٹس کیس پر سپریم کورٹ فیصلہ ، رنجیدہ کر گیا ۔ جنگ کے ماحوم میں تبصرہ مناسب نہیں، تفصیل سے لکھوں گا ۔ افسوس اتنا کہ جنگ میں جُتی مقتدرہ اور انصاف کے ادارے بھی جنگی ماحول کا احترام کر لیتے۔