• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

(گزشتہ سے پیوستہ)

ایوب صابر کو یہاں سے کوہاٹ کے لئے بس پکڑنا تھی جو یہاں سے صرف چند میل کے فاصلے پر رہ گیا تھا۔ ہمارا ارادہ ابھی مزید کچھ دور جانے کا تھا۔ مگر شام ہونے کو تھی اور ہمیں ابھی پشاور پہنچنا تھا۔ سوہم نے ایوب صابر کو یہاں اتارا اور واپس لوٹنے ہی کو تھے کہ پٹھانوں کے روایتی لباس میں ملبوس ایک نوجوان نے کھڑکی میں سے اندر جھانکا، یوں لگتا تھا وہ کسی کو پہچاننے کی کوشش کر رہا ہے اور ہم نے جان لیا کہ اس کی توجہ کا محور افتخار عارف اور عبید اللہ بیگ تھے۔ ٹی وی دیکھنے والے اس قبائلی نے بالآخر انہیں پہچان لیا تھا اور پھر اس نے محبت آمیز ضد کر کے ہمیں ویگن سے اتارا اور ہمیں قہوہ پلانے کیلئے اپنی دوا ئیوں کی دکان پر لے گیا۔

بازار میں سے گزرتے ہوئے میں نے محسوس کیا کہ دکانوں پر تمام بورڈ اردو میں لکھے ہوئے تھے یا کہیں کہیں انگریزی نظر آتی تھی۔

ایک حیرت انگیز منظر میں نے یہ دیکھا کہ سڑک کنارے تخت پوش پر کوکا کولا کے کریٹ پڑے ہوئے تھے اس کے قریب پیسے ڈالنے کے لئے لکڑی کا بنا ہوا ایک بکس دھرا تھا تخت پوش کے برابر والی دیوار پر لکھا تھا ”بوتل پی کر پیسے بکس میں ڈال دیں۔ اگر کوئی پیسہ ڈالے تو بھی فائدہ، نہ ڈالے تو بھی فائدہ“ اس کے نیچے ”ضربت خان“ لکھا ہوا تھا۔ جو اس دکان کا ”غائبانہ“ مالک تھا میں نے یہ منظر ”مہذب“ بستیوں میں بھی بہت کم دیکھا تھا!

چینی کے بنے ہوئے چھوٹے چھوٹے گول پیالوں میں ہم نے قہوے کی چسکیاں لینا شروع کیں اور چاروں طرف سے سرسبز پہاڑوں میں گھر ی ہوئی اس وادی کی فضاؤں میں کھو گئے سورج پہاڑوں کی اوٹ میں غروب ہو رہا تھا اور ہر طرف شفق کے رنگ بکھر گئے تھے، فطرت کی ان دم بخود خاموشیوں میں تھوڑی تھوڑی دیر بعد فضا میں ایک جانب سے کارتوس چلنے کے باعث ارتعاش سا پیدا ہوتا جس کے کچھ دیر بعد پہاڑوں میں اس کی بازگشت سنائی دیتی اور پھر خاموشی چھا جاتی، دکان کے پچھواڑے میں ایک شادی تھی اور یہ فائرنگ اس تقریب کا روایتی حصہ تھی۔

خلوص آمیز قہوے کا شکریہ ادا کرنے کے بعد ہم نے میزبانوں سے ہاتھ ملایا اور واپس پشاور جانے کیلئے ویگن میں سوار ہو گئے۔ ایک نوجوان بھی ہمارے ساتھ آن بیٹھا تھا اس نے راستے میں اترجانا تھا۔ ایک بار پھر خوبصورت راستوں سے گزرتے ہوئے میں نےاپنے لوگوں کی اس سرزمین کو محبت سے دیکھا اور اس کے ایک ایک منظر کودل میں سجا لیا۔ سڑک کے کنارے کھلے میدان میں ایک قبائلی اپنے خدا کے حضور سجدہ ریز تھا اور اس کی پیشانی خاک میں اٹی ہوئی تھی ڈرائیور نے راستے میں ایک اور جگہ بریک لگائی۔

نوجوان کو یہیں اترنا تھا اس نے ہم سے باری باری مصافحہ کیا اور ”تمہارے راستے میں روشنی“ کہہ کر چھوٹے چھوٹے کھیتوں میں سے ہوتا ہوا نظروں سے اوجھل ہو گیا۔”تمہارے راستے میں روشنی“ میرے ہونٹوں سے بھی یہ الفاظ ادا ہوئے اور پھر مجھے چار سو پہاڑوں میں اس کی بازگشت سنائی دی ”تمہارے راستے میں روشنی، تمہارے راستے میں رو شنی“ مجھے یوں لگا یہ دعائیہ الفاظ پھول کی پتیوں کی طرح میرے وطن کی فضاؤں میں پھیل گئے ہیں۔ (جاری ہے)

تازہ ترین