• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ہیلو اینڈ گریٹنگز فرام لاہور!

تم سوچ رہی ہو گی کہ میں پاکستان سے تمہیں خط لکھ رہا ہوں تو آداب یا السلام علیکم کیوں نہیں لکھا۔ پاکستان میں آداب کہنے کا رواج صرف بالی وُڈ کی فلموں میں ہے، وگرنہ یہاں آداب کا تکلف کوئی نہیں کرتا۔ اور سلام اِسلئے نہیں کیا کہ کہیں تمہیں یہ نہ لگے کہ میں مذہب کا کامن گراؤنڈ تلاش کرنے کی کوشش کر رہا ہوں۔ ہاں ہاں، میں انگریزی کے الفاظ لکھ بھی سکتا ہوں اور بول بھی سکتا ہوں، بالی وُڈ کے فلمی مسلمان کی طرح کاندھے پہ رومال رکھ کر، سر پر ٹوپی پہن کر یا آنکھوں میں سُرمہ لگا کر نہیں گھومتا، چاہو تو فیس بُک یا انسٹا گرام پر میری تصویریں دیکھ لو۔

صوفی...! کیا میں تمہیں صوفی کہہ سکتا ہوں...ہاں صوفی ہی ٹھیک ہے، صوفیہ کچھ بھاری بھرکم سا نام ہے۔ اور ساتھ تم نے قریشی لگا رکھا ہے تو مجھے اپنے ہمسائے میں رہنے والے قریشی صاحب یاد آ جاتے ہیں جو قطعاً باغ و بہار طبیعت کے مالک نہیں تھے، اُنکا خیال آتے ہی میں ٹرن آف ہو جاتا ہوں۔ جس وقت میں یہ سطریں لکھ رہا ہوں اُس وقت تک پاکستان اور انڈیا کے درمیان جنگ بندی ہو چکی ہے، جسکا مطلب یہ ہے کہ جو کام اِن چار دنوں میں تمہارے ذمے لگا تھا وہ ختم ہوا، اب تم پہلے کی طرح فارغ ہو گی، اسی لئے سوچا کہ خط لکھ کر تمہیں کچھ معاملات سے آگاہ کر دوں۔ شکل سے تم سمجھدار لگتی ہو اور سچ کہوں تو فوجی وردی میں جچتی بھی خوب ہو، اور میں نے سنا ہے کہ تمہارے دادا جی بھی انڈین فوج میں تھے، لہٰذا ضروری ہے کہ تمہارے جیسی افسر کو حقائق کا ادراک ہو۔ سو بات تو یہ ہے کہ انڈین فوج نے جس طرح تمہاری نسوانیت کو فوجی آپریشن کیلئے استعمال کیا ہے وہ مناسب بات نہیں، یہ مرد لوگ بڑے بے وفا ہوتے ہیں، اپنا کام نکلوانے کے بعد نظریں پھیر لیتے ہیں، تم نے وہ پاکستانی گانا تو سنا ہی ہوگا ’’مرداں دے وعدے جھوٹے، جھوٹا ہوندا پیار اے....‘‘ نور جہاں کے اِس گانے کے بول اگر سمجھ نہ آئیں تو گھر کے کسی بزرگ سے پوچھ لینا، اتنی پنجابی تو انہیں آتی ہی ہوگی۔ اور اگر پھر بھی سمجھ نہ آئے تو مجھے وٹس ایپ کرکے پوچھ لینا، Where there is will there is a way، باقی تم خود سمجھدار ہو۔

صوفی! جنگ کے دوران میں نے تمہاری بریفنگز دیکھیں، خوب بولتی ہو، البتہ ہزار کو ہجار نہ کہا کرو پلیز، سارا موڈ آف ہو جاتا ہے۔ اور ہاں، یہ جو تمہارے فوجی افسران نے پریس کانفرنس کی ہے، اِسکا مشورہ انہیں کس نے دیا تھا؟ میں تو اُس وقت سے ہنس ہنس کر دُہرا ہو رہا ہوں، ایسی مخولیہ باتیں تو ہمارے ہاں صرف اسٹیج ڈراموں میں ہوتی ہیں۔ کیا تم نے سنا نہیں کہ لڑائی کے بعد یاد آنے والا مُکّا اپنے ہی منہ پر مارنا پڑتا ہے۔ خدارا، اپنے افسروں کو سمجھاؤ کہ اگر پریس کانفرنس کرنی تھی تو کم از کم تیاری تو کرکے آتے، اِن سے جب سوال ہوا کہ جنگ میں پاکستان کا کتنا نقصان ہوا تو تمہارے کمانڈر نے جواب دیا کہ ہمارے پاس تکنیکی تفصیل نہیں ہے، ہم کوئی معلومات بھی شیئر نہیں کر سکتے ہیں، بس اتنا بتا سکتے ہیں کہ دشمن کا نقصان ہوا ہے۔ یہ تو وہی بات ہوئی کہ ایک مسجد میں مولوی صاحب خطبہ دے رہے تھے، خطبے کے دوران انہیں خیال آیا کہ نمازیوں کا دل کسی واقعے سے گرمایا جائے مگر کوئی بات اُن کے پاس نہیں تھی، سو انہوں نے اپنی شعلہ بیانی کے زور پر کہا کہ ’’نہ جانے کون سا دور تھا اور اللہ جانے کون سے پیغمبر تھے اور یاد نہیں کہ انہوں نے کیا بات کہی، مگر وہ بات سُن کر سب لوگ رونے لگے۔‘‘ اور اِس کیساتھ مسجد میں موجود نمازی بھی رونے لگے۔ یہی حال تم لوگوں کا ہے، پلے نئیں دھیلہ تے کردی میلہ میلہ۔ معاف کرنا، پھر پنجابی کا استعمال کر دیا، کیا کروں، لاہور سے ہوں تو پنجابی تو بولوں گا۔ اور ہاں، یہ تم لوگوں کے میڈیا نے لاہور میں کسی بندرگاہ کو تباہ کرنے کا دعویٰ کیا تھا۔ ویسے دعوے تو تم لوگوں نے اور بھی بہت اوٹ پٹانگ کیے تھے مگر اِس کا تو جواب ہی نہیں، پوری دنیا میں تم لوگوں کے میڈیا کی بھی بَھد اُڑائی جا رہی ہے اور سچ پوچھو کہ جس طرح تمہارے میڈیا نے جھوٹ بولا، اُس سے ہمیں بہت فائدہ ہوا، جو تھوڑی بہت ساکھ تھی تمہارے ٹی وی چینلز کی، وہ بھی صفر ہو گئی۔ صوفی! لاہور کا ذکر آ ہی گیا ہے تو لگے ہاتھوں تمہیں دعوت ہی دیدوں۔ اگلے جاڑوں میں اگر تمہارا گھومنے پھرنے کا مَن ہو تو لاہور چلی آنا، اِس شہر کی گلیاں اگر تمہیں اپنا دیوانہ نہ بنا لیں تو رافیل جیٹ کے پیسے واپس! اور تمہارا تعلق تو گجرات سے ہے ناں؟ وہی گجرات جہاں مودی جی نے بطور پردھان منتری مسلمانوں کا قتل عام کیا تھا اور گجرات کے قصائی کا لقب پا کر ایسی عالمگیر شہرت حاصل کی تھی کہ امریکہ میں آنجناب کا داخلہ بند ہو گیا تھا! جان کر افسوس ہوا۔ اب تم ذرا دھیان سے رہنا، مودی سرکار کے لونڈوں کا کچھ پتا نہیں کب تمہیں ٹرول کرنا شروع کردیں، انہوں نے تو پہلگام کے فوجی کی بیوہ کو نہیں بخشا، یہی نہیں بلکہ تمہارے سیکریٹری خارجہ کی بھی اتنی ٹرولنگ کی کہ اُس بیچارے کو اپنے ایکس اکاؤنٹ پر قفل لگانا پڑا، حالانکہ اُس غریب کا قصور فقط اتنا تھا کہ اُس نے جنگ بندی کا اعلان کیا تھا۔

آخر میں ایک مخلصانہ مشورہ۔ مجھے علم نہیں کہ تمہاری شادی ہوئی یا نہیں، اگر نہیں ہوئی تو مت کرنا اور اگر کرو تو بچے پیدا مت کرنا۔ صوفی، یہ دنیا بے حد سفاک ہے، اور خاص طور سے ہم اور تم جس خطے میں رہتے ہیں، یہ اِس قابل نہیں کہ یہاں بچوں کو جنم دیکر چھوڑ دیا جائے اور پھر چند سال بعد وہ کسی جنگی جنونی کے رحم و کرم پر ہوں۔ اِس دنیا میں ہم جنکے بغیر نہیں رہ سکتے ایک دن انہیں ہمارے بغیر رہنا ہوتا ہے۔ تم بےشک ہندوستان سے ہو مگر بچے تو پھول ہی ہوتے ہیں، اور پھول چاہے لاہور میں کھلیں یا دلی میں، اُن کی خوشبو تو نہیں بدلتی! جہاں رہو، خوش رہو۔

فقط، تمہارا ایک خیر خواہ۔لاہور سے۔

تازہ ترین