• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

’’جہاد‘‘ اہلِ ایمان کا دینی و مذہبی شعار

ذیشان کلیم معصومی

دین اسلام کی سربلندی، اسلامی ریاست کی سرحدوں کو کفّار کی یلغار سے محفوظ رکھنے اور باطل قوتوں کا قلع قمع کرنے کےلیے کسی بھی قسم کی قربانی سے دریغ نہ کرنا اور دشمن کی جارجیت کو روکنے کےلیے اپنا تن ،من دھن سب کچھ قربان کر دینا’’ جہاد ‘‘کہلاتا ہے۔ 

جب اسلام دشمن قوتیں مسلمانوں کو ستانے اور کلمۃ الحق کو دبانے اور اسلامی ریاست کی حدود کو مٹانے کے لیے اپنے مادی وسائل کو میدان کارزار میں جھونک دیں تو پھر تمام مسلمانوں پر یہ ذمہ داری عائد ہو جاتی ہے کہ وہ اس فتنے کے انسداد کے لیے اپنے اپنے ذرائع کو بروئے کار لاتے ہوئے دشمن کے مقابلے کے لیے تیار ہو جائیں اور اپنی اس مذہبی ذمہ داری سے عہدہ برآ ہونے کے لیے اپنی جان و مال اولاد اور عزیز و اقارب کی زندگیوں کی بھی پروا نہ کریں اور دشمن سے ٹکرا جائیں۔ 

ان حالات میں جہاد ایمان کی علامت قرار پاتا ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں ارشاد فرماتا ہے’’ مومن وہی ہیں جو اللہ اور رسول پاکﷺ پر ایمان لائے، پھر اس میں شک نہیں کیا اور اپنے مال اور جان سے خدا کے راستے میں جہاد کیا یہ سچے اترنے والے ہیں۔‘‘( القرآن)

مسلمانوں کی کوئی جنگ بھی بے مقصد نہیں ہوتی، وہ بلاوجہ کسی کا خون نہیں بہاتے۔ کسی شہر، بستی، قصبے اور آبادی کو ویران نہیں کرتے، بلکہ ان کا مقصد محض اعلائے کلمۃ الحق اور اسلامی قدروں کا تحفظ ہوتا ہے۔ وہ قومیں جنہیں جنگی جنون ہوتا ہے انہیں راہ راست پر لانے کےلیے مسلمان ضرورت کے وقت جہاد کی راہ اپناتے ہیں۔

اسلامی تاریخ اس بات کی شاہد ہے کہ مسلمان سپہ سالار اسلامی عساکر کو جب بھی دشمن کے مقابلے کےلیے بھیجتے تو ہر فوجی کو بھرپور تاکید کی جاتی تھی کہ وہ اس وقت تک دشمن سے بر سرپیکار رہیں، جب تک دشمن خوں ریزی ،فساد اور غارت گری کے درپے ہو اور ہر مسلمان مجاہد پر لازم ہے وہ دشمن سے لڑتے وقت حدود خداوندی پر قائم رہے۔

عورتوں ،بچوں اور بوڑھوں کو تہہ تیغ نہ کرے، پھل دار اور سایہ دار درختوں کو نہ کاٹے، جو ہتھیار پھینک دے، اس پر تلوار نہ چلائے، آبادیوں کو برباد نہ کرے، بلکہ راہِ جہاد میں اٹھنے والا مسلمان کا ہر قدم صرف اور صرف رضائے الہٰی کے حصول کےلیے ہو، اس میں کسی قسم کی ذاتی غرض کا شائبہ تک نہ ہو۔

ایک مرتبہ کسی شخض نے آقائے دوجہاں ﷺ کی خدمت عالیہ میں عرض کیا، اے کریم آقاؐ!جہاد سے مراد کیا ہے؟ بعض اوقات کوئی شخص مال کےلیے لڑتا ہے، کوئی بہادری کی داد لینے کے لیے میدان جنگ میں اپنی شجاعت کے جوہر دکھاتا ہے، کوئی کسی عداوت یا قومی حمیت کی خاطر لڑتا ہے۔ 

اللہ کے محبوب نبی کریم ﷺنے فرمایا ’’ان میں سے کسی کی جنگ بھی جہاد فی سبیل اللہ نہیں ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ کی نظر میں وہ جنگ جہاد قرار پاتی ہے جو قوانین الٰہیہ کی حاکمیت قائم کرنے کے لیے کی جائے۔‘‘ سرکار دوعالم ﷺ کے اس ارشادِ گرامی سے معلوم ہوا کہ مسلمانوں کو ہر طرح کی ذاتی اغراض سے بالاتر ہو کر صرف نیکی اور بھلائی کی قوتوں کو پروان چڑھانے کےلیے کفار کا مقابلہ کرنا چاہیے۔ 

بلاشبہ، مسلمان مجاہد کا ہر قدم خلوص اور نیک نیتی کے ساتھ آگے بڑھتا ہے، اس پر اللہ کی رحمتوں کا سایہ ہوتا ہے، جبکہ لادینی قوتیں شیطان کے زیر اثر میدان جنگ میں اترتی ہیں اور ان کا مقصد محض فتنہ و فساد برپا کر کے دنیا کا امن و سلامتی تباہ و برباد کرنے کے سوا کچھ نہیں ہوتا۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ’’وہ لوگ جو ایمان لائے، اللہ کی راہ میں لڑتے ہیں اور جنہوں نے کفر اختیار کیا، وہ طاغوت کی راہ میں لڑتے ہیں۔ (سورۃالنساء)

مسلمان مجاہد کو دشمن سے بر سر پیکار ہوتے وقت ثابت قدم رہنے کی بھرپور تاکید کی گئی ہے، جیسا کہ ارشاد ربانی ہے ’’اے ایمان والو!جب تم کسی گروہ سے ٹکراجاؤ تو ثابت قدم رہو۔ (سورۂ انفال) کیونکہ دشمن کے مقابلے میں کسی قسم کی کمزوری کا اظہار اس کے فاسد ارادوں کی تقویت کا باعث بنے گا، اسی لئے ایک اور مقام پر قرآن مجید نے ارشاد فرمایا ’’ اے ایمان والو!ان کفار سے لڑو جو تمہارے آس پاس ہیں اور وہ تمہارے اندر سختی پائیں اور جان لو کہ بے شک اللہ پرہیزگاروں کے ساتھ ہے۔ (سورۂ توبہ )

اس آیت مقدسہ میں اس حقیقت کو واضح کیا گیا ہے کہ کفار کا مقابلہ کرتے وقت انہیں یہ محسوس نہ ہونے دیں کہ تمہارے اندر کوئی کمزوری پائی جارہی ہے، بلکہ تمہارے انداز جنگ سے کفار کو یہ احساس ہو کہ مسلمان مجاہدین بہت سختی پر اترے ہوئے ہیں اور ان کا یہ جذبہ جہاددشمن کو نیست و نابود کر دے گا۔ میدان جنگ میں شدت کے اظہار کو بھی معیار تقویٰ قرار دیا گیا ہے۔

مسلمانوں کے جذبہ جہاد کو جلا بخشنے اور انہیں طاقت ور دشمن کے سامنے سینہ سپر ہونے کا حوصلہ عطا کرنے کے لیے انہیں خوشخبری سناتے ہوئے اللہ ارشادفرماتا ہے’’ اے نبیﷺ! ترغیب دیجئے مومنین کو جنگ کی اگر تم میں سے بیس آدمی ثابت قدم رہنے والے ہوں گے تو وہ دوسو پر غالب آجائیں گے اور اگر تم میں سے سو آدمی ہوں گے تو وہ ایک ہزار پر غالب آجائیں گے اس لئے کہ وہ (کفار)بے عقل لوگ ہیں۔‘‘ (سورۂ انفال)

حقیقت تو یہ ہے کہ جب کسی شخص کو اس بات کا یقین ہوجائے کہ میری جنگ کسی دنیوی غرض و غایت کےلیے نہیں، بلکہ پیش نظر اللہ ورسولﷺ کی رضا کا حصول ہے، میں راہِ خدا میں اپنی گردن کٹوا کر ابدی زندگی سے ہمکنار ہو جاؤں گا، آج دشمن کے مقابلے میں جن تکلیف دہ لمحات کا شکار ہوں، وہ سب عارضی ہیں، جبکہ اللہ مجھے اس کے بدلے دائمی مسرتوں سے مالا مال فرمائےگا، جام شہادت نوش کرنے کے بعد جنت کی بے شمار نعمتوں سے مجھے نوازا جائے گا۔

جب اس سوچ سے مجاہدین اسلام کے اذہان چمک اٹھتے ہیں تو میدان کارزار میں ان کے اندر ایک ولولہ پیدا ہو جاتا ہے کہ وہ طاقتور سے طاقتور دشمن کی بھی پروا نہیں کرتے اور بھرپور حوصلے کے ساتھ آگے بڑھتے چلے جاتے ہیں اور دشمن کی صفوں میں گھس کر انہیں تہس نہس کر دیتے ہیں۔ 

اس لئے اسلامی ریاست کے حکمرانوں سے لے کر وہاں کے عوام تک کی یہ مذہبی ذمہ داری ہو جاتی ہے کہ وہ جذبۂ جہاد کو ہمیشہ ہمیشہ کےلیے زندہ رکھیں اور دشمن کی یلغار کو روکنے کےلیے ہر لمحہ جنگی سازوسامان بھی تیار کرتے رہیں۔ اللہ ہمیں اسلام کے بتائے ہوئے اصولوں پر عمل پیرا ہونے کی توفیق اپنے حبیب پاکﷺ کے وسیلے سے عطا فرمائے اور ملک پاکستان کی سرحدوں کی حفاظت فرماکر اسے گہوارۂ امن وآشتی بنائے۔( آمین )

اقراء سے مزید