• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

تفہیم المسائل

سوال: بیوی کے میکے والے بہت آزاد خیال ہیں اور عورت کے پردہ کرنے کے قائل نہیں ہیں، کہتے ہیں: رسول اللہ ﷺ کے دور میں پردے کی اجازت نہیں تھی۔میں زوجہ کو جب ان کے والدین کے گھر بھیجتا ہوں تو وہ میری اجازت کے بغیر اپنے کزن کے ہمراہ گھومنے پھرنے چلی جاتی ہے، محرم نامحرم کا کوئی خیال نہیں کیاجاتا، کیا کزن محرم ہوتے ہیں؟ (ایک سائل، کراچی)

جواب: عورت پر پردہ واجب ہے ، اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :ترجمہ:’’آپ مسلمان مردوں سے کہیے کہ اپنی نگاہیں نیچی رکھیں اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کریں، یہ ان کے لیے بہت پاکیزہ شِعار ہے، بے شک اللہ ان کاموں کی خبر رکھنے والاہے جن کو تم کرتے ہو اور آپ مسلمان عورتوں سے کہیے کہ وہ اپنی نگاہیں نیچی رکھیں اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کریں اور اپنی زیبائش کو ظاہر نہ کریں مگر جو خود ظاہر ہو اور اپنے دوپٹوں کو اپنے گریبانوں پر ڈالے رکھیں (سورۃ النور:30-31)‘‘۔(۲)ترجمہ:’’اے نبی !اپنی بیویوں اور اپنی بیٹیوں اور مسلمانوں کی عورتوں سے کہیے کہ وہ (گھر سے نکلتے وقت) اپنی چادروں کا کچھ حصّہ( اپنے منہ پر) لٹکا لیا کریں ، (سورۂ احزاب:59)‘‘۔

یہ آیات رسول اللہ ﷺ پر نازل کی گئیں اور رسول اللہ ﷺ نے مسلمان عورتوں پر پردے کو واجب قرار دیا، آپ کے سسرال والوں کا یہ کہنا’’ رسول اللہ ﷺ کے دور میں پردے کی اجازت نہیں تھی ‘‘ درست نہیں ہے۔ جوان عورتوں کو نامحرم مردوں کے سامنے چہرہ چھپانے کا حکم ہے، علامہ علاؤالدین حصکفی لکھتے ہیں: ترجمہ:’’جوان عورت کو (نا محرم)مردوں کے سامنے چہرہ کھولنے سے منع کیا جائے، اِس لیے نہیں کہ اُس کا ستر واجب ہے بلکہ فتنہ کے خوف سے منع کیا گیا ہے، جیسے عورت کا چھونا، خواہ شہوت کا اندیشہ نہ ہو، کیونکہ چہرے کا کھلا ہونا چھونے سے زیادہ سنگین بات ہے، (ردّالمحتار علیٰ الدّرالمختار ، جلد2،ص:72) ‘‘۔

تمام طرح کے کزن نامحرم ہیں، اُن کے ساتھ بے تکلفی ، اختلاط ، اکیلے گھومنا پھرنا جائز نہیں ہے، علامہ علاء الدین ابو بکر بن مسعود کاسانی حنفی لکھتے ہیں: ترجمہ: ’’مَحرم وہ شخص ہے، جس سے ہمیشہ کے لیے نکاح حرام ہو، خواہ یہ حرمتِ نکاح رشتۂ قرابت یا رشتۂ رضاعت یا رشتۂ مصاہرت (سسرالی رشتہ) میں سے کسی سبب سے ہو، کیونکہ دائمی حرمت سے خَلوت میں تُہمت کا اندیشہ زائل ہو جاتا ہے۔

اسی لیے فقہائے کرام نے کہا ہے: اگر مَحرم بھی قابلِ اعتماد نہ ہو(یعنی اس سے آبرو محفوظ نہ ہو) تو اس کے ساتھ بھی عورت کا سفر پر جانا جائز نہیں ہے، (بدائع الصنائع،جز ثانی ، ص: 187-188، مطبوعہ مرکز اہل سنت برکات رضا، گجرات ،ہند)‘‘۔

یعنی جو محرم مرد رشتے دار کردار کے لحاظ سے بدنام ہو، مَطعون ہو یا جسے اپنے نفس پر قابونہ ہو، عورت کو چاہیے کہ ایسے محرم کے ساتھ بھی سفر نہ کرے یعنی فقہی اصول کے تحت تو سفر کی اجازت ہے، مگر بدکرداری ایسا عارض ہے، جس کے سبب احتیاط لازم ہے کیونکہ شریعت کاحکم ہے کہ تہمت کے مواقع سے بچاجائے۔ (جاری ہے)

اقراء سے مزید