• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستانیوں نے ایک بار پھر ثابت کر دیا ہے کہ وہ زندہ قوم ہیں ان کا سیاسی سماجی اور آفاقی شعور کسی ترقی یافتہ قوم سے کم نہیں۔ جنوبی ایشیا کے حکمران طبقوں پر بھی واضح ہو گیا کہ پاکستانی درست اور غلط میں تمیز کر سکتے ہیں ۔آپس میں اختلافات ہوں لیکن جب ہمارا ازلی دشمن بھارت ہماری سلامتی پر حملہ آور ہو تو ہم ایک ہو جاتے ہیں اس کیلئے ہمیں کسی اپیل کی، کسی اشتہار، کسی ترانے، کسی آرڈیننس اور کسی آئینی ترمیم کی ضرورت نہیں ہوتی۔ سلام ہے پاکستانی قوم کےتدبر کو، سلام ہے ان جانبازوں کو جنہوں نے اپنی جان خطرے میں ڈال کر دشمن کے فوجی اڈوں پر بہت ثابت قدمی اور دلجمعی سے حملے کیے۔ دشمن کی پہل کی صلاحیت کو وہیں زمین پر دفن کر دیا۔ مئی 2025کی 10 تاریخ سے جنوبی ایشیا میں طاقت کا توازن بدل گیا۔ سبز ہلالی پرچم کے پاسبانوں اور دوسری دفاعی لائن پر موجود نوجوانوں نے وقت کے تقاضے بھانپ لیے دنیا بھر کے جنگی ماہرین اسلحہ فیکٹریوں کے مالکان اور ریسرچز نے دیکھ لیا کہ اسلحے کی ہلاکت خیزی سے اور اس کے استعمال سے کون کتنا اشنا ہے تاریخ نے یہ بھی مشاہدہ کر لیا کہ صرف جدید ترین ٹیکنالوجی اور تیز ترین حربی اسلحہ ہی نہیں اس کے ساتھ ایک جذبے کی بھی ضرورت ہوتی ہے یہ بھی ان چار دنوں نے اجاگر کر دیا کہ پاکستانی قوم دشمن کے ذہن میں موجود سازشوں کو اچھی طرح پہچان جاتی ہے پاکستان کی اکثریت ہمیشہ صحیح وقت پر صحیح فیصلے کرتی ائی ہے یہ حقیقت 14اگست 1947سے ہر موڑ پر اشکار ہوئی ہے یہ الگ بات ہے کہ اکثریت کو فیصلے کرنے کا اختیار بہت کم دیا گیا ہے جمہوریت سے میں اکثریت سے مشاورت کے لیے بہت سے نظام قائم کیے گئے ہیں مقصود یہی رہا ہے کہ ہر چار پانچ سال بعد نئی اور پرانی نسلوں سے ان کی پسند پوچھی جائے مسائل کا سامنا بھی سب سے زیادہ اکثریت کرتی ہے اس لیے مسائل کی حقیقی شناخت بھی اسی کو ہوتی ہے۔ اپنی 77سالہ تاریخ پہ نظر ڈال لیجئے اور فروری 2024ءتک اکثریت کے رحجانات کا بہاؤ دیکھ لیجئے۔ اب فائر بندی ہو چکی ڈرونوں کی پروازیں رک گئی ہیں ۔لڑاکا طیارے ایئر پورٹوں پر کھڑے ہیں ۔دنیا بھر میں پاکستانی ایئر فورس کی برتری تسلیم ہو چکی ہے۔ امریکہ نے پھر اپنی آفاقی برتری منوا لی ہے بھارت کے حکمرانوں نے پھر ایک بار یہ آشکار کر دیا کہ وہ پاکستان کے خلاف جارحیت میں ہمیشہ پہل کرتے ہیں اور اسکے بعد واشنگٹن یا ماسکو کی طرف دیکھتے ہیں، سیز فائر کیلئے بے تاب ہوتے ہیں۔ بھارت جیسے عیار دشمن سے ہمیں ہر وقت خبردار رہنا چاہیے ابھی فائر بندی ہوئی ہے جنگ بندی نہیں۔ نریندر مودی کی تقریر میں بھی یہ اشارے ملتے ہیں کہ بھارت کسی وقت بھی اپنی خفت مٹانے کیلئے دوبارہ پہلگام کر سکتا ہے یہ صرف بہار کے الیکشن میں کامیابی کیلئے نہیں بلکہ بھارتیہ جنتا پارٹی جب جن سنگھ تھی اس وقت سے وہ اکھنڈ بھارت کے نعرے لگا رہی ہے۔ وہ پاکستان کے قیام کو بھارت ماتا کا جسم کاٹنے کے مترادف سمجھتی ہے افسوس یہ ہے کہ بھارت تو پاکستان کو دہشت گرد ریاست قرار دلوانے کیلئے مسلسل کوششیں کرتا آ رہا ہے اس تقریر میں بھی مودی کا زور پاکستان میں دہشت گردوں کے اڈوں پر تھا کہ یہ جارحانہ حملہ بھی اسی مقصد کیلئے تھا اور آئندہ بھی وہ یہ قدم اٹھا سکتا ہے۔ پاکستان تاریخ کے اکثر دو راہوں پر اپنے داخلی مسائل میں الجھ کر بھارت کی جارحیت اور دہشت گردی کو دنیا سے تسلیم کروانے کی کوششیں نظر انداز کرتا رہا ہے بلکہ ہم بھارت سے تجارت کیلئے بے صبرے ہو جاتے ہیں آر ایس ایس کی پاکستان دشمنی کو بھول جاتے ہیں ۔اکھنڈ بھارت کا نظریہ بنیادی طور پر پاکستان کے وجود کیلئے ایک مسلسل چیلنج ہے۔ اسے ہر لمحے پیش نظر رکھیں۔اب پاکستان کی مسلح افواج نے خاص طور پر پاک فضائیہ نے بھارت کے 2025ءکے اس پاکستان دشمن منصوبے کو خاک میں ملا دیا ہے۔ پوری قوم اپنے پاسبانوں کو سلام کر رہی ہے اب ہماری سیاسی قیادت کی ذمہ داریاں بڑھ گئی ہیں تنازعات اب مذاکرات کی میز پر طے ہونا ہیں۔ بھارت نے اپنی ترجیحات واضح کر دی ہیں پاکستان کو اپنی ترجیحات اپنی پارلیمنٹ کے ذریعے مرتب کرنی چاہئیںہم نے اس جنگی صورتحال کی ابتدا میں ہی عرض کی تھی کہ قومی سیاسی پارٹیاں اپنی مرکزی مجالس عاملہ کے اجلاس طلب کریں۔ فرد واحد کو فیصلے نہ کرنے دیں۔ پاکستانی قوم نے ،سوشل میڈیا پر نوجوانوں نے جس یکجہتی اور دانشمندی کا مظاہرہ کیا ہے حکمران طبقوں اور قومی سیاسی جماعتوں کو بھی ایسی بلند خیالی کا مظاہرہ کرنا ہو گا۔ ایسے سنگین معاملات میں صرف چند افراد فیصلے نہیں کر سکتے وقت کا تقاضا یہ بھی ہے کہ صرف وقتی تنازعات کو ہی نہیں بھارت کے جارحانہ پس منظر کے تناظر میں پاکستان کو ایک مجموعی لائحہ عمل ترتیب دینا چاہیے۔ اس وقت ہمارے عسکری جانبازوں نے بھارت کو جو فوجی شکست دی ہے، اس کے نفسیاتی تاثرات جنوبی ایشیا کی فضاؤں میں بہت واضح ہیں بھارت کی برتری کا غرور ٹوٹ چکا ہے۔ یہ نفسیاتی تاثرات بھی ہمارے آئندہ لائحہ عمل کی بنیاد بننا چاہئیں۔ اس وقت مذاکرات کی میز پر یقینا ًپاکستان کی حیثیت زیادہ مضبوط ہو گی اب چونکہ معاملہ سیاسی قیادت کے ہاتھ میں ہے اس لیے پاکستان مسلم لیگ نون جو مرکز میں حکمران ہے اور سب سے بڑے صوبے کی حکمرانی بھی اسکے پاس ہے تو سب سے زیادہ ذمہ داری بھی انڈیا پالیسی مرتب کرنے میں اسی کی ہے۔ میاں محمد نواز شریف تین بار وزیر اعظم رہ چکے ہیں وہ آئندہ کم از کم دو دہائیوں کا روڈ میپ بنائیں کہ پاکستان کی انڈیا پالیسی کیا ہونی چاہیے اس میں پاکستان کی سلامتی کو سر فہرست رکھیں کشمیر میں حق رائے دہی کو ترجیح دیں۔ سندھ طاس معاہدہ بحال ہو ۔ پاکستان پیپلز پارٹی کے بانی چیئرمین ذوالفقار علی بھٹو کی 1965کی سلامتی کونسل کی تقریر اب بھی پاکستانیوں کے دلوں میں گونجتی ہے۔ پیپلز پارٹی کو اسی تقریر کی روشنی میں ایک روڈ میپ باہمی مشاورت سے بنانا چاہیے۔ پاکستان تحریک انصاف اکثریت میں مقبولیت کی دعویدار ہے ۔ایک سرحدی صوبے میں حکمران ہے۔ اسے بھی باہمی مشوروں سے آئندہ دو دہائیوں کی انڈیا پالیسی بنانی چاہیے۔ حکمرانوں کو چاہیے کہ اس پارٹی کو اپنے اجلاس منعقد کرنے کی آزادی دیں۔ تینوں پارٹیوں کا فرض ہے کہ اپنے ان اجلاسوں میں ہر صوبے کی خاص طور پر بلوچستان کی نمائندگی بڑھائیں کیونکہ وہاں سے مشاورت ضروری ہے بھارت کے افغانستان میں کونسل خانوں کے ذریعے بلوچستان میں مداخلت ہوتی رہتی ہے پھر بلوچستان کے عوام کو جن مسائل کا سامنا ہے ان کی روشنی میں بھی بلوچستان سے مشاورت ناگزیر ہے۔ تاریخ کا دھارا پاکستان کے حق میں بہہ رہا ہے سیاسی قیادت کو فوجی قیادت کی کامیابیوں کو اپنے اعتماد کی بنیاد بنانا چاہئے۔

تازہ ترین