جنگ ایک سنجیدہ مسئلہ ہے اور میں آج اس حوالے سے سنجیدہ کالم ہی لکھنے جا رہا ہوں لیکن کیا حرج ہے اگر آغاز ایک ہلکی پھلکی بات سے کردیا جائے۔ مجھے 65ء کی جنگ یاد ہے اور جنرل ایوب کی تقریر کا یہ جملہ بھی کہ ’’کلمہ طیبہ کا ورد کرتے ہوئے دشمن پر ٹوٹ پڑو‘‘۔ اردو کے ایک استاد جنہوں نے ایف اے کے اسٹوڈنٹس کیلئے ایک خلاصہ شائع کیا ہوا تھا، دروغ برگردنِ راوی۔ اس روز یہ صاحب دوستوں کے درمیان اکڑ اکڑ کر چل رہے تھے اور کہہ رہے تھے کہ جنرل ایوب نے جو تقریر کی ہے وہ انہوں نے میرے خلاصے سے لی ہے اور اس امر پر کف افسوس مل رہے تھے کہ جنرل صاحب نے اس کا کریڈٹ مجھے نہیں دیا ان کا کیا جاتا تھا اگر وہ تقریر کے آغاز یا اختتام پر یہ کہہ دیتے کہ میں نے یہ تقریر پروفیسر . . . .کے خلاصے سے لی ہے۔
تفنن برطرف حالیہ جنگ کا آغاز بھی حسب معمول بھارت نے کیا جس کی اسمبلی میں انڈیا کا نقشہ دیوار پر چسپاں ہے جس میں پورےپاکستان، پورے کشمیر، نیپال اور تھائی لینڈ کو بھارت کا حصہ ظاہر کیا گیا ہے۔ اکھنڈ بھارت انڈیا کا دیرینہ خواب ہے مگر نریندر مودی کی نیندیں اس خواب نے اڑائی ہوئی ہیں اور مودی نے گجرات کاٹھیا واڑ میں مسلمانوں کا قتل عام کیا تھا چنانچہ پوری دنیا میں اسے جلاد قرار دیاگیا تھا۔ امریکہ نے تو اس کے امریکہ آنے پر پابندی عائد کردی تھی ۔اس دفعہ اس احمق وزیر اعظم نے پاکستان پر چڑھائی کردی اور دو دنوں میں انڈیا کا کریا کرم ہوگیا چنانچہ اس نے امریکہ کے ترلے منتیں کرکے جنگ رکوا دی مگر ان دو دنوں میں ہم نے ان کا اربوں ڈالر کا نقصان کر دیا، صرف یہی نہیں بلکہ پوری دنیا میں اس نے انڈیا کے سپر پاور ہونے کا جو تاثر دیا ہوا تھا خود ہم بھی یہی سمجھنے لگ گئے تھے کہ انڈیا کے سامنے ہماری حیثیت ایسی نہیں کہ ہم اس کا مقابلہ کرسکیں، اللہ بھلا کرے احمق مودی کا کہ اس نے انڈیا کا یہ امیج اپنے ہاتھوں سے تباہ و برباد کردیا۔ایک ضروری بات میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ اب ہمیں بے فکر نہیں ہو جانا چاہیے کیونکہ مودی کی حیثیت اس وقت زخمی سانپ کی سی ہے اور زخمی سانپ زیادہ خطرناک ہوتا ہے ، ہماری آرمی، ہماری فضائیہ نے اپنی بے پناہ مہارت اور پاکستان سے والہانہ محبت کے جذبے کی تحت یہ جنگ لڑی، ان کی پشت پر سیاسی حکومت بھی تھی جس کے مشوروں اور سپہ سالار جنرل عاصم منیر کی جنگی صلاحیت اور مہارت نے ایک نام نہاد ’’سپر پاور‘‘ کو ناکوں چنے چبوا دیئے۔ ان دو ملکوں کی جنگ میں ایک تیسرا ملک خواہ مخواہ ماراگیا، یہ فرانس تھا جس کا رافیل طیارہ ہم نے مار گرایا۔ رافیل کی ہسٹری یہ تھی کہ یہ ہر معرکہ میں کامیاب رہا تھا اب اس کی ساری عزت اور دبدبہ خاک میں مل گیا ہے، اس کی انٹرنیشنل مارکیٹ ڈائون ہوئی اور اس کے مقابلے میں چین کی بلے بلے ہوگئی ہے کہ ہم نے رافیل چائنہ کے طیارے ہی سے تباہ کیا تھا۔ جیساکہ میں نے اوپر کی سطور میں عرض کی مودی اب زخمی سانپ ہے چنانچہ ہمیں ہر لمحہ چوکس رہنا چاہیے۔ ہماری آرمی، ہماری ایئر فورس اور ہماری نیوی کو اپنی کسی کمزوری کو طاقت میں بدلنے کی کوشش کرنا چاہیے۔اب دنیا بھر کی نظریں ہم پر ہیں ہمیں ثابت کرنا ہے کہ ہم کسی سے کم نہیں ہیں۔ ہمارے سیاست دان اور ہماری فوج ایک پیج پر ہیں تاہم افسوس کی بات ہے کہ تحریک انصاف سے وابستہ ایک طبقہ جنگ کےدوران پاکستان کی ہر کامیابی پر اداس ہو جاتا تھا تاہم سب کے سب ایسے نہیں تھے ان میں کچھ پاکستان سے والہانہ محبت کرنے والے بھی ہیں وہ پاکستان کی ہر کامیابی پر پورے پاکستان کے عوام کی طرح خوش ہوتے تھے۔
آخر میں صرف دو باتیں ۔ ایک یہ کہ وزیر اعظم شہباز شریف نے اپنی تقریر میں کہا کہ ہم نے انڈیا سے 1971ء کی جنگ کا بدلہ لے لیا ہے، ایسا نہیں ہے، ہمارا آدھا ملک انڈیا نے ہم سے الگ کردیا تھا ہم نے تو انڈیا کا ایک انچ بھی اس سے الگ نہیں کیا اور آخر میں ایک دلچسپ بات۔ ایئر وائس مارشل اورنگ زیب لڑکیوں کا کرش بن گئے ہیں۔ اپنے اپنے نصیب کی بات ہے اس کے علاوہ اور میں کیا کہوں؟۔