ناچیز ساٹھ کے پیٹے میں ہے۔ ایسے میں ’’چراغ ِآخرِ شب‘‘ ہونے کا احساس بڑھ جاتا ہے اور بار بار یہ سوچ آتی ہے کہ ہمارے پیارے ملک کا مستقبل کیا ہوگا؟ آنے والے دنوں میں تضادستان کے رنگ کیا ہوں گے؟ یہ ناچیز نجومی نہیں، نہ ہی اسے مستقبل کا اصلی حال معلوم ہے تاہم اندازے اور قیافے لگانے میں حرج ہی کیا ہے؟ پاکستانی منظر نامے میں کوئی انہونی نہ ہوگئی تو مستقبل میں تین بڑے سیاسی نام ایک دوسرے کے مدمقابل ہوں گے۔ کپتان خان موروثی سیاست پر یقین نہیں رکھتے لیکن عملی طور پر پہلے انکی بیوی اور اب بہنیں ہی ان کی سیاست چلا رہی ہیں بلکہ اب تو پہلی بار ان کے دونوں صاحبزادوں نے لندن سے سیاست پر لب کشائی کی ہے۔ پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو پارٹی کا مکمل چارج لے چکے ہیں اور زرداری صاحب کے جانشین کے طور پر اپنے اختیارات کا مکمل استعمال بھی کر رہے ہیں۔ میاں نواز شریف کی صاحبزادی مریم نوازسیاسی جانشین کے طور پر اپنی پوزیشن روز بروز مضبوط کر رہی ہیں مقتدرہ سے ان کے تعلقات مثالی ہیں، گویا اب اگلا سیاسی مقابلہ انہی تینوں میں ہو گا۔ نواز شریف، آصف زرداری اور عمران خان اس وقت سیاسی بیک سیٹ پر ہیں فرنٹ پر اب مختلف چہرے چھا رہے ہیں۔
سب سے پہلے تحریک انصاف کا ذکر ہو جائے۔ حالیہ پاک بھارت جنگ نے جنرل عاصم منیر اور مقتدرہ کا گراف بلند کر دیا ہے اور تحریک انصاف کے ویژن پر سوالات پیدا کردیئے ہیں۔ ایسے میں عمران خان کی طرف سے مایوس کن اقدام کے طور پر لندن میںاشرافیہ کے پروردہ اپنے صاحبزادوں سے پریس کانفرنس کروائی گئی۔ دراصل جمائما کے صاحبزادے برطانیہ کی اشرافیہ کے نمائندے ہیں اور برطانیہ کی اشرافیہ انہی کی وجہ سے عمران کی حامی ہے، اسی لئے برطانوی اشرافیہ پاکستان سےعمران کی رہائی کیلئے مطالبات کررہی ہے مگر پاکستانی مقتدرہ نے انکے مطالبات کو ہمیشہ رد کیا ہے۔ دوسری طرف امریکہ کا اس حوالے سے کوئی نرم گوشہ سامنے نہیں آیا، ہوسکتا ہے کہ عمران خان کے صاحبزادے برطانوی اشرافیہ کے ذریعے صدر ٹرمپ سے رابطہ کرنے کی کوشش کریں ۔پریس کانفرنس میں انہوں نے صدر ٹرمپ سے عمران کی رہائی کیلئے اثر و رسوخ استعمال کرنے کا مطالبہ بھی کیا ہے۔ سفارتی ذرائع کے خیال میں امریکہ یا صدر ٹرمپ پاکستان سے ایسا کوئی مطالبہ کرتے نظر نہیں آتے گویا برطانوی اشرافیہ کی حمایت اور امریکی یہودی لابی سے برطانوی اشرافیہ کے قریبی تعلقات کے باوجود امریکی حکومت کی پاکستانی سیاست میں دخل اندازی کا کوئی امکان نہیں۔
کیا عمران خان کے صاحبزادوں کی سیاست میں دلچسپی صرف والد کی رہائی تک ہے یا وہ مستقبل میں کوئی سیاسی کردار بھی ادا کرسکتے ہیں؟ میرے خیال میں عمران خان تو چاہیں گے کہ انکے بیٹے ان کی جگہ سنبھالیں لیکن اس بات کاامکان بہت کم ہے کہ برطانوی اشرافیہ میں پلنے والے انکے صاحبزادے پاکستان میں آ کے مشکلات برداشت کریں۔ البتہ اس وقت علیمہ خان پارٹی میں سب سے طاقتور ہیں لیکن وہ عمران کے نام اور سہارے سے ہی طاقتور ہیں، عمران خان نے جس دن چاہا وہ انہیں ڈانٹ پلا کر اختیارات واپس لے لیں گے۔ عمران خان نے اگر اپنے تجربہ کار ساتھی شاہ محمود قریشی ،کے لمبی جیل کاٹنے کے باوجود ،کبھی ان پر اعتبار نہیں کیا تو وہ کسی اور پر کیسے کریں گے؟
مریم نواز کی سیاسی جانشینی یقینی ہوتی جا رہی ہے وہ آہنی سختی سے اپنی منزل کی طرف بڑھ رہی ہیں مقتدرہ اور انکے درمیان خلاکافی حد تک دور ہو چکا ہے۔ دلچسپ ترین تبصرہ یہ ہے کہ لاہور سیکرٹریٹ میں 051یعنی اسلام آباد سے بہت کم کالز آتی ہیں گویا مریم نواز شریف بنا کسی مداخلت کے اپنا راستہ بنا رہی ہیں گو انہوں نے مسلم لیگ ن یعنی اپنی پارٹی پر توجہ نہیں دی لیکن پنجاب کی حد تک اب انہی کی چلتی ہے، وزیر اعظم شہباز شریف سرے سے سیاست کرتے ہی نہیں وہ بہترین منیجر ہیں ابھی تک انہوں نے ایک ہی سیاسی جلسے سے خطاب کیا ہے اور وہ بھی دور دراز ڈیرہ غازی خان میں۔ ابھی یہ اندازہ کرنا تو مشکل ہے کہ کیا نواز شریف نے مریم کو جانشین بنانے کے فیصلے سے شہباز شریف کو آگاہ کیا ہے یا نہیں؟ اندازہ یہ ہے کہ شہباز شریف چونکہ بغیر کسی مزاحمت کے مریم نواز کو سفارتی تقریبات میں متعارف کروا رہے ہیں اس لئےلگتا ہے کہ انہوں نے بھی مریم نواز کی جانشینی کو تسلیم کرلیا ہے۔
اب رہ گئے بلاول اور پیپلز پارٹی کی سیاست۔ سندھ کے وزیر اعلیٰ مراد علی شاہ بہت قابل اور ڈائنامک ہیں مگر اندھی سیاست میں قابلیت نہیں قرابت دیکھی جاتی ہے۔ پیپلز پارٹی سندھ کی ایک لابی فریال تالپور کو وزیراعلیٰ بنانا چاہتی ہے فی الحال فریال تالپور یہ عہدہ لینے کیلئے تیار نہیں، وہ پسِ پردہ رہ کر ہی کام کرنا چاہتی ہیں۔ دوسری طرف بلاول کے بھارت کے خلاف جارحانہ بیانات کے باوجود مقتدرہ سے ان کی اتنی قربت نظر نہیں آ رہی جتنی بطورِ وزیر خارجہ ہوا کرتی تھی بلاول کئی مواقع پر مقتدرہ کے خلاف بھی غصے میں آ جاتے ہیں جسکا ردعمل بھی آتا ہے ایسے مواقع پر صدر زرداری مداخلت کرکے معاملات کو سلجھاتے ہیں۔ بلاول کا سندھ کی سیاست پر اب بھی ہولڈ ہے۔ مرتضیٰ بھٹو کے صاحبزادے ذوالفقار جونیئر کی طرف سے سیاست اور نہروں کے مسئلہ پر قوم پرستوں کے شور شرابے کے باوجود بلاول بھٹو کی مقبولیت کو فی الحال کوئی خطرہ نہیں لیکن بلاول بھٹو وزیر اعظم پاکستان تب ہی بن سکتے ہیں جب پنجاب سے 30 سے زائد نشستیں حاصل کریں اور ایسا تبھی ممکن ہے جب پیپلز پارٹی کا پنجاب میں احیا ہو یا پھر کوئی 30 نشستیں ان کی جھولی میں ڈال دے۔
کہنے کو تو ماشاء اللّٰہ نواز شریف، آصف زرداری اور عمران خان زندہ سلامت ہیں فی الحال جنگ بھی انہی تینوں کے درمیان ہے پیروکار بھی انکے ہی ہیں مگر وقت ان کے ہاتھوں سے پھسلتا جا رہا ہے اور نئے چہرے انہیں آہستہ آہستہ پیچھے دھکیل رہے ہیں۔ ایک نئی حقیقت یہ ہے کہ جنرل عاصم منیر مکمل غیر سیاسی ہونے کے باوجود اس وقت سیاسی طور پر بہت مقبول ہو چکے ہیں، عجب نہیں کہ عوامی اور سیاسی اجتماعات میں انکے نام کے لگائے جانے والے نعرے سب سےزیادہ مقبول ہو جائیں۔ جنرل عاصم منیر کے نہ چاہنے اور بغیر کسی کوشش کے اب وہ ریاست کے سب سے بڑے اور پاپولر اسٹیک ہولڈر بن چکے ہیں۔