• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

میری یادداشت میں پہلی مصنف قرہ العین حیدر ہیں جنہوں نے اپنے خاندانی کوائف کے ناول میں اپنے دادا کا ذکر کیا جو 1857 میں بھی انگریزوں کی نوازشات سے محروم نہیں ہوئے تھے۔ تاہم انہوں نے اپنے گھر میں اس باغی بھائی کو چھپا رکھا تھا جنہیں سزائے موت دی جا چکی تھی اور اسی مصنف نے مسلمانوں کے انگریزوں سے love -Hate تعلق کا ذکر کیا۔ محبت نفرت آمیز یا نفرت محبت آمیز !

پھر یہ سلسلہ پھیلتا ہی گیا امریکہ ہمیں اسلحہ دیتا تھا ہم اسے امریکی سامراج بھی کہتے تھے اور اپنے بچوں کو ہاورڈ کا گریجوئٹ بنانے کا خواب بھی دیکھتے تھے۔ پھر یہی رشتہ بھارت سے رہا ہمیں ان کی فلمیں، موسیقی اور کتابیں اچھی لگتی ہیں مگر65 ہو 71ہو یا 2025ان کی زہر اگلتی زبانیں اور توپیں تھوہر اور کیکر کے کانٹے بھی بن جاتی ہیں۔ پھر دونوں ملکوں میں دہشت گردی کی ختم نہ ہونے والی جنگ چھڑی تب افغان جہاد کے نام پر ہمارے پیارے خان کے اتالیق اول حمید گل یاد آتے ہیں جو ملتان کے کور کمانڈر تھے اور ہماری یونیورسٹی میں اکثر بھاشن دیا کرتے تھے ایک مرتبہ انہوں نے کہا کہ بے شک بھارت ہمارے مقابلے پر ہاتھی ہے مگر ہم اسے ان گنت سوئیاں چبھو رہے ہیں آپ دیکھیں گے کہ یہ ہاتھی دھڑام سے گرے گا مجھ ایسے نے ہرزہ سرائی کی کہ جنرل صاحب! دیکھئے گا کہ یہ ہاتھی کہیں ہمارے اوپر ہی نہ گر جائے جنرل صاحب نے جلالی نگاہ مجھ پر ڈالی مگر تب خیال کیا کہ ایک اسسٹنٹ پروفیسر کی بک بک سے ریاست کو کوئی خطرہ نہیں ہو سکتا۔

پھر بھارت کی تربیت یافتہ تحریک طالبان پاکستان نےہمارے بچوں کے سکول میں گھس کے انہیں بے دردی سے قتل کر دیا۔ کراچی کی نیول ایئر بیس پر اربوں روپے کے اورین طیارے کو تباہ کر دیا اور دوسرے کو نقصان پہنچایا مگر سارک رائٹرز کانفرنسیں شروع ہوئیں تو انتظار حسین، کشور ناہید، اصغر ندیم سید اور مستنصر حسین تارڑ کے ساتھ دلی اور آگرہ جانا ایک اور دنیا میں لے گیا۔ نظام الدین اولیا کے مقبرے پر نماز فجر ادا کرتا امیر خسرو کے مزار پر لکھے اس بورڈ کہ یہاں عورتوں کا داخلہ منع ہےپر منت سماجت کرنا کہ ظالمو خسرو نے تو لکھا ہی عورتوں کے لئے ہے اور پھر غالب کی قبر پر بیٹھ کے اس کے خطوں کے ٹکڑے اور دل پر نقش کچھ شعر سناتا۔

ایک مرتبہ نجیب جمال ساتھ تھے تو انہوں نے مزار کے کونے میں رکھی ایک جھاڑو سے مقبرہ ہی نہیں پورا احاطہ صاف کیا۔ پھر تاج محل تو کئی مرتبہ گئے مگر ایک مرتبہ جب دلی سے آگرہ بس میں جانا تھا تو کشور ناہید نے کہا کہ میری بھتیجی حنا امریکہ سے آئی ہے اسے بھی ساتھ لے جاو اورافسانہ نگار نیلوفر اقبال کو بھی اور ایک غرارہ پوش خاتون کو بھی۔ اصغر ندیم سید نے بھی ہمارے ساتھ جانا تھا مگر مستنصرحسین تارڑ نے اسے کہا کہ میرے ایک بھارتی عقیدت مند نے گاڑی بھیجی ہے میرے ساتھ چلو چھوڑو انوار وغیرہ کو سو ندیم نے دلاسہ دیا کہ ہم سب جاتو تاج محل ہی رہے ہیں وہیں ملاقات ہو جائے گی یار۔

ہم پاکستانیوں کی رنگت شنگت بھارتیوں سے ملتی ہے ، بھارتیوں کے لئے ’’ہمارے‘‘ قطب مینار ’’ہمارے‘‘ تاج محل کا ٹکٹ 20 روپے ہے غیر ملکیوں کے لئے 20ڈالر۔ ہمیں کیا ضرورت تھی غیر ملکی بننے کی مگر کچھ تو ہمارے وفد کی خواتین کے غرارے اور کچھ میری جیب میں پاکستانی شناخت کارڈ اور اے ٹی ایم کے سبب الارم بج اٹھے یوں لگا کہ پاکستانی آتنک وادی گھس آئے ہیں۔ پانچ ٹکٹوں کے ایک سو روپے غارت ہوگئے میں نے پاکستانی وقار کو بچانے کے لئے اب ایک ہزار روپے کی پانچ ٹکٹیں لیں۔ اس، دوران میں پاک بھارت اشتراک کا ایک پہلو بھی سامنے آیا جب میں دوبارہ ٹکٹیں لے رہا تھا تو پولیس کا ایک حوالدار آیا کہ ’’ہجار کی ٹکٹیں نہ لو بس پانچ سو روپلی مجھے دو اور پچھلے ٹکٹوں پر ہی اندر چلا جاو ‘‘ مگر اب یہ قومی وقار کا سوال تھا میں نے اس، کی پیش کش ٹھکرا دی۔

نصف شب کے قریب جب یہ بس واپس دلی جاتے ہوئے رام کے پسندیدہ جنگل سے گزری تو اعلان ہوا کہ یہاں رام مندر ہے ہندو اس کی یاترا کر لیں تب کشور کی مہم جو بھتیجی حنا نے کہا یہ موقع پھر نہیں ملے گا سو ہم دونوں اندر گئے لمبا قصہ ہے مختصر یہ کہ ہمیں بتایا گیا کہ رام کی ایک مورتی اسی جنگل سے ملی ہے اس کی زیارت کریں اور حسب توفیق سلامی دیں جب انہوں نے مورتی کا حجرہ دکھایا تو وہ سونے کی پتریوں سے سجا ہوا تھا تب مجھے ملتان کا مندر یاد آیا جس میں بڑے بت کے نیچے سینکٹروں من سونا تھا جہاں سے ہماری 'ان ' سے لڑائیوں کا آغاز ہوا۔

تازہ ترین