تضادستان کے گلستان میں جنگ کے بعد سے بلبل، پھول اور کانٹے کی کارفرمائی زیادہ نمایاں نظر آنا شروع ہو گئی ہے۔ 1947ء سے لیکر اب تک پاکستان اور بھارت کی جتنی بھی چھوٹی بڑی جنگیں ہوئیں وہ نتیجہ خیز نہیں تھیں۔ بھارت دعویٰ کرتا کہ وہ جیت گیا ہے جبکہ پاکستان کا دعویٰ ہوتاکہ ہم فاتح ہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ دھندلے نتائج میں کوئی واضح فاتح نہیں تھا بلکہ ہمارے کئی ریٹائرڈ جرنیلوں نے تو یہ تک لکھ دیا کہ ہربار ہمیں شکست ہوئی۔ مگر اس بار اندرونی طور پر اور بین الاقوامی منظر نامے پر بھی یہ واضح تاثر ہے کہ پاکستان جنگ میں فتح یاب ٹھہرا ہے، خاص کر فضائی جنگ میں جب 0-6کا حوالہ دیا جاتا ہے تو یہ ثابت ہو جاتا ہے کہ ہماری فضائیہ نے بھارت کے 6طیارے مار گرائے جبکہ ہمارا کوئی نقصان نہیں ہوا۔
جنگ میں فتح کے بعد ثمرات سمیٹنے کیلئے ہر کوئی فتح کا باپ بن جاتا ہے، یہ بڑا ہی خطرناک لمحہ ہوتا ہے۔ تضادستان کے سول ملٹری تعلقات کی تاریخ بڑی تلخ ہے کارگل کی وجہ سے سیاسی حکومت رخصت ہو گئی تھی، جنیوا معاہدے میں نئی افغان حکومت کی تشکیل پر اختلاف کی وجہ سے محمد خان جونیجو کوگھر بھیج دیا گیا تھا مگر وزیر اعظم شہباز شریف نے اپنی روایتی لچک اور کشادہ دلی سے اس معاملے کو خوش اسلوبی سے نمٹا دیا۔ شہباز شریف، صوفی شاعر میاں محمد بخش کی وہ بلبل بن گئے جسے پھولوں کی قدر ہوتی ہے ؎
قدر پھلاں دی بلبل جانے صاف دماغاں والی
قدر پھلاں دی گرج کیہ جانے مُردے کھاوَن والی
وزیر اعظم نے بلبل بن کر نہ صرف فوج کی بہادری کے ترانے گائے بلکہ اصل ہیرو جنرل عاصم منیر کو پھول جانتے ہوئے انہیں فیلڈ مارشل کے اعزاز سے بھی نوازا۔ کچھ روز پہلے وزیر اعظم نے چند منتخب صحافیوں کو اسلام آباد میں عرصہ دراز کے بعد یاد کیا اور انہیں جنگ کی تفصیلات پر اعتماد میں لیا۔اس گستاخ نے پوچھا کہ فیلڈ مارشل بنانے کی تجویز کہیں سے آئی تھی یا آپ نے خود یہ فیصلہ کیا۔ وزیر اعظم نے جواباً دو تین بار زور دیکر کہا یہ میری تجویز تھی ہم نے خود اس کا فیصلہ کیا صدر کو اعتماد میں لیا اور آرمی چیف نے اسے قبول کر لیا۔ ماضی میں حکمرانوں کا رویہ گرجوں یعنی چیلوں والا ہوتا تھا جنہیں پھولوں کی ذرہ برابر قدر نہیں تھی شہباز شریف بلبل ہیں صاف دماغ ہیں اس لئے انہیں نہ صرف پھولوں کی قدر ہے بلکہ وہ پھولوں کو قدر اور اعزاز دینا بھی جانتے ہیں۔
اقتدار کے ایوان شیشے کے گھر ہوتے ہیں اس لئے ان میں مقیم لوگ گستاخ اور سرکش گھوڑے نہیں ہو سکتے وہ سدھائے ہوئے ہوتے ہیں وہ نوآموز نہیں آزمودہ ہوتے ہیں شیشے کےگھر میں کوئی سرکش آجائے تو حسن ترتیب ٹوٹ جاتا ہے۔ اسد اللہ غالبؔ کے شعر کے مصداق مجنوں پر سنگ اٹھاتے ہوئے یہ پوچھنے کی ہمت کی کہ سول ملٹری تعلقات میں اونچ نیچ کی وجہ سے کئی سیاسی حکومتیں وقت سے پہلے گھر چلی جاتی ہیں۔ وزیر اعظم نے بڑے اعتماد سے کہا کہ ہمارے تعلقات بہت بہترین ہیں مگر پھر کچھ سوچتے ہوئے کہا کہ حکومت ختم ہونے کی تو کوئی پیشن گوئی نہیں کی جاسکتی وہ کل بھی ختم ہوسکتی ہے اور مدت پوری بھی کر سکتی ہے۔
اس محفل میں جہاں بلبل وزیر اعظم ہو، پھول فیلڈ مارشل جنرل عاصم منیر ہو وہاں کانٹے کا ذکر تو ہونا ہی تھا، سو ہوا۔ کئی بار دوستوں نے یہ سوال پوچھا کہ بانی پی ٹی آئی سے مذاکرات کیوں نہیں ہو رہے؟ کسی نے تجویز بھرا سوال کیا کہ باہر بھیجے جانے والے وفود میں اپوزیشن ہوتی تو کیا اچھا نہ ہوتا؟ وزیر اعظم نے کہا کہ میں تو مذاکرات کیلئے کئی بار دعوت دے چکا ہوں ابھی تک دوسری طرف سے کوئی جواب نہیں آیا۔ بیرونی وفود کے بارے میں کہا کہ یہ بھارت کی طرح کے پارلیمانی وفود نہیں ہیں یہ حکومتی وفود ہیں جن میں حکومت کے نامزد کردہ سفارتکار اور لیڈر شامل کئے گئے ہیں۔
بلبل کا نغمہ سوزو ساز اس وقت سنسنی خیز رنگ اختیار کر گیا جب انہوں نے تین چار روزہ جنگ کے واقعات بیان کئے جس میں حکومتی، عسکری اور سفارتی مشترکہ حکمت عملی کی تفصیل بیان کی گئی۔ انہوں نے بتایا کہ بھارت نے پہلے روز مرید کے اور بہاولپور کے حملوں کے بعد فائر بندی کی بات ہم تک پہنچائی تھی جواباً طیارے گرائے گئے تو سیز فائر کی پیشکش پھر آئی، امریکی وزیر خارجہ مائیک روبیو، پاکستان اور بھارت دونوں اطراف میں بات کر رہے تھے مگر آرمی چیف اور حکومت دونوں متفق تھے کہ بھارت کے حملے کا منہ توڑ جواب دیئے بغیر سیز فائر دیرپا نہیں ہو سکتی۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے بتایا ہم نے ڈیڑھ دن تیاری کیلئے لیا اور پھر رات تین بجے جنرل عاصم منیر نے فون کرکے بتایا کہ ہم حملے کیلئے تیار ہیں اور پھر باہم مشورے سے بھرپور حملے کر کے بھارت کو سبق سکھا دیا گیا۔ وزیر اعظم نے کہا کہ اپنے ہدف کو پورا کرنے کے بعد پاکستان سیز فائر پر تیار ہوا۔ بلبل نے فاتحانہ طور پر بتایا کہ قیام پاکستان کے بعد بھارت سے جتنی بھی جنگیں ہوئیں ان میں واضح برتری پہلی دفعہ حاصل ہوئی ہے۔ ایک گستاخ نے پوچھ لیا کہ کیا بڑے میاں صاحب بھی ان سب فیصلوں میں شریک تھے؟ اور یہ بھی کہ ماضی میں بڑے میاں صاحب کے مقتدرہ سے مراسم اچھے نہیں رہے تو کیا جنرل عاصم منیر کو فیلڈ مارشل بنانے کے بارے میں ان سے مشورہ ہوا؟ وزیر اعظم دام میں آنے والی بلبل نہیں انہوں نے مسکراتے ہوئے تیزی سے کہا میں اپنے لیڈر میاں نواز شریف سے پوچھے بغیر کوئی فیصلہ نہیں کرتا۔
گلستان تضادستان میں پاک بھارت سیز فائر کے بعد مذاکرات کے ایجنڈے کی تیاری جاری ہے۔ دوسری طرف اندرون ملک کانٹے سے سیز فائر کا کوئی امکان نظر نہیں آ رہا بلکہ کانٹے کی پارٹی تو ایک نئی احتجاجی تحریک کی تیاریاں کر رہی ہے۔ مفاہمت کی خوگر قیادت بیرسٹر گوہر علی کی شکل میں کونے لگتی جا رہی ہے۔ علیمہ خان، بانی پی ٹی آئی کی سوچ کی اصل ترجمان بن چکی ہیں ان کالموں میں کافی عرصہ سے یہ نشاندہی کی جا رہی ہے کہ فی الوقت تحریک انصاف کی سیادت اور سیاست علیمہ خان ہی کے ذمے ہے۔ اس وقت تحریک انصاف کے پاس سٹریٹ پاور نہیں ہے البتہ وزیر اعلیٰ گنڈا پور پختونخواہ میں حکومت میں ہونے کی وجہ سے اپنے صوبے سے ایک جلوس لاسکتے ہیں مگر دوسری طرف گنڈا پور کے بارے میں مقتدرہ میں وہ نرم گوشہ باقی نہیں رہا جو ماضی میں تھا۔ اگر کےپی سے کوئی جلوس لانے کی کوشش کی گئی تو اس مرتبہ شدید سختی کا امکان ہے۔ دوسری طرف وزیر اعظم اور مقتدرہ دونوں وزیر اعلیٰ گنڈا پور کی انتظامی صلاحیتوں پر بھی شدید تحفظات رکھتے ہیں ۔کہا جا رہا ہے کہ پختونخواہ کی حکومت کی غلطیوں کی وجہ سے 3سے 8اضلاع میں طالبان رات کو پورا علاقہ سنبھال لیتے ہیں حکومتی رٹ ان 8اضلاع سے ختم ہو چکی ہے اس وجہ سے سیکورٹی اداروں کو درجنوں مسلح طالبان سے مڈبھیڑ میں نمٹنا پڑتا ہے۔ اگر واقعی پختونخواہ میں سیاسی بازار گرم ہوا تو اس کا پہلا شکار وزیر اعلیٰ گنڈا پور ہونگے۔
پاک بھارت سیز فائر کے بعد ضرورت اس امر کی ہے کہ داخلی صورتحال میں بھی سیاسی سیز فائر ہو۔ دونوں فریق لچک کا مظاہرہ کریں حکومت اور اپوزیشن سنجیدہ مذاکرات کر کے نارملائزیشن کی طرف مرحلہ وار آگے بڑھیں۔ اندرون خانہ امن ہی بیرونی امن کا دیرپا ضامن ہوگا۔