امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی انتخابی مہم میں امریکہ میں بڑھتی ہوئی بیروزگاری کے پیش نظر اعلان کیا تھا کہ وہ ملک میں روزگار کے نئے مواقع پیدا کرنے کیلئے مقامی صنعت کو دوبارہ فعال کرینگے۔ امریکی صنعت نے 60سال دنیا پر حکومت کی لیکن گزشتہ دو دہائیوں سے چین کی مسلسل پیداواری ترقی نے امریکہ کے صنعتی شعبے کو شدید نقصان پہنچایا ہے اور امریکہ میں پیداواری لاگت میں اضافے کی وجہ سے ہر سال بیروزگاری میں اضافہ ہورہا ہے تاہم آئی ٹی اور جدید ٹیکنالوجی کے شعبوں نے امریکی معیشت کو سنبھالا دیا ہے مگر اب چین، آئی ٹی کے شعبے میں بھی امریکی برتری کو چیلنج کرتا نظر آرہا ہے۔ امریکہ میں اضافی پیداواری لاگت کی وجہ سے زیادہ تر اشیاء چین اور دیگر ممالک سے امپورٹ کی جارہی ہیں جو امریکی اشیاء کے مقابلے میں سستی پڑتی ہیں لیکن امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے گزشتہ ماہ چین سمیت 60 ممالک کی امریکہ امپورٹ پر جوابی ٹیرف عائد کرکے پوری دنیا کی تجارت میں ایک بھونچال پیدا کردیا ہے۔ امریکہ نے چینی مصنوعات کی امپورٹ پر 245فیصد جوابی ٹیرف عائد کیا تھا جسے بعد میں کم کرکے 125فیصد کردیا گیا جسکے جواب میں چین نے بھی امریکی اشیاء پر 125فیصد اضافی ٹیرف عائد کیا ہے۔ 2024ء میں چین کی امریکہ ایکسپورٹ 440ارب ڈالر رہی جس میں چین، امریکہ کو ایپل کمپیوٹرز، آئی فون اور سیمی کنڈیکٹرز جنکی مینوفیکچرنگ چین میں ہورہی ہے، کے علاوہ نایاب معدنیات فراہم کر رہا ہے جو مصنوعی ذہانت کی چپس اور دیگر اہم شعبوں کیلئے ضروری ہیں۔
قارئین! دنیا کے 9ممالک پوری دنیا کی 90فیصد معیشت کے مالک ہیں۔ ان میں سب سے بڑا ملک امریکہ ہے جسکی اقتصادی مالی حیثیت 25000 ارب ڈالر سے زائد ہے۔ اسکے بعد چین اور روس کا نمبر آتا ہے۔ دنیا ایک گلوبل ویلج ہے اور امریکی ٹیرف سے چین، کینیڈا اور میکسیکو جیسے بڑے ممالک بھی بری طرح متاثر ہوئے ہیں۔ کینیڈا جس کی اقتصادی مالی حیثیت 2000ارب ڈالر ہے، امریکہ کو خام تیل، گیس، بجلی اور معدنیات ایکسپورٹ کرتا ہے لیکن اضافی امریکی ٹیرف سے کینیڈا میں مہنگائی اور بیروزگاری بڑھ جائے گی۔ امریکہ نے پاکستان پر بھی 29فیصد جوابی ٹیرف لگایا ہے جبکہ پاکستان کا امریکی اشیاء پر ٹیرف 58 فیصد ہے تاہم کچھ روز بعد امریکہ نے اضافی ٹیرف 90روز کیلئے موخر کردیا ہے لیکن چین کے علاوہ تمام دیگر ممالک پر کم از کم 10فیصد اضافی ٹیرف نافذ رہے گا۔ پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف ڈویلپمنٹ اکنامکس (PIDE) کے مطابق پاکستان پر امریکی اضافی ٹیرف سے پاکستان کی امریکہ ایکسپورٹس میں 20سے 25فیصد کمی متوقع ہے جسکے نتیجے میں پاکستان سے امریکہ ایکسپورٹس کو 1.4ارب ڈالر سالانہ کا نقصان ہوگا جس میں سب سے زیادہ نقصان ٹیکسٹائل سیکٹر کو اٹھانا پڑیگا۔ گزشتہ دنوں قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے فنانس کا اجلاس ہوا جس میں وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے اپنے حالیہ دورہ امریکہ، آئی ایم ایف اور دیگر عالمی بینکوں کے سربراہان سے ملاقاتوں کے بارے میں تفصیلی بریفنگ دی جبکہ قائمہ کمیٹی برائے کامرس کے اجلاس میں وفاقی سیکریٹری کامرس جواد پائول نے پاکستان پر اضافی امریکی جوابی ٹیرف پر ایک اہم ان کیمرہ بریفنگ دی اور اس سلسلے میں پاکستانی وزارت تجارت کے وفد کے دورہ امریکہ کے بارے میں بتایا۔ کمیٹی کے ممبران کو یہ بھی بتایا گیا کہ اضافی امریکی ٹیرف کا اصل مقصد امریکہ اور دیگر ممالک کے مابین تجارتی خسارے میں کمی ہے۔ تجارتی خسارہ ایکسپورٹ اور امپورٹ کے مابین فرق ہوتا ہے۔ امریکہ اور پاکستان کی باہمی تجارت 7.3ارب ڈالر ہے جس میں امریکہ سے پاکستان ایکسپورٹ 2.1ارب ڈالر جبکہ پاکستان سے امریکہ ایکسپورٹ 5.2ارب ڈالر ہے۔ پاکستان سے امریکہ ایکسپورٹ میں سب سے بڑا حصہ ٹیکسٹائل مصنوعات کا ہے۔ اسکے علاوہ چاول، چمڑے کی مصنوعات، کھیلوں کا سامان اور دیگر اشیاء امریکہ ایکسپورٹ کی جاتی ہیں جبکہ امریکہ سے پاکستان ایکسپورٹ کی جانیوالی اشیاء میں خام کپاس، لوہا اور اسٹیل اسکریپ، مشینری، بوائلرز، فارما کیمیکلز اور دیگر اشیاء شامل ہیں۔
پاکستان اور امریکہ کا تجارتی خسارہ 3.4 ارب ڈالر ہے جس میں امریکہ کمی چاہتا ہے۔ اگر ہم امریکہ سے ایک ارب ڈالر کی خام کاٹن اور ایک ارب ڈالر کی مشینری کی اضافی امپورٹ کریں تو پاکستان اور امریکہ کا تجارتی خسارہ کم ہوکر صرف 1.4 ارب ڈالر رہ جائے گا جو امریکہ کو قابل قبول ہوگا۔ اسکے علاوہ ہمیں امریکی مصنوعات کی امپورٹ پر عائد نان ٹیرف بیریئرز بھی ختم کرنے پڑیں گے جسکے بدلے ہم امریکہ سے پاکستان پر عائد 29فیصد اضافی ٹیرف میں کمی کا مطالبہ کرینگے جس سے امریکی خریدار کو پاکستانی مصنوعات امپورٹ کرنے میں سستی پڑیں گی۔ قائمہ کمیٹی کے اجلاس میں امریکہ میں پاکستان کے سفیر اور میرے دوست رضوان سعید شیخ نے بھی شرکت کی اور اضافی امریکی ٹیرف کے سلسلے میں پاکستانی سفارتخانے کی کاوشوں کے بارے میں بتایا۔ پاکستان کسی صورت میں بھی امریکی مارکیٹ کا شیئر کھونے کا متحمل نہیں ہوسکتا بلکہ ہمیں چین، بنگلہ دیش، ویت نام اور کمبوڈیا جن پر امریکی جوابی ٹیرف ہم سے کافی زیادہ ہیں، کا مارکیٹ شیئر حاصل کرنا چاہئے۔