• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سنی اتحاد کونسل نے مخصوص نشستوں پر کیسے دعویٰ کیا: جسٹس مسرت ہلالی کے ریمارکس

اسکرین گریب
اسکرین گریب

سپریم کورٹ کی جج جسٹس مسرت ہلالی نے ریمارکس دیے کہ سنی اتحاد کونسل نے مخصوص نشستوں پر کیسے دعویٰ کیا، سنی اتحاد کونسل کو مخصوص نشستیں کیسے مل سکتی ہیں، پارلیمنٹ میں آنے والی جماعت میں آزاد امیدوار شامل ہو سکتے ہیں، جو سیاسی جماعت پارلیمنٹ میں نہ ہو اس میں کیسے آزاد لوگ شامل ہوسکتے ہیں۔

جسٹس امین الدین کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے آئینی بینچ نے مخصوص نشستوں سے متعلق کیس کی براہ راست سماعت کی۔

دورانِ سماعت وکیل مخدوم علی خان نے کہا کہ سنی اتحاد کونسل کے مطابق آزاد امیدوار ان کے ساتھ شامل ہو گئے تھے۔

جسٹس مسرت ہلالی نے وکیل سے سوال کیا کہ کیا سنی اتحاد کونسل نے انتحابات میں حصہ لیا تھا؟

وکیل مخدوم علی خان نے عدالت کو بتایا کہ سنی اتحاد کونسل نے انتخابات میں حصہ نہیں لیا، سنی اتحاد کونسل کے چیئرمین نے خود آزاد حیثیت میں الیکشن لڑا، سنی اتحاد کونسل نے عام الیکشن لڑا ہی نہیں۔

جس پر جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ سنی اتحاد کونسل مخصوص نشستوں کی حقدار نہیں۔

جسٹس مسرت ہلالی نے کہا کہ آزاد ارکان نے جیتی ہوئی پارٹی میں شامل ہونا تھا۔

وکیل مخدوم علی خان نے کہا کہ سنی اتحاد کونسل کی اپیل کو متفقہ طور پر مسترد کیا گیا، مخصوص نشستوں پر منتخب ارکان کو ڈی نوٹیفائی کر دیا گیا، ارکان کو ڈی نوٹیفائی کرنے سے قبل کوئی نوٹس نہیں کیا گیا۔

جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ عدالت نے الیکشن کمیشن کے نوٹیفکیشن کو کالعدم قرار دیا تھا، عدالت کے سامنے الیکشن کمیشن کا نوٹیفیکیشن تھا۔

وکیل مخدوم علی خان نے کہا کہ عدالتی فیصلہ میں آرٹیکل 225 کا ذکر تک نہیں ہے، آرٹیکل 225 کے تحت کسی الیکشن پر سوال نہیں اٹھایا جا سکتا۔

جسٹس جمال خان مندوخیل نے وکیل سے سوال کیا کہ آرٹیکل 225 کا اس کیس میں اطلاق کیسے ہوتا ہے۔

جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ یہ مخصوص نشستوں کا معاملہ تھا، مخصوص نشستیں متناسب نمائندگی پر الاٹ ہوتی ہیں۔

مخدوم علی خان نے کہا کہ مخصوص نشستوں کی فہرستیں الیکشن سے قبل جمع ہوتی ہیں۔

جسٹس شاہد بلال نے وکیل مخدوم علی خان سے سوال کیا کہ کیا پی ٹی آئی مخصوص نشستوں کے کیس میں فریق تھی، کیا جو جماعت فریق نہ ہو اسے نشستیں دی جا سکتی ہیں؟

وکیل مخدوم علی خان نے کہا کہ جو سیاسی جماعت فریق نہ ہو اسے نشستیں نہیں مل سکتیں، جسٹس یحییٰ آفریدی نے کہا تھا پی ٹی آئی کیس میں فریق نہیں تھی۔

جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ اس وقت الیکشن کمیشن کے کردار کو بھی ہم نے دیکھنا تھا، میرے مطابق الیکشن کمیشن نے اپنی ذمے داری پوری نہیں کی تھی، نشستیں دینا نہ دینا اور مسئلہ ہے، الیکشن کمیشن کا کردار بھی دیکھنا تھا۔

وکیل مخدوم علی خان نے کہا کہ سپریم کورٹ کے فیصلے میں سیٹیں ان تمام لوگوں کو دی گئیں جو پارٹی نہیں تھے۔

جسٹس مسرت ہلالی نے وکیل سے کہا کہ مخدوم صاحب آپ نے وہ دلائل بھی ختم کیے ہیں جس میں فیکٹ بتائے تھے، سنی اتحاد نے نشستوں کا مطالبہ کس بنیاد پر کیا ہے۔

وکیل مخدوم علی خان نے کہا کہ سنی اتحاد کونسل کی اپیل کو 13 ججوں نے متفقہ طور پر مسترد کیا، عدالتی فیصلہ موجود ہے کہ آئین و قانون سے برعکس فیصلہ ناقص ہو گا، اکثریتی فیصلے میں 39 لوگوں کو تحریک انصاف کا ڈکلیئر کیا گیا،41 لوگوں کو وقت دیا گیا کہ وہ 15 دن میں کسی سیاسی جماعت کو جوائن کریں، جسٹس جمال مندوخیل اور جسٹس یحییٰ آفریدی نے بھی لکھا ٹائم لائن کی قانونی شرائط پوری کرنا لازمی ہے۔

جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ میرے فیصلے میں 39 لوگوں کو تحریک انصاف کا ڈکلیئر کر کے نشستیں دینے کا کہا گیا تھا، کوئی فارمولا نہیں تھا کہ درمیان کا راستہ چنا جائے، میں نے ساری رات جاگ کر دستیاب ریکارڈ کا جائزہ لیا، دستیاب ریکارڈ کے مطابق پارٹی سرٹیفکیٹ اور وابستگی کے خانے میں 39 لوگوں نے پی ٹی آئی لکھا۔ جس پر جسٹس امین الدین خان نے کہا کہ یہ ریکارڈ عدالت کے سامنے نہیں تھا۔

جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ یہ ریکارڈ عدالت کی جانب سے الیکشن کمیشن سے مانگا گیا تھا۔

وکیل مخدوم علی خان نے کہا کہ پی ٹی آئی کیس میں فریق نہیں تھی، دوران سماعت متفرق درخواست سے فریق بنی، پی ٹی آئی نے متفرق درخواست میں کہا کہ وہ صرف عدالت کی معاونت کرنا چاہتے ہیں، اپنے اقلیتی فیصلے میں جسٹس یحییٰ آفریدی نے کہا کہ پی ٹی آئی نے درخواست دائر نہیں کی، جسٹس یحییٰ آفریدی نے لکھا پی ٹی آئی نے بطور فریق ثالت معاونت کی درخواست دی، جسٹس یحییٰ آفریدی نے لکھا پی ٹی آئی نے نشستیں لینے کی درخواست نہیں دی۔

جس پر جسٹس مندوخیل نے کہا کہ اکثریتی فیصلے میں وجوہات لکھی گئیں، پی آئی فریق نہیں تھی تو کیسے نشستیں دی گئیں۔

وکیل مخدوم علی خان نے کہا کہ اکثریتی فیصلے میں لکھا گیا عدالت مکمل انصاف کا اختیار کرتے ہوئے نشستیں پی ٹی آئی کو دیتی ہے، جسٹس امین الدین خان اور جسٹس نعیم افغان نے لکھا تحریک انصاف ہمارے سامنے فریق نہیں۔

جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ الیکشن کے دوران پریزائیڈنگ افسران نے آئین کے تحت اپنی ذمہ داری ادا نہیں کی، ہمارے سامنے آئی اپیل انتخابات میں غلطیوں کا تسلسل تھی، ہم نے اپنے فیصلے میں لکھا تھا کہ لوگوں کو حق رائے دہی سے محروم نہیں رکھا جاسکتا، کوئی ہمارے سامنے ہو یا نہیں، پریذائیڈنگ افسران کی غلطی کی سزا عوام کو کیسے دی جاسکتی ہے، پریزائیڈنگ افسران نے فارم 33 درست طریقے سے نہیں بنائے، آئین کے آرٹیکل 185 میں سپریم کورٹ کا دائرہ اختیار کیا ہے؟

وکیل مخدوم علی خان نے کہا کہ یہ عدالت ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف اپیل کے دائرہ اختیار میں تھی، سپریم کورٹ نے مخصوص نشستوں کا کیس بنیادی دائرہ اختیار جو کہ 184/3 کا ہے میں نہیں سنا۔

جس پر جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ بنیادی سوال یہ ہے یہ عدالت مکمل انصاف کا اختیار کس حد تک استعمال کر سکتی ہے۔ 

وکیل مخدوم علی نے کہا کہ مخصوص جماعت کی طرف ریلیف موڑنے کے لیے ماورائے آئین فیصلہ نہیں دیا جا سکتا، آئین کا آرٹیکل 187 کوئی دائرہ اختیار نہیں ہے، مکمل انصاف آئین کی پرویژن ہے جس میں سپریم کورٹ کسی تنازع پر مکمل انصاف کرتی ہے، مکمل انصاف کا اختیار استعمال کر کے اس فریق کو ریلیف نہیں دیا جاسکتا جو عدالت کے سامنے موجود ہی نہیں۔

جس پر جسٹس جمال مندوخیل نے مخدوم علی خان سے کہا کہ یہ سول کورٹ نہیں سپریم کورٹ ہے۔ 

وکیل مخدوم علی نے کہا کہ کل کو یہ عدالت مالک مکان اور کرایہ دار کے تنازع پر 185/3 کی اپیل سنے اور مکمل انصاف کر کے تیسرے فریق کو ریلیف دے گی؟ 

جس پر جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ کرایہ دار اور مالک مکان کا تنازع ذاتی نوعیت کا ہے، یہاں عوام کے حق رائے دہی کا معاملہ تھا۔

وکیل مخدوم علی نے کہا کہ اقلیتی فیصلے میں جسٹس یحییٰ آفریدی نے لکھا مکمل انصاف کا اختیار استعمال کرنا خطرناک ہوسکتا ہے۔ 

جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ جسٹس یحییٰ آفریدی نے لکھا کہ مکمل اختیار اہم معاملہ ہے احتیاط سے استعمال کیا جائے۔

وکیل مخدوم علی خان نے کہا کہ جسٹس یحییٰ آفریدی نے لکھا کہ مکمل انصاف کا اختیار شفاف ٹرائل کو ختم کرسکتا ہے، 8 ججوں نے اکثریتی رائے میں آئین کو ری رائٹ کیا، اکثریتی فیصلے میں دی گئی ٹائم لائن آئین سے ماورا ہے۔ 

جسٹس جمال مندوخیل نے وکیل مخدوم علی خان سے سوال کیا کہ اگر آپ کی نظرثانی قبول ہوتی ہے تو کونسا فیصلہ بحال ہوگا؟

وکیل مخدوم علی خان نے کہا کہ کسی اقلیتی فیصلے کے خلاف نظرثانی نہیں ہے، نظرثانی والا فیصلہ کالعدم ہوگا عدالت کوئی بھی اکثریت سے کر سکتی ہے۔ 

جس پر جسٹس مسرت ہلالی نے ریمارکس دیے کہ پٹھان کی ایک زبان ہوتی ہے وہ نہیں بدلتا۔

جس کے بعد جسٹس امین الدین خان نے مخصوص نشستوں کے کیس کی مزید سماعت کل تک ملتوی کرتے ہوئے کہا کہ سنی اتحاد کونسل کے وکیل کل دلائل دیں گے۔

واضح رہے کہ گزشتہ سماعت میں سپریم کورٹ آف پاکستان نے مخصوص نشستوں کے کیس کی سماعت کو براہ راست نشر کرنے کی اجازت دی تھی۔

سپریم کورٹ کے آئینی بینچ نے مخصوص نشستوں سے متعلق کیس میں سنی اتحاد کونسل کی متفرق درخواستوں پر فیصلہ سنایا تھا۔

عدالت نے بینچ کی تشکیل پر اعتراضات کی درخواستیں مسترد کر دی تھیں جبکہ مخصوص نشستوں کے کیس کی سماعت 26ویں ترمیم کی درخواستوں کے فیصلے کے بعد سماعت کرنے کی درخواست بھی مسترد کر دی تھی۔

قومی خبریں سے مزید