• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آئیے ہم اور آپ 2047 پاکستان سنچری کے پر مسرت وقت کے مسائل اور وسائل کے بارے میں سوچیں۔ آئیے غور کریں کیا ریاست پاکستان اس وقت اپنے 25 کروڑ بیٹوں کی صلاحیتیں اور توانائیاں اپنے استحکام کیلئے استعمال کر رہی ہے۔ کیا 2047میں اس وقت کی متوقع آبادی 42کروڑ کی معاشی ضروریات کیلئے ہمارے وسائل موجود ہوں گے۔ یہ دیکھنا ہوگا کہ کیا مملکت پاکستان کے رقبے اب پوری طرح کاشت ہو رہے ہیں۔ کیا پہاڑوں میں چھپے سارے معدنی خزانے دریافت ہو چکے ہیں۔ کیا ریگزاروں تلے بہتے تیل کے کنویں ہم شناخت کر چکے ہیں۔ کیا ہمارے طویل دریا ہمیں مطلوبہ بجلی فراہم کر رہے ہیں۔ یہ وہ سوالات ہیں جو ہماری اولادیں ہم سے پوچھتی ہیں۔ اب تو مصنوعی ذہانت بھی ہمارے ذہنوں پر دستک دے رہی ہے۔

آج اتوار ہے اپنے بیٹوں بیٹیوں، پوتوں پوتیوں، نواسوں نواسیوں، بہووں دامادوں کے ساتھ دوپہر کے کھانے پر بیٹھنے نسلوں کے درمیان رابطے کا دن۔ ہر اتوار بہت اہم ہے اسے ہنس کر گزار دیں، رو کر یا سو کر۔ اسی دن ہمیں اپنے محلے والوں سے بھی ملنا چاہئے۔ان کا دکھ درد جاننا چاہئے۔ یہ سب کچھ آپ کر سکتے ہیں ۔اس سے آپ کو کوئی مافیا نہیں روک سکتا۔


میں کئی ہفتوں سے عجب کشمکش میں مبتلا ہوں بہت سے دوست نامور اور عام دنیا سے اٹھ رہے ہیں اور میرے اعصاب مجھ سے یہی پوچھتے ہیں کہ کیا ان پاکستانیوں کے خوابوں کو تعبیر ملی؟ کیا ہم نے ان کی ذہنی صلاحیتوں اور توانائیوں سے پورا فائدہ اٹھایا۔ اتنی کتابیں شائع ہوتی رہتی ہیں خاص طور پر آپ بیتیاں ان کے تجربات سے بھی ہم کوئی سبق حاصل نہیں کر رہے۔ اللہ تعالیٰ تو ہم پر مہربان ہے وہ ہمیں نواز رہا ہے، ہنستے مسکراتے غنچے ہماری گودوں میں ڈال رہا ہے۔ ہم ان کی پرورش کیسے کرتے ہیں۔ ایک ریاست کے حکمرانوں اور سارے ریاستی اداروں کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ ان بچوں بچیوں کی پرورش کے دوران والدین کو ایک پر سکون ماحول فراہم کریں۔ جہاں وہ ملک کی ضروریات پیش نظر رکھتے ہوئے ان انسانی وسائل کی بہبود کریں۔ قوم کو اکاؤنٹنٹ چاہئیں ،معیشت دان چاہئیں۔ تعمیرات کے ماہرین درکار ہیں یا زراعت صنعت میں ذمہ دار افراد۔ کیا ہمارے ہاں ایسی کوئی حکمت عملی ہے جسکے تحت پاکستان کی حدود میں پیدا ہونے والے ہر بچے کے ذہن کی افتاد جانچی جائے۔ پھر انہی راستوں پر اسے آگے بڑھنے کی آزادی دی جائے۔ یہ تو طے شدہ امر ہے کہ آج ہم جن حالات سے دوچار ہیں وہ اب تک کے حکمرانوں اور اداروں کی کارروائیوں اور پالیسیوں کا نتیجہ ہیں اور آج ہم ریاستی سطح پر جو فیصلے کر رہے ہیں ان کا نتیجہ اچھا یا برا ہماری آنے والی نسلوں کو در پیش ہو گا۔

ایک تحقیق کے مطابق واہگہ سے گوادر تک ہر روز 60 سال سے زیادہ عمر کے قریباً پانچ ہزار پاکستانی دفن ہوتے ہیں۔ کیا انکے جنازے کو کندھا دیتے ہوئے اس محلے شہر صوبہ یا ریاست کے لوگ یہ جانچنے کی کوشش کرتے ہیں کہ اس مرحوم کی ذہنی صلاحیتوں، جسمانی توانائیوں کو پوری طرح پاک سرزمین کے حق میں استعمال کیا گیا یا نہیں۔

جمہوری نظام میں ہر فرد کی توانائی کو بخوبی استعمال کرنے کی گنجائش ایک فرد ایک ووٹ کے اصول کے تحت رکھی گئی ہے۔ سیاسی پارٹیوں کے منشور سے ان افراد کا اتفاق ہو قومی صوبائی اسمبلیوں کے امیدوار پارٹی کارکنوں کی مشاورت سے ٹکٹ حاصل کریں پھر وہ ہر اتوار اپنے کارکنوں سے ملتے ہوں ان سے معلومات حاصل کر کے اپنی اپنی اسمبلیوں میں اپنے حلقوں کے مسائل حل کرواتے ہوں۔ اس طرح بلوچستان ،سندھ، پنجاب ،کے پی کے، آزاد جموں و کشمیر اور گلگت بلتستان کی اکثریت یہ محسوس کرے کہ انہیں فیصلہ سازی میں شریک کیا جا رہا ہے۔

پاکستان بد قسمتی سے ان ملکوں میں شامل ہے جہاں وسائل اور فیصلے کی قوت چند ہاتھوں میں سمٹ کر رہ جاتی ہے۔ اس طرح مواقع اور فوائد کی تقسیم بھی غیر منصفانہ ہو جاتی ہے۔ اکثریت میں احساس محرومی شدت پکڑتا ہے اور یہ تاثر عام ہو جاتا ہے کہ اکثریت کی رائے کی کوئی وقعت نہیں ۔پاکستان میں یہ تاثر قیام پاکستان سے ہی موجود ہے بہت کم ایسے لمحات آئے ہوں گے جب قوم میں اکثریت نے محسوس کیا ہو کہ ان سے بھی مشورہ کیا گیا ۔ہمارے پہلے وزیراعظم کو شہید کر کے کتنے آئیڈیاز کتنی صلاحیتیں ان کے ساتھ ہی دفن کر دی گئیں۔ بعد میں بھی پاکستان کے بے شمار رہنماؤں اور کارکنوں کو ،علماء اساتذہ کو اسی طرح رخصت کیا جاتا رہا ہے۔ کئی معزز رہنماؤں کو سالہاسال جیلوں میں محبوس رکھ کر ملک کو انکی صلاحیتوں سے محروم کیا گیا۔ ہمارے کارخانوں کی گنجائش کو پوری طرح نہیں برتا جاتا نہ ان کارخانوں کے کارکنوں کی صلاحیتیں پوری طرح استعمال ہوتی ہیں۔ نہ ہی درسگاہوں میں اساتذہ کی ذہنی استعداد سے پورا کام لیا جاتا ہےاس طرح ولولہ تازہ میسر آتا ہے اور نہ جیتے رہنے کا جوش و خروش۔

ہمیں مختلف قسم کی کشمکشوں میں دیدہ دانستہ الجھایا جاتا ہے جن میں جمہوریت اور آمریت ،فرقہ واریت، صوبائیت، نسلی لسانی تضادات سر فہرست ہیں۔ من پسند افراد کو کلیدی عہدے دیے جاتے ہیں جو ان کے معیار کے نہیں ہوتے۔ ہماری شرح نمو وقت کے تقاضوں کے مطابق نہیں رہی۔

ہم اپنے طور پر سوچ رہے ہیں 14اگست 2025کو ایک فیصلہ کن موڑ بنائیں۔ 78سال گزر چکے ہیں ان میں زمانے کی رفتار کے مطابق ہمیں مختلف شعبوں میں جہاں ہونا چاہیے تھا وہاں نہیں ہیں۔ ہمیں اس صورتحال کے ذمہ داروں کا بھی علم ہے لیکن اس وقت اس بحث میں پڑے بغیر ہمیں آئندہ 22سال کے اہداف متعین کرنے چاہئیں۔ زندہ قومیں ایسے کرتی ہیں۔ ہمارے سامنے جاپان جرمنی کی مثالیں ہیں کتنی بڑی جنگوں کی بربادی سے نکل کر انہوں نے اپنے آپ کو ترقی یافتہ ملکوں میں سر فہرست پہنچایا ہے۔ ضرورت یہ ہے کہ اپنے طور پر یونیورسٹیاں تحقیقی ادارے اگلے 22سال کے اہداف کا تعین کریں کہ 2047میں ہمیں خود کفالت کی جس سطح پر ہونا چاہیے اس کے حصول کیلئے ان 22برسوں میں کیا حکمت عملی اختیار کی جائے۔ ہر پانچ سال کے اہداف مقرر کیے جائیں۔ یہ کوئی مشکل کام نہیں۔ اب تو مصنوعی ذہانت بھی میسر ہے اور ہمارے سامنے بہت سے ملکوں کے تجربات بھی ہیں۔ ان میں سے کسی ایک ملک کو اپنا آئیڈیل بنائیں اور اس کے تجربوں کو اپنے تجربات کی بنیاد بنائیں۔ پاکستان سنچری کے مقاصد اپنی منزلوں کا تعین ہمیں کرنا ہے اور آپ یہ سب کچھ کر سکتے ہیں۔ ہماری آپ کی اولادوں میں یہ صلاحیت تدبر موجود ہے۔ بس یہ احتیاط ہو گی کہ سامراجی ممالک اور ان کے گماشتے ہمیں غیر ضروری مباحث میں الجھا کر ہماری ذہنی استعداد غیر متعلقہ مباحث میں ضائع کرواتے ہیں اس سے گریز کیا جائے۔ بہت صلاحیتیں توانائیاں ضائع ہو چکی ہیں۔ اب کوشش یہ ہو کہ ہر فرد کا ہر لمحہ صرف اور صرف پاکستان سنچری کے لیے وقف ہو۔

تازہ ترین