• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پاکستان کی کمزور جمہوریت سخت و سست موسم کا سامنا کرتے ہوئے اپنے سفر کو جاری رکھنے کی کوشش کر رہی ہے۔ ایسے میں عمران خان ایک بار پھر سونامی کے عنوان سے ایک تحریک کو چلائے ہوئے ہیں ، جس کا مقصد مبینہ طور پر ملک کے عام انتخابات میں ہونے والی دھاندلی کے خلاف احتجاج کرنا ہے اور وہ 4مخصوص حلقوں میں انگوٹھوں کے نشانات کی تصدیق کے ذریعے دھاندلی کا پردہ چاک کرنا چاہتے ہیں لیکن یہ بتانے سے قاصر ہیں کہ کس قانون کے تحت صرف 4حلقوں میں یہ عمل کیا جاسکتا۔ اگر عدالتیں اور حکومت انہیں 4حلقوں میں یہ ریلیف دیتی ہیں تو پورے پاکستان میں یہ قضیہ کھڑا ہوجائے گا اور ہر ہارا ہوا امیدوار اپنے حلقے میں ووٹوں کی تصدیق کا مطالبہ کرے گا اور وہ ا س مطالبے میں حق بجانب ہوگا۔
بعض مبصرین کے نزدیک بادی النظر میں عمران خان یہ چاہتے ہیں کہ پاکستان کے عام انتخابات کی ساکھ ختم ہوا ور ملک میں نئے انتخابات کی راہ ہموار ہو۔ شاید وہ اس لئے ایسا چاہتے ہیں کہ اپنے انتہائی منتشر اور کمزور مینڈیٹ کو وہ یکجا رکھنے میں کامیاب نہیں ہو پا رہے ہیں جبکہ دوسری جانب پاکستان کی تمام سیاسی جماعتیں موجودہ اسمبلیوں کو اپنی مدت پوری کرنے کا موقع دینا چاہتی ہیں۔ اس ضمن میں 25مئی کے روز ملک میں کئی احتجاجی ریلیاں اور جلسے منعقد کیے گئے۔ ایک جلسہ فیصل آباد میں سونامی کے عنوان سے ہوا جس میں شرکاء کی تعدا د کے اعتبار سے متضاد آراء پائی جاتی ہیں اور کہا یہ جارہاہے کہ یہ جلسہ تعداد کے اعتبار سے کوئی تاثر چھوڑنے میں کامیاب ہوا نہ ہی مقاصد کے حصول میں اس ضمن میں کوئی خاطرخواہ کامیابی حاصل کرسکا۔ اسی روز کراچی میں دو مذہبی جماعتوں کے بھی اجتماعات ہوئے جو اپنی نوعیت کے اعتبار سے روایتی جلسے تھے لیکن 25مئی کی خصوصیت کراچی کے تبت سینٹر پر ہونے والی ریلی کراچی کی نمائندہ تنظیم کے کارکنان اور عوام نے اپنے قائد سے اظہارِ یکجہتی کیلئے منعقد کی تھی۔ تبت سینٹر سے لے کر مزارِ قائد اور ملحقہ سڑکوں تک عوام کا جم غفیر موجود تھا۔اس ریلی کا حدود اربعہ بتانے کا مقصد یہ ہے کہ قارئین شرکا کی تعداد کا اندازہ خود لگا سکیں۔ محتاط اندازے کے مطابق یہ ریلی اپنے مقاصد اور عوام کی شرکت کے اعتبار سے پاکستان میں اس روز ہونے والی تمام ریلیوں اور جلسوں سے منفرد تھی۔گزشتہ 35برسوں سے یہ جماعت شہر کراچی کا مینڈیٹ حاصل کیے ہوئے ہے لیکن اس ریلی کی خصوصیت یہ تھی کہ اس تحریک کے وہ کارکنان جنھوں نے قائدتحریک کے ہمراہ اس تحریک کا آغاز کیا تھا، وہ آج بڑھاپے کی دہلیز پر ہیں لیکن جب راقم نے اس ریلی کے شرکاء کا جائزہ لیا تو ایک بار پھر نوجوانوں کی بہت بڑی تعداد موجود تھی۔ اگر میں یہ کہوں کہ یہ تعداد 70فیصد سے زائد تھی تو غلط نہ ہوگا۔ اتنی بڑی تعداد میں نوجوانوں کی شرکت اس بات کی غماز ہے کہ متحدہ کے قائد کا سیاسی فلسفہ نئی نسل کو منتقل ہوا ہے۔ اس میں ایسے نوجوان بھی موجود تھے جنھوں نے کبھی الطاف حسین کو براہِ راست دیکھا سنا ہونہ ہو لیکن پھر بھی وہ دیوانہ وار اس ریلی میں شریک ہوئے۔ تحریک کی طلبہ تنظیم کی جانب سے تیار کیا گیا ترانہ جب اس ریلی میں بجایا گیا تو اس وقت شرکائے ریلی کا جوش و خروش ایک نئی تاریخ رقم کر رہا تھا اور اسے اس ریلی کا نقطہ عروج بھی کہاجاسکتا ہے۔ بنیادی طور پر یہ ریلی اس لئے منعقد کی گئی کہ الطاف حسین 22سال سے برطانیہ میں جلا وطن ہیں اور اب انہیں وہاں کی انتظامیہ کی طرف سے ہراساں کیاجارہا ہے۔ ان کے بینک اکائونٹ کافی عرصے سے منجمد کیے گئے ہیں۔ ان کا گھر کا سازو سامان، یہاں تک کہ ان کی بچی کا آئی پیڈ اور دیگر الیکٹرانک ڈیوائسز اس وقت برطانوی حکام کی تحویل میں ہیں اور اس بات کو ایک سال کا عرصہ بیت چکا ہے۔ ایم کیو ایم یہ سوال کرنے میں حق بجانب ہے کہ اگر ایک سال میں برطانوی ادارے کوئی مقدمہ قائم نہیں کرسکے ہیں تو وہ یہ بتائیں کہ وہ کس قانون کے تحت انہیں ہراساں کر رہے ہیں۔
یہ ریلی پاکستان کی سیاست پر دور رس نتائج اس لئے مرتب کرے گی کہ پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار اتنی بڑی تعداد میں کسی سیاسی رہنما سے اظہارِ یکجہتی کے لئے کارکنان او رعوام نے اپنے جذبات کا اظہار کیا ہے۔ پاکستان کا سیاسی نظام خاصا آلودہ ہے۔ اس میں شکست خوردہ قوتیں اپنے سامنے والی سیاسی جماعتوں پر دھاندلی کے الزامات عائد تو کرتی رہتی ہیں لیکن کھلے دل سے اپنی شکست کا اعتراف نہیں کرتیں۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان کے سیاسی نظام میں کوئی سیاسی جماعت دیرپا بنیادوں پر اپنے مینڈیٹ کو برقرار نہیں رکھ پاتی۔ لیکن جس سیاسی جماعت نے 35برس تک اپنے مینڈیٹ کو برقرار رکھا ہے ا س پر طاقت کے استعمال کا بھونڈا الزام عائد کیاجاتا ہے جسے آج تک کسی سطح پر ثابت نہیں کیاجاسکا۔ اگر پاکستان کے سیاسی نظام کومضبوط کرنا ہے تو ہمیں طاقت کی بجائے دلیل سے بات کرنا ہوگی۔ پاکستان کے انتخابی نظام میں اصلاحات بھی ممکن ہیں اور اس میں حکومت کو پہل کرنی چاہئے اور وہ کوئی وسیع البنیاد اصلاحاتی پیکیج متعارف کروا کر مذاکرات کا آغاز کرے اور مباحثے کے ذریعے نظام میں اصلاحات نافذ کرے اور دھاندلی کا راستہ بند کیاجائے۔ یہ اسی وقت ممکن ہے جب ہم ماضی سے سبق لیتے ہوئے اسے تکلیف دہ باب سمجھ کر بند کردیں اور آگے کی جانب دیکھتے ہوئے اصلاحات کے لئے کام کریں۔
تازہ ترین