ان دنوں انڈیا اور پاکستان نے عالمی رائے عامہ کو اپنے حق میں ہموار و استوار کرنے کیلئے اپنے اپنے سفارتی وفود مختلف مؤثر ممالک و مقامات پر بھیج رکھے ہیں۔ ان وفود کو عالمی سطح پر جس نوع کے سوالات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے وہ دلچسپ ہیں۔ دونوں ممالک کے وفود اپنے اپنے ممالک کو امن و سلامتی کے داعی، انسانیت نواز، اقلیتوں اور کمزور طبقات کے رکھوالے، دہشت گردی اور خون خرابے کا شکار یا اسکا سامنا کرنیوالے لبرل و روشن خیال جمہوری ممالک کی حیثیت سے اُجاگر کرنے کیلئے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہے ہیں جبکہ اپنی ہمسائیگی کو ان تمام آلائشوں کا منبع قرار دے رہے ہیں۔ انڈین ڈیلیگیشن کی قیادت منجھے ہوئے سفارت کار ششی تھرور کر رہے ہیں جو اقوامِ متحدہ کے ڈپٹی سیکرٹری جنرل رہ چکے ہیں۔ انکے بالمقابل پاکستانی وفد کی قیادت جو نوجوان کر رہا ہے اس کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ وہ محترمہ بے نظیر بھٹو کا بیٹا ہے اپنی اسی کوالٹی کو وہ بار بار پیش بھی کر رہا ہے۔ انڈین وفد کو ایک اور برتری یہ حاصل ہے کہ ان میں حکمران پارٹی کے علاوہ تقریباً تمام بڑی اپوزیشن پارٹیوں کی نمائندگی موجود ہے اسی طرح مختلف علاقوں اور مذاہب کے لوگوں کی ایک طرح سے ورائٹی ہے اسدالدین اویسی جیسے کٹر مسلمان بھی بھارت سرکار کا مقدمہ لڑنے کیلئے پیش پیش ہیں۔ جو مسلم ممالک کے عمائدین کو بھی یہ بتا رہے ہوتے ہیں کہ ہم مسلمان انڈیا میں بیس کروڑ سے بھی زیادہ ہیں اور ہم بھارتی سیکولرزم میں خوش ہیں جبکہ ہمارا شریر ہمسایہ پاکستان ہمیں ہندو مسلم تنازع بنا کر لڑوانا چاہتا ہے۔ یوں مودی سرکار کی بہت سی کوتاہیاں اس گرجدار آواز میں دب کر رہ جاتی ہیں جبکہ ہمارے سفارتی وفد کی قیادت کرنیوالے نوجوان بلاول بھٹو کی زبان پر بوچر مودی کے الفاظ خوب چڑھے ہوئے ہیں وہ بوچر آف گجرات ہے وہ بوچر آف کشمیر ہے اور اب بوچر آف سندھ ہے اور یہ کہ انڈیا پاکستان کا ازلی دشمن ہے جس کے چھ طیارے ہم نے مار گرائے ہیں بھارت دہشت گردی کو سیاسی ہتھیار کے طور پر استعمال کر رہا ہے جبکہ خطے میں امن مسئلہ کشمیر کے بغیر ممکن نہیں، کشمیر کو ہم کسی صورت نہیں چھوڑ سکتے بھارت کی جانب سے کسی بھی ایسی اوچھی حرکت سے پاکستان کیلئے دہشت گردی کا مقابلہ کرنا چیلنج بن جائے گا۔ دوسری طرف ششی تھرو کا پاکستان پر الزام یہ ہے کہ ہمارا یہ ہمسایہ ملک آتنک واد کو بطور سیاسی ہتھیار استعمال کرتا ہے دہشت گردوں کے ذریعے کبھی ہماری پارلیمنٹ پر حملہ کرواتا ہے تو کبھی ممبئی جیسے پرامن شہر کو خون سے نہلا دیتا ہے، کبھی کارگل کو قبضایا جاتا ہے، اڑی پلوامہ اور پٹھان کوٹ میں دہشت گردی کی جاتی ہے اور اب پہلگام میں وہی تاریخ دہرائی گئی جہاں چن کر ہندو دھرم کے چھبیس Non-combatants کو مارا گیا ہے، ہم نے جوابی طور پر صرف آتنک واد کے اڈوں کو نشانہ بنایا کسی ملٹری بیس کو ٹارگٹ نہیں کیا مگر پاکستان نے ہمارے گرودوارہ سمیت سویلین مقامات پر میزائل داغے جس کا ہمیں جواب دینا پڑا مگر پھر بھی پاکستان کے ساتھ دہشت گردی کے خلاف کاروائی کیلئے بات چیت ہو سکتی ہے ہم ان سے ہندی، پنجابی اور انگریزی میں ہر طرح سے شرافت اور امن کی بات کر سکتے ہیں تاکہ مشترکہ وژن تلاش کیا جا سکے۔ پاک ہند سفارتی وفود کے دلائل جو بھی ہیں اور انکے جوبھی اثرات عالمی رائے عامہ پر مرتب ہونگے دیکھنے والی بات یہ ہے کہ انڈین حکومت کا سرکاری مؤقف ہمیشہ سے یہ چلا آرہا ہے کہ وہ باہمی تنازعات میں کسی تھرڈ پارٹی کی مداخلت قبول نہیں کرے گا، ابھی ”آپریشن سندور“ کے بعد جس نوع کی سہ روزہ جھڑپیں یا میزائل بازی دونوں ممالک کے درمیان ہوئی امر واقعہ تو یہی ہے کہ انہیں مزید بڑھنے سے روکنے کیلئے تھرڈ پارٹی کی مداخلت بہرحال ہوئی۔ جہاں دونوں ممالک کے مشترکہ دوست ممالک نے امن و سلامتی کیلئے کردار ادا کیا وہاں سب سے بڑھ کر امریکا پیش پیش رہا بلکہ فائر بندی کی خبر سب سے پہلے واشنگٹن سے صدر ٹرمپ نے جاری کی اور بعد ازاں پیہم دونوں ممالک کو فائر بندی پر آمادہ کرنے کیلئے امریکی رول کا تذکرہ کرتے پائے گئے۔ آخر مودی سرکار کی ایسی کیا ضد تھی کہ وہ مسلسل اس کی نفی کرتے ہوئے ایک ہی رٹ لگاتے رہے کہ ہم دو طرفہ تنازعات میں تیسرے فریق کی مداخلت قبول نہیں کر سکتے۔ اس پس منظر میں دیکھا جائے تو اس وقت پاکستان سے بھی پہلے انڈیا نے عالمی رائے عامہ کو اپنی حمایت میں ہموار کرنے کیلئے وفود بھیجنے کا اہتمام کیا اصولی طور پر یہ آپ کے سرکاری مؤقف کی ازخود نفی ہے۔ جب آپ دیگر ممالک کو اپنی مطابقت میں قائل کریں گے تو بات دو طرفہ ہرگز نہ رہ پائے گی۔ آج انڈیا کی اسی دورخی ضد کا اثر ہے کہ حالیہ مزائل حملوں میں انڈیا عالمی حمایت سے قطعی محروم ہو کر رہ گیا۔ سوائے اسرائیل کے کسی ایک ملک نے بھی کھلے بندوں انڈیا کی حمایت میں کھڑے ہونا پسند نہیں کیا۔ مودی سرکار نے بشمول کینیڈا دوسرے ممالک میں آتنک واد کے نام پر جس نوع کی کاروائیاں کی ہیں انکی ”برکت“ سے نوبت یہاں تک پہنچی ہے کہ جی سیون میں کینیڈا نے مودی جی کو مدعو ہی نہیں کیا۔ دوسری طرف پاکستان جس کی عالمی پہچان بوجوہ خراب چلی آ رہی ہے جمہوری و سیاسی ہی نہیں معاشی طور پر بدحالی ایسی ہے کہ آئی ایم ایف سے رجوع کرنا ہی پڑتا ہے لیکن حالیہ پاک ہند چپقلش میں چین، ترکیہ اور آذر بائیجان نے کھل کر پاکستان کا ساتھ دیا ہے اگر آرمینیا کے بالمقابل پاکستان نے اپنے ترک اور آذر بائیجان کے بھائیوں کا کھلا ساتھ دیا تھا تو انہوں نے بھی جوابی طور پر حق ادا کیا ہے جبکہ مودی جی آپ کے ساتھ تو آرمینیا والے بھی کھل کر نہ آئے۔ لہٰذا وفود کی کارکردگی جو بھی ہو آپ کو اپنی خود پسندی اور اکڑفوں والی پالیسی پر نظرثانی کرنا پڑے گی، اپنی خود پسندی کے خول سے باہر نکلنا ہو گا۔